Breaking News
Home / City News / وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کریں،جسٹس سید منصور علی شاہ

وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کریں،جسٹس سید منصور علی شاہ

وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کریں

اسلام آباد، ادارہ برائے سماجی انصاف کے زیر اہتمام اقلیتوں کےحقوق کے حوالے سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان، تصدق حسین جیلانی کی جانب سے 19 جون 2014 کو جاری کردہ سپریم کورٹ کےتاریخی فیصلےکی مناسبت سے کانفرنس بعنوان” عدل کب سرخرو ہو گا” کا انعقاد کیا گیا۔ معزز جسٹس سید منصور علی شاہ کانفرنس کے مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس میں معروف وکلاء، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے ماہرین بشمول پیٹر جیکب، ڈاکٹر شعیب سڈل، ڈاکٹر عبد الحمید نیئر، ڈاکٹر اسلم خاکی، ڈاکٹر یعقوب خان بنگش، ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ، جینیفر کرسٹین، شفیق چوہدری اور جیا جگی نے بطورمقررین شرکت کی ، فارعہ خان نے نظامت کے فرائض سرانجام دئیے ۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں دشواریوںکا نوٹس لیا اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد حکومتی و انتظامی اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے، عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کرنا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عقیدہ ذاتی معاملہ ہونا چاہیے اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں جس کی پاکستان کے آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے زور دیا کہ ریاستی اداروں کو اقلیتوں کو تشدد اور خلاف ورزیوں سے بچانے کے لیے آئینی دفعات کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا چاہیے، ، سماجی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے حکمت عملی اور پالیسیاں متعارف کرانا چاہیے، اور تمام برادریوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے اقدامات اُٹھانے چاہیے نیزاقلیتوں کی شکایات کے ازالے کے لیے ادارے قائم کرنا چاہیے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی عدم تعمیل واضح ہے، گورننس کی کمزوری تمام درجوں میں ہے، اس لیے سرکاری اہلکاروں کو عدالتی احکامات پر عملد رآمد یقنی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خصوصی پلیٹ فارمز بشمول عملدرآمد کمیٹیاں، مانیٹرنگ بینچ، قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت وغیرہ کی بھی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے ضرورت یا کمی کو اجاگر کریں۔ لہٰذا، حکومت کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کو ترجیح دینی چاہیے تا کہ ملک کو جمہوری ترقی سے روکنے والے عوامل کا سدباب کرنا چاہیے۔
ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں گزشتہ چھ سال سے سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں اورعدالتی فیصلے میں دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کے حوالے سے انتظامیہ کی طرف سے سستی دیکھی گیی ہے۔ لہذا تمام اداروں بشمول عدلیہ، ایگزیکٹو برانچ اور پارلیمنٹ کو اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئین کے تحت “سب کے لیے مساوات” کا وعدہ پورا ہو سکے۔
ڈاکٹر عبد الحمید نیئر نے کہا کہ لازمی مضامین جیسے اردو، انگریزی، سماجی علوم وغیرہ کی کُتب میں ایک مخصوص مذہب کی تعلیمات کے نتیجے میں آرٹیکل 22(1) میں دیے گئے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی عہدیدار کی طرف سے عدالتی حکم کا انحراف نہ صرف توہین عدالت کے مترادف ہے بلکہ آئینی ضمانت کی جان بوجھ کر خلاف ورزی بھی ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی احکامات پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا اور سرکاری اداروں کی جانب سے پیش رفت نہ ہونے ک کی وجہ سے ایک رکنی کمیشن کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ سپریم کورٹ کا عملدرآمد بینچ باقاعدہ کارروائی کے لیے تشکیل دیا جائے اور توہین عدالت کے اختیارات کے ساتھ ایک رکنی کمیشن کو بااختیار بنایا جائے جو فیصلے پر عمل درآمد کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔
ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے چار احکامات ایسے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں جو نفرت انگیز تقریر، رواداری اور انسانی حقوق کی خلافف ورزیوں سے متعلق ہیں۔ اس عدالتی فیصلہ میں پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے ۔
اس کانفرنس میں انسانی حقوق کے محافظوں، وکلاء، ماہرین تعلیم اور صحافیوں نے بھر پور شرکت کی جس میں مقررین اور شرکاء نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے فقدان پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے موثر اور سنجیدہ اقداما تکریں۔ اس موقع پر ایک تحقیقی رپورٹ بعنوان “عدم تعمیل کی دہائی” جاری کی گیی جو عدالتی کارروائیوں اور عدالتی احکامات کی تعمیل کے جائزہ پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اصل سات ہدایات میں سے کسی پر بھی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی طرف سے مکمل طور پر تعمیل نہیں کی گئی جبکہ سپریم کورٹ کے بینچ نے 34 سماعتیں کیں، اور مجموعی طور پر 89 ضمنی ہدایات جاری کیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے 25 میں سے 9 اسکور حاصل کیا، اس کے بعد پنجاب حکومت 8اسکور کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے بالترتیب 6 اور 5 اسکور حاصل کیے ہیں۔ وفاقی حکومت کا سب سےکم سکور تھا، جو عدالتی ہدایات پر عمل کرنے میں رکی ہوئی پیش رفت کو ظاہر کرتا ہے۔

***

About Daily City Press

Check Also

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر عزم ہیں :سفیر ثقلین سیدہ

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *