صورتحال
ہارون عدیم
گزشتہ دو روز سے ایک مو¿قر اور سنجیدہ انگریزی روزنامے میں کئے گئے انکشاف نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، 10اکتوبر کو قومی سلامتی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بارے میں اس مبینہ رپورٹنگ میں جس طرح افواج پاکستان کی قیادت پرنہ صرف بعض دہشتگرد گروپوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا ہے بلکہ یہ تآثر بھی دیا گیا ہے کہ جیسے سول انتظامیہ(حکومت) پنجاب میں چھپے ہوئے غیر ریاستی اداکاروں کے خلاف بھر پور ایکشن چاہتی ہے مگر عسکری قیادت ان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے،اگر تو یہ خبر صرف پاکستانی اخبار تک ہی محدود ہوتی تو اس کے بارے میں ”ذہنی اختراع“ ہونے کا گمان کیا جا سکتا تھا مگر حیران کن امر یہ ہے کہ یہ خبر بیک وقت عالمی منظر یا انٹرنیشنل اخباروں میں بھی نمودار ہو گئی۔ایسی ہی خبریں گزشتہ سال وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف کی امریکا یاترا سے پہلے بھارتی اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ افواج پاکستان ہیں، وہ دونوں دیشوں کے مابین دوستانہ فضاءکو زیادہ دیر چلنے نہیں دیتیں۔تب بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ کہ یہ خبر پاکستانی افواج کی کردار کشی کے لئے شائع کی گئی ہیں، یاد رہے کہ اس وقت امریکی اخبارات میں ایسی رپورٹس گردش کر رہی تھیں کہ پینٹا گون اور وائٹ ہاو¿س معاملات وزیر اعظم پاکستان کی بجائے پاکستان آرمی چیف کے ساتھ طے کرنے کا خواہش مند ہے، لہٰذا تجزیہ کاروں کا ماننا تھا کہ بھارت پاکستان آرمی کی کردار کشی کر کے امریکا کو یہ بآور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں امن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان آرمی ہے، جو کہ دہشتگردی کا حل نہیں بلکہ دہشتگردی کا حصہ ہے۔تب با خبر حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان میں قائم بعض میڈیا سیل ایسی خبریں باہر کے اخبارات میں شائع کرواتے ہیں پھر انہیں پاکستان میں درآمد کر کے شور شرابا کرتے ہیں، یہ ہے بھی حقیقت ماضی میں ہمارے میڈیا ہاو¿سز اور سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیلز ایسا کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس بات کے قوی امکان ہیں کہ یہ خبر باقاعدہ طور پر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی اور پلان کے تحت لیک کی گئی ہو۔
11اکتوبر کو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس ”مبینہ من گھڑت “ خبر کے خلاف نوٹس لےتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ غلط رپورٹنگ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے، جس کے بعد روزنامہ ڈان کے اس صحافی کا نام کنٹرول ایگزیٹ لسٹ پر ڈال دیا گیا، جیسے ہی یہ خبر نشر ہوئی الیکٹرانک میڈیا نے اصل حقائق بیان کرنا شروع کر دئے ، اور اس حکومتی اقدام کی مزمت کرنا شروع کر دی، جس پر وزیر اعظم ہاو¿س کی جانب سے فوری ایک وضاحتی بیان آ گیا کہ ڈان کے صحافی کے خلاف اندرون اور بیرون ملک نقل و حمل کی پابندی کی خبر وزیر اعظم ہاو¿س سے جاری نہیں کی گئی مگر گزشتہ روز کے اخبارات میں یہ خبر بھی جلی حروف میں شائع کی گئی ہے جس میں پاکستان آرمی کے ذرائع نے انگریزی اخبار کے رپورٹر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے متعلق حکومتی فیصلے سے قطعی لا تعلقی کا اظہار کیا ہے،عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں انگریزی اخباریا اس کے رپورٹر سے کچھ لینا دینا نہیں،انہیں اعتراض نہایت اہم قومی سلامتی کے اجلاس کی خبرغلط انداز اور حقیقت کے بر عکس افشاءکرنے پر ہے۔عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا مطالبہ خبر کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور افشاءکرنے پر ہے،اور اس ضمن میں ایسا کرنے والے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔عسکری ذرائع نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے خبر دینے والے رپورٹر یا اخبار کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا ،ہمیں صحافی اور اخبار پر نہ تو اعتراض ہے اور نہ صحافی اور اخبار کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ خبر کو توڑ موڑ کر کس نے پیش کیا۔۔۔؟
عسکری ادارے کی جانب سے اس خبر کو مسخ کر کے لیک کرنے کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ غلط نہیں، قومی سلامتی جیسے اہم اجلاس جس میں وزیر اعظم ، آرمی چیف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ ، وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ اور ڈی جی آئی ایس آئی شامل تھے ،اس کی اندرونی بات چیت کا باہر آنا نہایت ہی تشویشناک حد تک سنگین ہے۔جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی قومی راز محفوظ نہیںیا وہ جو اس ملک کے اہم ترین اور حساس معلومات کے امین ہیں وہی قومی اعتماد کے قابل نہیں، وفاقی ترجمان ایم این اے طلال چوہدری نے ایک نجی چینل پر حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے دنوں میں ایک اہم ترین کور کمانڈر اجلاس کی اندرونی کہانی منظر عام پر آئی تھی، کیا وہ بھی ہم نے لیک کی تھی، یقینا وہ کسی جرنیل نے ہی لیک کی تھی، یہ ضروری نہیں کہ ہر خبر حکومت ہی لیک کرے، دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ یہ خبر بھی یا تو جنرل راحیل نے یا پھر آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ر ضوان نے لیک کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان کو کیا کسی پاگل نے کاٹا ہے کہ وہ ایک ایسی خبر عام کریں جو ان کی کردار کشی کر رہی ہو، ان کی ضرب عضب کی کامیابیوں پر مٹی ڈال رہی ہو، جو انہیں دہشتگردوں کا پشت پناہ ثابت کر تی ہو۔۔۔؟
یقینا یہ خبر ایسے عناصر کی جانب سے پھیلائی گئی ہے جو جنرل راحیل شریف کی روز افزوں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے نہ صرف پریشان بلکہ رنجیدہ و نالاں بھی ہیں،یہ صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم 2014سے ہی یہ بات تواتر سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ایک تسلسل سے حکومتی کیمپ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر عسکری قیادت کو ”سازشی“ قرار دے رہے ہیں، و ہ ایسا کوئی موقع نہیں جانے دیتے جس سے افواج پاکستان کو ایک مسئلہ بنا کر پیش نہ کیا جا سکے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ جنرل وحید کاکڑ اور جنرل پرویز مشرف کی تلخی میاں نواز شریف ابھی تک نہیں بھولے، پاکستان آرمی چیف کو اپنے سامنے ایک انڈر سیکرٹری کی طرح وہ دست بدست دیکھنے کے بخار میں مبتلا ہیں ، جبکہ ان کے ارد گرد کے خوشامدی انہیں غیر ضروری طور پر ”شیر بن ،شیربن“کا ترانہ سنا کر اپنے دشمنوں کو کھا جانے پر اکسا رہے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف کو ہمارا صدق دل سے مشورہ ہے کہ وہ عسکری قیادت کو اپنی طاقت بنائیں، اسے فتح نہ کریں، بڑے لوگ خود فیصلہ کرنے کی بجائے اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ”وقت“ ان کے بارے میں کیا فیصلہ کر رہا ہے، اور وہ ہمیشہ وقت کے فیصلے پڑھ کر ان کا تدارک کرتے دکھائی دیتے ہیں، سابقہ صدر آصف زرداری کا دور ہمارے سامنے ہے، انہوں نے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا تدارک کیا اور پانچ سال کا عرصہ گزار کر گئے، خود میاں نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت میں انہیں ڈرائیو کر کے اپنی ضیافت میں لینے گئے۔ جبکہ وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف نے ہمیشہ اپنی آرمی چیف، صدور اور چیف جسٹس سے خواہ مخواہ کی لڑائی مول لی ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ 30نومبر تک صبر ،برداشت اور حوصلہ سے کام لیں، کیونکہ آثار بتاتے ہیں کہ ان کے ”ماتحتوں“ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا۔اللہ انہیں اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ویسے 30تاریخ ان کے مخالفین کی کامیابی کی تاریخ بنتی جا رہی ہے۔
Tags Column column haroon adeem