Breaking News
Home / Columns / تعلیم، صحت اور صاف پانی ترجیحات کیوں نہیں؟

تعلیم، صحت اور صاف پانی ترجیحات کیوں نہیں؟

zameer-afaqilogo
ضمیر آفاقی
عوام کی آواز
تعلیم، صحت اور صاف پانی ترجیحات کیوں نہیں؟
میں انڈر پاسز، میٹرو ٹرین، بس موٹر وئے اور سڑکوں کی تعمیر کے بلکل خلاف نہیں ہوں بلکہ اس حق میں ہوں کے ان کا جال بچھنا چاہیے کیونکہ جتنا بڑا اور اچھا انفراسٹرکچر ہو گا شہریوں کے لئے اتنی ہی آسانی میسر ہو گی۔ لیکن اس سوال کو ضرور اٹھاتا رہوں گا کہ ان سڑکوں ،پلوں میٹروز اور موٹر وےز پر چلنے والے شہریوں کا تندرست توانا اور پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے ورنہ ان کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اگر شہری تندرست نہیں ہوں گے تو وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوں گے اور اگر پڑھے لکھے نہیں ہوں گے تو وہ ان قوانیں اور ضابطوں کو جان نہیں پائیں گے جو ان پر چلنے اور سفر کرنے والوں کے لئے جاننا ضروری ہوں گے۔جب ہم سوشل میڈیا پر حکومت کی جانب سے دئے گئے اشتہاروں میں لش پش کرتی بل کھاتی سڑکیں رنگوں اور روشنیوں میں ڈوبی میٹرو اور خوبصورت انڈر پاسز اور سڑکوں پر بنے اوور ہیڈ دیکھتے ہیں تو یقین کریں بہت طمانیت کا احساس ہوتا ہے اپنا ملک ترقی کرتا ہوا بہت اچھا لگتا ہے۔
لیکن جب اسی ملک کے شہریوں کی اکثریت کی خستہ حالی بے روزگاری بھوک اور بیماریوں کے نتیجے میں خود کشی کرنے کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں تو ان اخبارات پر بڑا غصہ آتا ہے جو اس طرح کی ”خبریں شائع“ کر کے ہماری طبع نازک کو” مکدر“ کرتے ہیں اسی طرح ہمیں وہ ملکی و غیر ملکی ادارئے، این جی اوز بھی بہت برئے اور زہر لگتے ہیں جو پاکستانیوں کے مسائل کہیں صاف پانی کی عدم فراہمی کے نتیجے میں بیماریوں میں مبتلاہونے خوارک اور غذائیت کی کمی کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے قد چھوٹے اور کمزور رہ جانے اور ملکی بچوں کی اکثریت کا سکولوں میں ناجانے کی کی رپورٹیں شائع کرتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ان این جی اوز کا منہ نوچ لیں جو اس طرح کی بے پر کی اڑاتے ہیں اور حکومتی اقدامات کی تعریف کرنے کو دل کرتا ہے جو وہ ”ملک دشمن“ این جی اوز کے خلاف پابندیاں لگا کر اٹھا رہی ہے ایسی این جی اوز جو پاکستانی شہریوں کو ان کے مسائل کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کا ”جرم قبیح“ اور جان لیوا نو بیماریوں جن میں پولیو خناق ،ٹی بی جیسے بیماریوں میں مبتلا اور تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے کے لئے کام کر کے ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ یہ بھی کچھ کام ہیں تو ہمیں یہ سب زہر لگتی ہیں کہ ہمارئے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر ہمیں بے مزہ کرتی ہیں۔
میرا بھی بڑا دل کرتا ہے کہ میں ”حکومتی کارناموں“ خصوصاً ”خادم اعلیٰ“ کی دن رات کی بھاگ دوڑ کی تعریفوں کے پل باندھوں اور ان کے ”فیورٹ صحافیوں“ کی لسٹ میں شامل ہو جاوں اور ان کا پی آر او رفیع اللہ مجھے بھی ہر میٹینگ میں شامل ہونے کی نہ صرف دعوت دئے بلکہ دن میں کئی کئی بار میری صحت کی خرابی کے اندیشے پر بھی مجھے پوچھے ۔ لیکن لگتا ہے اپنی ایسی قسمت کہاں جو رفیع اللہ ہمارئے بارئے میں ایسا سوچے یا پسندیدہ لسٹ میں شامل کرئے کیونکہ اپنی قسمت کو ہم نے خود ہی خراب کر رکھا ہے ہماری قسمت کی خرابی میں اس عوام کا بڑا ہاتھ ہے جس کی آواز میں اپنے کالموں اور سوشل میڈیا پر اٹھاتا ہوں۔ اب یہی دیکھ لیجیے ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی عوام کو دو نبمر ملاوٹ شدہ اور گندی خوراک کھلانے والوں کے خلاف عائشہ ممتاز کے ساتھ کھڑی ہیں، میں تو اسی عوام کا حصہ ہوں اور وہ تمام بیماریاں مجھ اور میرئے بچوں پر حملہ آور ہیں جو ناقص پانی پینے ملاوٹ زدہ خوراک کھانے اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث پیدا ہوتی ہیں ۔
آگ لگے ان کو جو اس طرح کی رپورٹیں شائع کر کے ہماری ہر دلعزیز حکومت کو پریشان کرتے رہتے ہیں جن کے مندرجات میں بتایا جاتا ہے کہ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی نون لیگ کی حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر سڑکوں اور انڈرپاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ میٹرو اور اورنج لائن پر کئی سو ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ ملک کا سماجی شعبہ نون لیگ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے رواں سال فروری میں ایک حکومتی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق ملک میں تقریباً چوبیس ملین بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی سن دو ہزار پندرہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور ہر گیار ہواں بچہ اپنی زندگی کے پانچ برس مکمل کیے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ ایچ آر سی پی کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انیس فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شرح تیس فیصد ہے۔ آئی ایل او کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر و جبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد دو ہزار چودہ میں 168ملین تھی۔ ناقدین کے مطابق سماجی شعبے کی اس بدحالی کے باوجود حکومت آج بھی اس پر نظر کرم کرنے کو تیار نہیں۔
ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر رانا تنویر نے سینیٹ اجلاس میں بتایا ہے کہ ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے 62 سے 82 فیصد پانی کے نمونوں سے پتا چلا ہے کہ پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔(یعنی انہیں اس بات کا آج ہی پتہ چلا ہے)جبکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ ’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کی سربراہی میں کیے گئے تھے۔ ان ٹیسٹوں کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔ رانا تنویر نے میڈیا کو بتایا کہ ملک بھر میں پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے 24 لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں اور دیگر اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے سینیٹ کو بتایا کہ ملک کے کئی علاقوں میں پانی میں بیکٹریا کی مقدار 62 فیصد اور آرسینک (سنکھیا) کی مقدار 24 فیصد تک پائی گئی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بیکٹیریا سے آلودہ پانی ملک میں ہیپاٹائٹس، خسرے اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ پانی میں آرسینک کی زیادہ مقدار ذیابیطس، سرطان، پیدائشی نقص، جلد، گردوں اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔بوتلوں اور واٹر ڈسپنسرز میں فروخت کیا جانے والا غیر صحت مند یا جعلی کمپنیوں کا منرل واٹر پینے سے ہر سال قریب ایک ملین شہری یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب اس بارے میں ملکی سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔ یہ درخواست وطن پارٹی کے صدر بیرسٹر ظفر اللہ نے دائر کی ہے، جنہوں نے اپنی پٹیشن میں وفاقی حکومت کو بذریعہ کابینہ ڈویژن، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور محکمہ ماحولیات اور ان کے علاوہ حکومت پنجاب کو فریق بنایا ہے۔اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، جس کا مالی فائدہ ’منرل واٹر مافیا‘ اٹھا رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ منرل واٹر کے نام پر گندہ، آلودہ اور مضر صحت پانی فروخت کیا جا رہا ہے، جس سے لوگ خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پانی مافیا‘ نے جگہ جگہ فلٹریشن پلانٹ لگا رکھے ہیں لیکن اس کے کارندوں کو پانی کی اہمیت اور اس میں ڈالے جانے والے نمکیات کی صحت مند مقدار کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ”اکثر بوتلیں تو نلکے کا پانی بھر کر مہنگے داموں بیچی جا رہی ہیں۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر فلٹریشن کی بھی جا رہی ہے تو سرکاری پانی کس کی اجازت سے بیچا جا رہا ہے؟ یہ وہ بہت سے سوالات اور وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ہمیں سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن دائر کرنا پڑی۔ پانی جن بوتلوں میں بند کر کے فروخت کیا جاتا ہے، وہ پولیتھین کی بنی ہوتی ہیں، جو بذات خود انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ اسی لیے ہر سال پاکستان میں دس لاکھ افراد یرقان کا شکار ہو رہے ہیں۔“ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصبوں پر حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ اچھی گورنس کی مثال قائم ہو اور احتجاجی سیات میں کمی آئے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *