زردادکاکڑ
موت کا قبائلی رقص
بلوچستان ہے تو پاکستان ہے یہ ایک مقبول نعرہ ہے ہر حُکمران خاک بلوچستان میں قدم رکھتے ہی یہ صدا بلند کرتا ہے ۔ ذہن نشین رہے کہ یہ نعرہ ہے نظریہ نہیں نعرے اور نظریے میں بنیادی فرق ہے۔ نعرے کی بنیاد پر ووٹ لیا جاتا ہے یہ مطلق انتخابی منشور کا حصہ ہوتا ہے جبکہ نظریے کی بنیاد پر نظام تشکیل پاتا ہے۔ حُکرانوں کے دانست میں انواع و اقسام کے رنگ برنگے نعروں کا قحط الرجال نہیں جن میں سے ایک خوشنماسلوگن یہ بھی ہے کہ پاکستان مختلف جغرافیائی اقوام کا ایک فیڈریشن ہے اور یہ کہ اس فیڈریشن کے گلدستے کا ایک خوبصورت پھول بلوچستان نام کا ایک صوبہ بھی ہے۔درآنحالیکہ اس صوبے کے زیادہ تر علاقے انتظامی اعتبار سے آج بھی بی ایریا کہلاتے ہیں باالفاظ دیگر یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔قانون کے گرفت سے باہر ہے۔ان علاقوں میں وحشت اور دہشت کا دور دورہ ہے۔لوگ رضاکاریت کے اُصول کے تحت از خود امن بحال رکھنے سمیت ضروریات زندگی کے اجتماعی اُمور کا نظام چلا رہے ہیں ۔اندرونی اور بیرونی مداخلتوں کے باعث متعدد عنوانات سے موت کا رقص جاری ہے۔شر سے خیر کا پہلو تلاش کرنا دل بہلانے کیلئے معجزات کے منتظرین کا خاصہ سر آنکھوں پر درآنحالیکہ حل و عقد تدبیر سے آنکھیں چرانے کی ناٹک کریں تو ایسے معاشروں کی فنائیت نوشتہ دیوار ہے۔قصہ کوتاہ ریاست کا کمزور عدالتی نظام، لاقانونیت، سماجی و معاشی ناہمواری اور ادارتی رسہ کشی جیسے مسائل قبائلی معاشروں میں رنجشوں کا سبب بنتا ہے البتہ جہاں نسل در نسل اورتاحیات عدالتی مقدمے بھگتنے اور زندگی بھر کی جمع پونجیاں لوٹائی جاتی ہیں اور غریب انصاف کیلئے بھٹکتے ہیں وہاںقدیم فرسودہ قبائلی جرگہ و سرداری نظام ، وڈیرے کا ڈیرہ ، چوہدریوں کی پنچائیت ، سائیں مرشد کا درگاہ اور نواب کا میڑہ عوام کیلئے بادل نخواستہ کسی غیبی مددسے کم نہیں ۔اس نظام سے کسی جوہری تبدیلی کی احمقانہ و معصومانہ خواہش رکھنے پر تحفظات بجا امرواقعہ یہ ہے کہ لوگ اس جانب راغب ہورہے ہیں ۔ یاد رہے پشتون علاقوں میں اس نوع کے جھگڑے اور دیگر انسانی حقوق کی پامالیاں افغان جہاد کے عملی ثمرات ہیں ۔جرگہ نظام ایک سیدھاسادہ مگر انتہائی صبر آزما تصفیہ عمل ہے۔جس کے بنیادی لوازمات میں سے جرگہ ممبران کا غیر جانب داری اور باکردار ہونا بنیادی امر ہے۔ جرگہ قابل اعتماد قبائلی زعماء، مستندخوانین، جید علماءحق، انسان دوست صوفیاءاور باکردار سیاسی و سماجی شخصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جرگہ پشتون تاریخ کا ثقافتی طرز عدالت ہے۔ جس کو انگریزوں نے بھی اپنے طویل دور حُکمرانی میں برقرار رکھاتھا۔لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی کے مصداق انواع و اقسام کے دشمنیاں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہیں جس کا تاریخی مظہر قبل از اسلام عرب سماج ہے عرب بڑے اہتمام سے ان کو پالتے بھی تھے۔ دنیا کے جدید آئینی معاشرے اس دور سے گزر چکے ہیں ۔ اب وہاں یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ جرگہ نظام اب صرف ذہنی طور پر پسماندہ اور فرسودہ لوگوں کا مشغلہ ہے جو اکیسویں صدی عیسوی میں بھی یہ خیا ل کرتے ہیں کہ دنیا بھی ان کے ساتھ تھم گئی ہے اب بھی لوگوں کو ایک قبائلی اور نظریاتی ریاست کا خواب دیکھاتے اور ان سے وفاداری کا حلف لیتے ہیں اس نوع کے مخلصین اس بات کو سمجھنے سے یکسر عاری ہے کہ اخلاص کھبی بھی ذہنی بلوغت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔نظریہ عقیدت کو اورسرداریت قبائلیت کو جنم دیتا ہے۔اور یہ دونوں رویے اندھی تقلید کے حامل مقلدین کا معاشرہ پروان چڑھاتا ہے۔تقلید حقیقت قبول کرنے میں حجاب بن کر انکے خامیوں سے صرف نظر سکھاتی ہے۔ان دونوں سے اگر عقیدت کا رشتہ قائم ہوجائے تو پھر رسوم و روایات پر تنقید کا عمل دم توڑ دیتا ہے یوںیہ روایات عوام کی گردنوں پر سوار رہتے ہیں ۔بات قبائلی جھگڑوں سے نکلی تھی ۔جھگڑوں کی انسداد اور امن بحالی کے اس عمل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حصہ نہ لیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔پاکستان کو بچانا ہے تو بلوچستان کو بچانا ہوگا ۔ پاکستان کا مستقبل پاک چین راہداری سی پیک سے وابسطہ ہے یہ روٹ بلوچستان سے گزر کر چین کے سرحدی صوبہ سنگیانگ جا پہنچتا۔ مذہبی، مسلکی،لسانی سمیت قبائلی جھگڑوں کا انسداد اس پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ضروری ہے۔