قومی شعور کے تقاضے
زردادکاکڑ
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے اپنے دورہ سندھ کے دوران کراچی میں اعلان کیا کہ قومی و بین الاقوامی قانونی تقاضوں کے مطابق مہاجرین کو شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے کراچی سمیت پورے پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں مختلف ممالک سے آئے مہاجرین و غیر ملکی بڑی تعداد میں آباد ہے ۔ ٹرانسپورٹ، تجارت،رئیل اسٹیٹ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں یہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔یہ یہاں پلے بڑھے اور زندگی کا ایک مخصوص حصہ پاکستان میں گزارچکے ہیں یہ لوگ اب اپنے ملکوں میں اجنبی ہے۔ان کے بچے یہاں پلے بڑھے اور اس ملک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں دنیا کا مسلمہ اُصول ہے کہ مہاجرت کا طے شدہ مدت پورا کرنے پر مائیگرنٹس کو قواعد و ضوابط کے تحت شہریت عطا کی جاتی ہے وہ ایک آئینی اور عام شہری کی طرح معمول کی زندگی گزارنے کا حق حاصل کر جاتے ہیں ۔جس سے نہ صرف قانون کی عمل داری میں آسانی پیدا ہوتی ہے بلکہ ان مائیگرنٹس کو بھی قانونی تحفُظ حاصل ہوجاتا ہے یوں جرائم کی شرح میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔کمزور سیاسی نظام کے ناطے یہاں انسانی ہمدردی جیسے ایشوز بھی علاقائی اور نسلی و لسانی سیاست کے نظر ہوجاتے ہیں ۔مہاجرین کو شناختی کارڈز دینے اور نہ دینے کے سوال کے جواب کاتعلق بھی قانونی تقاضوں سے زیادہ سیاسی وابسطگیوں سے جڑ چکا آپ کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے آپ اس انسانی اور قانونی سوال کو کس پارٹی منشور کے تناظر میں پرکھتے ہیں ۔ستر ہویں صدی عیسوی میں یورپ سے قومی سوچ پر مبنی قومی ریاستوں کی تشکیل عمل میں آنا شروع ہوئی۔یوں شہنشاہیت اور ایمپریلزم کی جگہ قومی ریاستوں نے لے لی۔مغربی قومی شعور کی سوتیں تخلیقی اور عقل پرستی سے پھوٹیں اس لیے ان معاشروں کے قوانین قومی تقاضوں سے ہم آہنگ انسانی ہمدردی پر مبنی تشکیل پائے۔جبکہ ہم جیسے برٹش دورکے نوآبادیاتی ممالک کھوکھلی قوم پرستی اور نسل پرستانہ قومیت کے علمبردار ٹھہرے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سندھی کارڈ کا اجراءکئے ہوئی ہے جبکہ مرکز میں فیڈریشن کا علمبردار ہے وہ مہاجرین کو شہریت دینے کی اس ایشو پر سندھی قوم پرست پارٹی بن گئی ہے سیاسی ایجنڈے کے تحت اس قومی دلچسپی کے ایشو کی پُر زور مخالفت کررہی ہے۔بلوچستان کے بلوچ نیشنلسٹ پارٹیاں قومی بقاءکی خود ساختہ عددی اکثریت اور اقلیت کے فارمولے کے تناظُر میں محض قانونی اور انسانی دلچسپی کے مذکورہ مسئلے پر تحفُظات رکھتی ہیں ۔درآنحالیکہ کہ مہاجرین کو شناختی کارڈ کی اجراءسے جرائم اور نسلی تعصب میں واضح کمی واقع ہوگی۔ریاستی محافظوں کے صفحوں میں موجود کالی بھیڑیاں مائیگرنٹس کے پاس ٹھوس قانونی دستاویزات کی عدم موجودگی سے انواع و اقسام کے ناجائز فائدے اُٹھاتے ہیں ۔یاد رہے تقسیم ہند کے وقت اسی لاکھ مسلمان مہاجرین پاکستان جبکہ ساٹھ لاکھ ہندﺅں بھارت نقل مکانی کر گئے تھے جنہیں دونوں ممالک میں شہریت دی گئی تھی وہ آج دونوں ممالک کے مفید شہری ہے یہ الگ مسئلہ ہے کہ پاکستان میں ان پر غدار جیسے الزامات اور ملک دشمن جیسے سنگین اعزازات سے نوازے گئے۔مگر یہ نہ ملک کے غدار اورنہ ہی اسلام دشمن ثابت ہوئے۔کیوں نہ ہو اسلام کے مقدس نام پر اپنے گھر بار سب چھوڑ کر جو آئے تھے۔ اختلافی بیانات کئی حلقوں سے آئے مگر معروف بزرگ بلوچ قوم پرست و سیاسی خانوادے کے سپوت سردار اختر جان مینگل کے اختلاف کا یہ الم ہے کہ قوم پرستی ہچکچاجائے۔سردار اختر جان مینگل سردار عطاءاللہ مینگل کا فرزند اور سیاسی وارث ہے اس کا ایک مقام ہے اور یہ کہ اس کی پارٹی میں پشتونوں کی ایک آچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ان کا برم رکھتے ہوئے سردار اختر جان مینگل کو اس نوع کی سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ فاتح افغان کرکٹ ٹیم میں ایک پاکستانی لڑکا بھی کھیلتا ہے۔اور یہ کہ پاکستان میں اس کی جائیدادیں ہے۔اب اس بزرگ سیاسی خانوادے کے سردار کو یہ بات کون کیسے ذہن نشین کروائیں کہ عرب امارات، ہانگ کانگ، زمبابوے، انگلینڈ اور ساﺅتھ افریقہ سمیت اسٹریلیا کے ٹیموں میں بھی پاکستانی کھیلتے ہیں ۔ وہاں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سردار صاحب کو کیسے یقین دلائے کہ یہ کھیل ضرورہے مگر سیاسی کھیل نہیں جس میں غیر ملکی کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔میں سردار اخترجان مینگل کو بہت سمجھدار اور میچور سیاست دان سمجھتا ہوں اور ان کے سیاسی خانوادے اور بزرگوں کے بارے میں نہایت ہی ادب سے پڑھتا اور لکھتا ہوں انتہائی ادب اور احترام رکھتے ہوئے سردار اخترجان مینگل کے اس نوع کی نسل پرستانہ خیالات نے گہری سوچ میں مبتلا کئے رکھا ہے۔قوم پرستی جدید سائنس کا ایک نظریہ ہے جس میں ایک زبان، جغرافیہ اور مشترکہ مفادات رکھنے والے انسانوں کو ایک قوم تصور کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کثیرالنسلی اقوام کا ایک خوبصورت فیڈریشن ہے۔ اس ملک میں کوئی بھی دوسرے کی زمین پر آباد نہیں ۔قرین قیاس نہیں کہ اس ملک کو باہمی احترام اور بھائے چارے کے جذبے کے تحت ترقی کے بام عروج پرنہ پہنچایا جایا جاسکے اس کے باوصف پاکستان بالخصوص دو قومی صوبے میں انتشار اور نفرت ہی پھیلے گی۔
Tags Column