ضمیر آفاقی
عوام کی آواز
جنگوں کا فائدہ آج تک ماسوائے چند اسلحہ فروشوں ،توسیع پسندوں اور جنگی معیشت کے کارپردازوں کے کسی اور کو نہیں ہوا لیکن اس کے برعکس اس کی کوکھ سے جرائم کی بے شمار قسمیں برآمد ہوئیں اور انسانیت کو بین کرتے ضرور دیکھا گیا، خواتین بچے اور بوڑھے جنگوں کا ایندھن ضرور بنے یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے بیان کرنے کے لئے کئی زندگیاں ادھار لینی اور لاکھوں صفحات درکار ہونگے ،کہا جاتا ہے موجودہ صدی ترقی کے عروج کی صدی ہے درست مگر انسان ہنوز تنزلی میں ہے جو ابھی تک دلیل کی اہمیت اور افادیت کو اس طرح اجاگر نہیں کر سکا جس کی ضرورت اس پر آشوب دور میں بہت زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہوچکا ہوتا تو دنیا میں امن کے مزید راستے واہ ہوتے اور انسانوں کی زندگیاں مذید تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی میں میں بسر ہوتیں اور خوشحالی کے راستے کھلتے لیکن برا ہو جنگی جنون برپا کرنے والوں کا جنہوں نے اپنی ہوس اقتدار اور ”مفت مال“ حاصل کرنے کے چکر میں دنیا بھر کو جنگوں کا ایندھن بنا کر رکھ دیا ہے۔
جنگوں کے نقصانات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریباً 37 لاکھ مہاجر بچوں کو اسکول تک رسائی حاصل نہیں اور وہ بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔یہ تعداد دنیا بھر میں موجود مہاجر بچوں کی مجموعی تعداد (60 لاکھ ) کا نصف سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے خبردار کیا کہ ’لاکھوں مہاجر بچوں کو بحرانی صورتحال کا سامنا ہے، عالمی برادری ان بچوں کی اسکول تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے کوششیں تیز کرے‘۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب 19 ستمبر کو نیویارک میں مہاجرین اور تارکین وطن کے حوالے سے اقوام متحدہ کا اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہونے جارہا ہے۔
20 ستمبر کو ایک اور کانفرنس کا انعقاد ہوگا جس کی میزبانی امریکی صدر براک اوباما کریں گے اور اس تقریب میں مہاجرین کے لیے امداد کی نئی پیشکشیں کی جائیں گی۔فلیپو گرانڈی کا کہنا تھا کہ ’عالمی برادری مہاجرین کے بحران سے نمٹنے پر غور کررہی ہے یہ ضروری ہے کہ ہم محض انہیں زندہ رکھنے کے بجائے اس سے آگے کا کچھ سوچیں‘۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ محض 22 فیصد مہاجرین سیکنڈری اسکول تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ یونیورسٹی جانے والے مہاجرین کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔
21 ویں صدی کی پہلی دہائی میں مہاجر بچوں کی تعداد 35 لاکھ تک محدود رہی تاہم 2011 سے اس تعداد میں سالانہ 6 لاکھ بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔صرف 2014 میں اسکول جانے کی عمر کے مہاجر بچوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مہاجر بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہر سال اضافی 12 ہزار کلاس رومز اور 20 ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے رپورٹ میں کہا گیا کہ چونکہ 86 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں قیام پذیر ہیں جو اپنے ملک میں تعلیم اور صحت جیسے مسائل سے دوچار ہیں لہٰذا انہیں مہاجرین کا اضافی بوجھ اٹھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے مہاجرین بچوں کی تقریباً نصف تعداد چاڈ، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، کینیا، لبنان، پاکستان اور ترکی میں مقیم ہے۔ شام میں پانچ برس قبل خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے 94 فیصد شامی بچے پرائمری اور لوئر سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم تھے تاہم جون 2016 تک یہ تعداد 60 فیصد رہ گئی۔خانہ جنگی کی وجہ سے 50 لاکھ شامی پڑوسی ممالک میں ہجرت کرگئے جہاں انہیں حصول تعلیم کے مواقع میسر نہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 9 لاکھ شامی مہاجر بچے اسکول سے دور ہیں۔
اقوام متحدہ کی مندرجہ بالا رپورٹ جہاں ایک طرف انسانی ضمیر پر طمانچہ ہے تو دوسری جانب جنگی جنون میں مبتلا حکومتوں ،گروہوں اور جہاد کے نام پر فساد پرپا کرنے والوں کے لئے بھی سبق ہے کہ انسانیت کی تذلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی۔35 برس پہلے اس صدی کی سب سے طویل جنگ کا آغاز ہوا۔ لیکن ایران اور عراق کے درمیان ہونے والے اس آٹھ سالہ طویل تصادم کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
نیویارک یونیورسٹی آف گیلاٹن سکول کے سنان انٹون کی پیدائش بغداد کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں’بہت سے زاویوں سے یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔‘سکاٹ لینڈ میں یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز کے پروفیسر علی انصاری کہتے ہیں: ’میرے خیال میں ایران عراق جنگ کے سب سے اہم اثرات اسلامی جمہوریہ ایران کی تخلیق پر مرتب ہوئے۔ اور سخت گیر سوچ رکھنے والے پاسدارانِ انقلاب نے اس داستان کو اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘اس کی انسانی قیمت انھیں ابھی تک ادا کرنی پڑ رہی ہے۔اس جنگ میں تقریباً دس لاکھ لوگوں کی جانیں گئیں۔ دونوں طرف سے ایک پوری نسل کو اس کے نقصانات اٹھانے پڑے۔ لیکن اس جنگ سے سیکھے گئے سبق تھوڑے ہی عرصے میں علاقائی تنازعات کی زد میں آ کر کہیں کھو گئے۔ان تنازعات کی آگ کو بھڑکانے میں پراکسی جنگوں (دوسروں کے ایما پر جنگ) کا بڑا کردار تھا۔ جو کہ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہیں۔ شام، عراق اور یمن کے تنازعات کے پیچھے بہت سے نکات ہیں۔ جیسا کہ شیعہ بمقابلہ سنی اور ایرانی بمقابلہ عرب۔ اس نئی سرد جنگ کے اتحادیوں کی بنیاد ماسکو اور واشنگٹن نے رکھی۔
جنگوں نے انسانی سماج کو ہمیشہ ہی تباہی اور بربادی کے تحفے دئے۔ پانچ سو سال قبلِ مسیح سے لے کر سن 2000 تک 1022 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ سن 1100 عیسوی سے لے کر 1925 تک 35.5 ملین افراد صرف یورپی جنگوں میں لقمہ اجل بنے۔جاپان پر ایٹمی حملے نے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ماحول کو بھی تباہی سے دوچارکیا
بسیویں صدی میں 165 بڑی جنگوں میں 165 ملین سے لے کر 258 ملین تک انسان ہلاک ہوئے۔ جنگ مخالف ویب سائٹ Environmentalists Against War کے مطابق بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے چھ اعشاریہ پانچ فیصد کی موت کی ذمہ دار جنگیں اور مسلح تصادم بنے۔ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے آٹھ اعشاریہ چار ملین فوجی اور پانچ ملین شہری ہلاک ہوئے جبکہ دوسری عالمی جنگ نے سترہ ملین فوجیوں اور 34 ملین شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر دئے۔ جدید جنگوں میں مارے جانے والے 75 فیصد لوگ عام شہری تھے۔جنگوں نے صرف ہلاکتوں کے انبار ہی نہیں لگائے بلکہ کرہء ارض کے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر وجود انسانی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ آج ہمارے سمندر، دریا، جنگلات، پہاڑ، میدان غرض یہ کہ قدرت کا وہ کون سا انمول تحفہ نہیں ہے، جو جنگی تباہ کاریوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔
ایک فلسفی نے کہا تھا کہ کسی بھی جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اب جنگ کا پہلا نشانہ ماحول ہوتا ہے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ جنگی طیارے جب فضا میں پرواز کے لئے بلند ہوتے ہیں، تو وہ صرف خوف و دہشت کے بازار ہی گرم نہیں کرتے بلکہ ان کی آغوش میں چھپا ہوا بارود زمین کی چھاتی کو بنجر کر دینے کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔ میزائلوں کی آگ کھیتوں کی ہریالی کو نگل جاتی ہے۔ جوہری دھماکوں کی گونج نہ صرف مضبوط چٹانوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے بلکہ اس وحشت ناک بم کا ایک ہی حملہ لاکھوں انسانوں کے پرخچے فضائے بسیط میں بکھیر دیتا ہے اور اس کے بعد بھی جوہری تابکاری کا خنجر وجود انسانی کے سینے میں اس طرح پیوست کرتا ہے کہ ہزاروں انسان سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔آخر کب تک؟ اس سوال کو ہر فورم پر اٹھایا جانا ضروری ہے۔
Tags Column/ zameer afaqi jangon ny dia kia by zameer afaqi