Breaking News
Home / Columns / منافقت نامے

منافقت نامے

یاسر پیر زادہ

مجھ سے ملئے، میں ایک بزنس مین ہوں، اللہ کے فضل سے میرا کاروبار پورے ملک میں پھیلا ہے، ملک کے ہر بڑے شہر میں میرا دفتر ہے، سائیڈ بزنس کے طور پر کئی پلازے اور پٹرول پمپ بھی لے کر رکھ چھوڑے ہیں جن سے بیٹھے بٹھائے دال روٹی چل جاتی ہے۔ میرے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن کو تنخواہیں وقت پر ادا کی جاتی ہیں، کبھی کبھی دیر سویر ہو جاتی ہے مگر خدا کی مہربانی سے مہینے کی پندرہ بیس تاریخ تک کسی نہ کسی طرح سب کا حساب بیباک کر دیتا ہوں، اگرکبھی سال میں چار چھ مرتبہ تنخواہ میں دیری ہو جائے تو میں اپنے فنانس منیجر کو کہتا ہوں کہ تمام اسٹاف کو اکٹھا کرکے انہیں بجٹ مینجمنٹ کی تکنیک سکھائے جس سے انہیں پتہ چلے کہ اگر وہ مہینے کی بیس تاریخ کو یکم تصور کر لیں گے تو انہیں صرف ایک مرتبہ پریشانی ہوگی اس کے بعد ہمیشہ کے لئے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن سفید پوش طبقے کی عقل میں یہ سادہ سی بات بھی نہیں سماتی۔ آج کل minimum wageکا نیا تماشا شروع ہوا ہے کہ ایک مزدور کو کم سے کم چودہ ہزار ماہوار اجرت دی جائے اور ساتھ میں سوشل سیکورٹی اور ایسی ہی کچھ مزید خرافات۔ دراصل یہ ملک اسی لیے ترقی نہیں کرتا کہ یہاں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے، اگر کوئی شریف آدمی پاکستان میں فیکٹری لگا کر لوگوں کو روزگار دے رہا ہے تو اسے یہ کام کرنے دو مگر نہیں، دو درجن محکمے اس کے پیچھے لگا دیتے ہیں جن سے وہ روزانہ نمٹتا ہے، کاروبار کیا خاک ہوگا ! اگلے ماہ ایک نئی فیکٹری لگانی ہے، سوچ رہا ہوں بنگلہ دیش میں لگاؤں مگر پھر وطن کی محبت آڑے آ جاتی ہے، ہم لوگ ملک کا نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا! بزنس کے سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں آنا جانا لگا رہتا ہے، وہاں کی ترقی دیکھ کر آنکھیں چکاچوند ہو جاتی ہیں مگر دل خون کے آنسو روتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میرے اپنے ملک میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ میں سوئٹزرلینڈ میں گاڑی چلا رہا تھا کہ غلطی سے ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی کر بیٹھا، آن ہی آن میں پولیس والوں نے مجھے گھیر لیا، تاہم نہایت احترام سے پیش آئے، مجھے بتایا کہ میں نے کیا جرم کیا ہے اور اس کے بعد جرمانے کا ٹکٹ تھما کر چلتے بنے۔ اپنے ملک میں ایسے ہی ایک مرتبہ مجھے ٹریفک سارجنٹ نے اشارہ کاٹنے پر روک لیا تھا، میں نے پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما کر کہا کہ جرمانہ خود ہی جمع کروا دینا مجھے میٹنگ کے لئے دیر ہو رہی ہے۔ بندے کو اپنا صدقہ نکالتے رہنا چاہئے۔ بے شمار سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو میں اسی طرح صدقہ بانٹتا ہوں اور ایسا کرتے وقت میرے ذہن میں خدا کا وہ حکم رہتا ہے ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ مجھے تو بس اس ملک کا غم کھائے جا رہا ہے کہ اگر یہ کرپٹ سیاستدان اسی طرح ملک کو لوٹتے رہے تو کیا یہ ملک بچے گا !
مجھ سے ملئے، میں ایک سرکاری افسر ہوں، بد قسمتی سے عوام کے ذہن میں ہمارا تاثر فرعون نما شخص کا ہے مگر الحمدللہ میں بالکل عاجز اور down to earthقسم کا افسر ہوں، غرور اور تکبر مجھے چھو کر بھی نہیں گزرا، ایمانداری میرا شعار اور محنت میری عادت ہے، میں نے ہمیشہ قانون اور رولز کے مطابق بے خوفی سے کام کیا ہے اور کبھی پوسٹنگ کی پروا نہیں کی، ایک سرکاری افسر کے طور پر میں نے خود کو ہمیشہ قائداعظم کے فرمان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور خدا کا شکر ہے کہ میں اس کوشش میں کامیاب بھی رہا۔ کچھ ناسمجھ لوگ بیوروکریسی کو پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں یہ اندازہ نہیں کہ یہ بیوروکریسی ہی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے، دراصل ان گنوار عوام کو گورننس کی مشکلات کا علم ہی نہیں اور یہ منہ اٹھا کر تنقید شروع کر دیتے ہیں، اسی لئے جب بھی کوئی ایسا جاہل شخص مجھ سے ملنے آتا ہے تو میں کم از کم ایک گھنٹہ اسے انتظار کرواتا ہوں تاکہ اسے پتہ چلے کہ ہم فارغ نہیں بیٹھے ہوتے بلکہ ہمہ وقت کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایک دن ایسے ہی ایک شخص نے چٹ اندر بھیجی تو میں نے اچٹتی سی نظر ڈال کر پی اے کو کہا کہ اسے انتظار کرواؤ، پندرہ منٹ بعد مجھے وزیر صاحب کا فون آگیا کہ جس شخص کو میں نے باہر بٹھایا ہے وہ ان کا عزیز ہے (جلدی میں چٹ پر وزیر صاحب کا نام ہی نہیں پڑھ سکا)، میں نے اُن کا فون کھڑے ہو کر سنا اور اپنی معذرت کے پوز کی سیلفی بنا کر انہیں وٹس ایپ کی، تب جاں بخشی ہوئی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اُن صاحب کا کام میں نے فورا ً کر دیا تھا، جائز کام تھا، غالباً وہ کسی محکمے میں چھوٹا موٹا افسر تھا اور تین ماہ سے غیرحاضر تھا، اب اس کی انکوائری چل رہی تھی جس میں سے اسے بری کروانا تھا۔ لوگوں کے مسائل حل کرنا ہی تو بیوروکریسی کا فرض ہے۔ ایک اچھے سرکاری افسر کی نشانی ہے کہ وہ ہمیشہ حق گوئی سے کام لیتا ہے، ایک دفعہ کسی وزیر موصوف نے (جو میرے محکمے کے سربراہ نہیں تھے) مجھ سے کہا کہ وہ بے اختیار وزیر ہیں، اصل طاقت کسی اور کے پاس ہے، جواب میں وزیر صاحب کو میں نے کہا کہ سر اگر آپ بے اختیار ہیں تو ایک آنرایبل شخص کی طرح استعفیٰ دے ڈالیں مگر افسوس کہ انہوں نے میری تجویز پر کان نہیں دھرا۔ اس ملک کےیہی حالات دیکھ کر میں دل ہی دل میں کڑھتا ہوں، نہ جانے ان کرپٹ سیاست دانوں سے ہماری کب جان چھٹے گی اور یہ ملک ترقی کرے گا !
مجھ سے ملئے، میں ایک دیندار شخص ہوں، خدا کی مجھ پر خاص رحمت ہے اور اس رحمت کا تقاضا ہے کہ میں اپنی زندگی دینی اصولوں کی روشنی میں گزاروں، الحمدللہ میں ایک باریش شخص ہوں، پنج وقتہ نمازی ہوں، رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں، حسب توفیق زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، حج کی سعادت حاصل کر چکا ہوں، ہر سال کی طرح اس برس بھی خدا کی راہ میں قربانی کی اور چونکہ اس دفعہ ہاتھ ذرا کھلا تھا اس لئے چار صحت مند جانور قربان کئے اور اس میں سے ایک پورا بکرا جس کا وزن چالیس سیر سے کسی طور کم نہیں ہوگا اپنے مرحوم بھائی کی اکلوتی نشانی اپنے بھتیجے کے گھر بھجوایا مگر اس کم نصیب نے قربانی کا گوشت یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ چچاجان یہ بھی اسی جائیداد کے کھاتے میں رکھ لیں جس پر آپ نے قبضہ کر رکھا ہے۔ سگا خون ہے اس لئے میں چپ کر گیا ورنہ میں مولوی صاحب سے پوچھنے چلا تھا کہ اگر کوئی قربانی کا گوشت کو یوں ٹھکرائے تو شریعت میں اس کے لئے کیا حکم ہے ! وہ تو بھلا ہو میری بیوی کا، بہت ہی نیک اور اللہ لوک عورت ہے، یہ قصہ سنتے ہی بولی کہ سگا بھتیجا ہے، جوان خون ہے، سرکلر روڈ والی مارکیٹ اس کے نام کر دو ایسا نہ ہو کل کلاں کو چار پیسوں کی خاطر کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھے۔ اب میں اس جیون جوگی کو کیا بتاتا کہ بھائی جان مرنے سے پہلے تمام جائیداد میرے نام کر گئے تھے اور ساتھ میں حکم لگا گئے تھے کہ اُن کے بیٹے کی ذمہ داری میری ہوگی جو میں نے مسلسل دس برس تک مبلغ پندرہ ہزار روپے ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو بھتیجے کے گھر بھیج کر نبھائی جب تک کہ وہ بالغ نہیں ہو گیا، اب کسی کی طمع و حرص کی کوئی حد ہی نہ ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں !عید کے روز اسی برے موڈ میں بیٹھا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی، ہمسایوں کا لڑکا تھا، کہہ رہا تھا انکل آپ نے قربانی کرکے تمام آلائشیں گھر کے باہر پھینک دی ہیں پورے محلے میں گند پھیل گیا ہے۔ اُس بے دین کے منہ میں کیا لگتا فقط اتنا کہہ کر دروازہ بند کر دیا کہ جس جمہوریت کو تم ووٹ دیتے ہو اسی کے سیاستدانوں کو کہو کہ آکر گند صاف کریں! نجانے یہ ملک کب ترقی کرے گا، میں خدا کی رحمت سے مایوس تو نہیں مگر…!

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *