کوثر خان کوثر لنڈن
وہ نیلا کُرتہ سواتی وہ میرے بچپن کا زمانہ
وہ بارش میں بھیگنا بھیگ کر گُنگُنانا
وہ بچپن کی یادیں وہ یادوں کا خزانہ
تم نے پھر کیوں ثناءاللہ یاد تھا وہ دِلانا
چھڑا کر دامن سکھیوں کا کرنا بہانا
کبھی مان جانا کبھی روٹھ کر پھر ستانا
ابھی تک ھے یاد مجھ کو وہ بچپن کا زمانہ
چھین کر لے گیا ھےوقت مجھ سے میرا خزانہ
اماں باوا کے پیچھے چپکے سے جاتی تھی میں
موند کر نیناں کبھی نخرے دکھاتی تھی میں
کر کے ضد خود ھی سنگ اپنے رلاتی تھی میں
کبھی بانہیں ڈال کر سینے سے لگ جاتی تھی میں۔
اب چوٹ لگتی ھے دل پہ لڑکھڑاتے ھیں قدم
سنبھلنے کو گرتے ھیں گِر کر ڈگمگاتے ھیں ھم
ابھی سوچتے ھیں بہت ،سوچ کر بھٹکتے ھیں ھم
اپنی ھی نظروں میں خود ھی کھٹکتے ھیں ھم
سنگ سب اپنوں کا ھےمگر تنہائیاں ھیں اب
ھر قدم پہ منتظر تازہ رسوائیںاں ھیں اب
میرے بچپن تیری یادوں کی ٹوٹتی انگڑائیاں ھیں اب
سایہ فگن مجھ پہ غم کی یہ پرچھائیاں ھیں اب
کبھی ھنستی تھی میں اور قہقہے لگاتی تھی میں
بھیا اور اپنے لالہ کو خوب ھی ستاتی تھی میں
اب ترستی ھوں ھنسنے کو اور خوب روتی ھوں میں
روتے روتے خود ھی تنہا اب سوتی ھوں میں
کہتے ھیں سب کہ بچپن کی عمر ھے انجانی
مگر جانے کیوں چلی آئی یہ بے مروت جوانی
بچپن سے بڑھ کر ھے یہ ظالم دیوانی
منہ زور جزبوں سے لبریز مرگِ ناگہانی
نہ جانے ھوا کیا یہ کیا سے کیا ھو گیا
وہ بےفکری کا عالم نہ جانے کہاں کھو گیا
یہ تم تو نہیں ھو کوثر تمھیں آج کیا ھو گیا
عکس ھے یہ تمھارا مگر پسِ آئینہ کھو گیا
وہ نیلا کُرتہ سواتی وہ میرے بچپن کا زمانہ
وہ بارش میں بھیگنابھیگ کر گُنگُنانا
وہ بچپن کی یادیں وہ یادوں کا خزانہ
تم نے پھر کیوں ثناءاللہ یاد تھا وہ دِلانا