یاسر پیر زادہ
’’یہ کیسا نظام ہے جس میں سیاست دان تو دو حلقوں سے انتخاب لڑ سکتا ہے مگر عام آدمی دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں سرکاری ملازمت سے برخواست کیا جانے والا شخص تو دوبارہ کسی عہدے کا اہل نہیں ہو سکتا مگر کوئی سیاست دان چاہے جتنی مرتبہ بھی جیل گیا ہو وہ صدر، وزیر اعظم یا کسی بھی ایسے اعلیٰ عہدے پر پہنچ سکتا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں ایک کلرک کی نوکری کے لئے تو بی اے کی شرط درکار ہو مگر وزیر تعلیم انگوٹھا چھاپ بھی چل سکتا ہو۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں باپ کے بعد بیٹا وراثت میں حکمرانی لے کر قوم پر مسلط کر دیا جائے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں طاقت ور کے لئے کوئی قانون نہیں جبکہ غریب اور کمزور کو معمولی جرم میں بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں کرپشن کرنے والوں کا احتساب نہیں ہوتا اور ایماندار لوگوں کے لئے زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ اس گلے سڑے اور بدبو دار نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی وہ آسودہ زندگی گزار سکیں جو مہذب ممالک کے شہریوں کو میسر ہے! ‘‘
یہ ان ہزاروں ایس ایم ایس، فیس بک پوسٹس اور ٹویٹس کا خلاصہ ہے جو ہم آئے روز سوشل میڈیا پر اندھا دھند شیئر کرتے ہیں، یہ باتیں چونکہ دل کو لگتی ہیں اس لئے بے شمار کالموں اور تجزیوں میں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں اور اُن اینکرز کے ٹاک شوز کی ٹیگ لائنز بھی بنتی ہیں جن کی روزی روٹی اِس جذباتیت کی برکت سے چلتی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ یہ باتیں درست بھی ہیں یا نہیں اور اگر درست ہیں تو کس نظام کے تحت تبدیلی لائی جا سکتی ہے، آج پہلے ذرا اِس بات کا نتارہ ہو جائے کہ اگراِس ملک میں قانون صرف طاقتور کے لئے ہے تو وہ طاقتور کون ہے؟ کیا پھانسی پر چڑھ جانے والا وزیر اعظم طاقتور تھا یا اسے پھانسی پر چڑھانے والا؟ کیا جلا وطن ہونے والا سیاست دان طاقتور تھا یا اسے جلا وطن کرنے والا؟ کیا عدلیہ کے حکم پر گھر جانے والا سیاست دان طاقتور تھا یا آئین توڑ کر ملک سے فرار ہونے والا طاقتور تھا؟ سیاست دانوں کو ٹھاپیں لگائیں، اُن پر ٹاک شوز میں پھبتیاں کسیں، ان کی ڈمی بنا کر تمسخر اڑائیں، کوئی بات نہیں کہ یہ سب اسی گلے سڑے فرسودہ جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے، البتہ سیاست دانوں کے خلاف اس مسحور کُن بیانئے کی آڑ میں چند لوگ جس نظام کی راہ ہموار کرتے ہیں اُس میں سب سے پہلے انہی لوگوں کی بولتی بند ہوتی ہے اور اجازت ملنے کے بعد جب کھلتی ہے تو اُس میں سے فقط پھول ہی جھڑتے ہیں، حوالے کے لئے ملاحظہ ہو 12اکتوبر 1999کے ابتدائی چند سال (بعد کے برسوں میں تو رخصت ہوتے ہوئے ڈکٹیٹر کو ٹھاپیں لگانے والے وہ بھی تھے جو پہلے اُسے رام کا اوتار کہتے تھے)۔
ان تمام جذباتی نعروں پر بات ہو سکتی ہے جنہیں سُن کر ہم پر جنون طاری ہو جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں کچھ لوگ نظام الٹانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً موروثی جمہوریت کے نعرے کو ہی لیتے ہیں، کیا واقعی ہمارے ملک میں موروثی جمہوریت ہے جو دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں؟ حالانکہ امریکہ جیسی جمہوریت میں بیسیوں خاندانوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹے تخت نشین ہوئے۔ جی ہاں، اب میں یہ گھسا پٹا جملہ سنوں گا کہ میں اس غلیظ جمہوریت کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس میں ہمیں غلام ابن غلام رکھا جاتا ہے لیکن آج میرا موڈ چونکہ اس بحث میں پڑنے کا نہیں لہٰذا میں ایک لمحے کے لئے فرض کر لیتا ہوں کہ واقعی ہم ایک مکروہ اور جعل سازی پر مبنی نظام میں جکڑے جسے ہم جمہوریت سمجھ کر تالیاں پیٹتے رہتے ہیں اور احمقوں کی طرح بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ تو کیا کوئی بتائے گا کہ اس سے بہتر نظام کون سا ہے اور وہ کیسے نافذ العمل ہو سکتا ہے؟
مجھے اندازہ ہے کہ آپ سمیت ہم سب کی یہ خواہش ہے کہ یہاں مسلمانوں کے سنہری دور خلافت کی طرز پر کوئی نظام رائج ہو جس کے نتیجے میں عدل و انصاف کی فوری فراہمی ہو، کوئی بیروزگار نہ ہو، غربت کا نشان مٹ جائے، قانون سب کے لئے برابر ہو، حکمران اور عوام میں کوئی امتیاز نہ ہو، وزیر اعظم سائیکل پر سفر کرے، سربراہان مملکت کی سواری گزرنے پر سڑکیں بند نہ کی جائیں، ہر بچہ ایچیسن کالج کے معیار کی تعلیم حاصل کرے، معیشت پھلے پھولے، چار سُو خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔ اب ایک لمحے کے لئے اپنے ذہن میں ان ممالک کی فہرست لائیں جنہوں نے اس طرز کا نظام اپنے ہاں رائج کر رکھا ہے اور جہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا بے چین پھرتی ہے، فوراً یورپ اور سکینڈے نیویا کے ملک ہمارے ذہن میں آئیں گے۔ اب ذہن پر مزید زور ڈال کر یہ بھی سوچیں کہ ان ممالک نے یہ نظام کیسے اپنایا، کیا وہاں دس بیس سال بعد جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی تھی یا وہاں جمہوریت کا تسلسل رہا؟ جی، مجھے اسی دلیل کا انتظار تھا کہ ان ممالک کا ہمارے ساتھ موازنہ درست نہیں، ہمارے ہاں چونکہ جہالت ہے اس لئے اَن پڑھ اور جاہل عوام کو کبھی ذات برادری کے نام پر اور کبھی سبز باغ دکھا کر نو سرباز سیاست دان برسوں سے بیوقوف بناتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ سو سال تک یونہی بیوقوف بناتے رہیں گے کیونکہ جب مشین ہی خراب ہو گی تو اس سے نکلنے والا رس میٹھا نہیں بلکہ زہریلا ہوگا سو اس زہریلی مشین کو ہی بدلنا ہو گا۔ بظاہر اس دلیل میں بڑی کشش ہے مگر نقص اس میں یہ ہے کہ ان تمام ترقی یافتہ ممالک کے پاس پہلے دن ہی زیرو میٹر مشین نہیں تھی، بلکہ ان کے پاس بھی ایسی ہی خراب مشینی جمہوریت تھی لیکن انہوں نے مشین بدلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مشین کو ٹھیک کروایا، شروع شروع میں وہ رک رک کر چلتی رہی لیکن پھر رواں ہو کر رس دینے لگی۔ اپنے ہاں تو مشین بدلنے کی بھی چار مرتبہ کوشش کی گئی لیکن ہر مرتبہ اسی مشین کو توڑ کر واپس ہاتھ میں پکڑا دیا گیا کہ اب اس ٹوٹی ہوئی مشین سے کام چلاو۔ اب جبکہ ہم اس مشین سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو خوش گفتار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ مشین ناکارہ ہے، کہیں سے زیرو میٹر جمہوریت لے کر آو جو فوراً رس دینا شروع کرے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ زیرو میٹر جمہوریت کہاں سے اور کتنے میں ملتی ہے!
دراصل جمہوریت کے بارے میں ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جب تک کہیں سے نئی نکور زیرو میٹر جمہوریت یہاں نافذ نہیں کی جاتی تب تک یہ ڈریکولا جمہوریت یونہی ہمارا خون پیتی رہے گی، ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ زیرو میٹر جمہوریت میں لیڈر فرشتہ سیرت ہوتے ہیں جس سے نظام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہے جس پر پھر کبھی ۔
یہ ان ہزاروں ایس ایم ایس، فیس بک پوسٹس اور ٹویٹس کا خلاصہ ہے جو ہم آئے روز سوشل میڈیا پر اندھا دھند شیئر کرتے ہیں، یہ باتیں چونکہ دل کو لگتی ہیں اس لئے بے شمار کالموں اور تجزیوں میں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں اور اُن اینکرز کے ٹاک شوز کی ٹیگ لائنز بھی بنتی ہیں جن کی روزی روٹی اِس جذباتیت کی برکت سے چلتی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ یہ باتیں درست بھی ہیں یا نہیں اور اگر درست ہیں تو کس نظام کے تحت تبدیلی لائی جا سکتی ہے، آج پہلے ذرا اِس بات کا نتارہ ہو جائے کہ اگراِس ملک میں قانون صرف طاقتور کے لئے ہے تو وہ طاقتور کون ہے؟ کیا پھانسی پر چڑھ جانے والا وزیر اعظم طاقتور تھا یا اسے پھانسی پر چڑھانے والا؟ کیا جلا وطن ہونے والا سیاست دان طاقتور تھا یا اسے جلا وطن کرنے والا؟ کیا عدلیہ کے حکم پر گھر جانے والا سیاست دان طاقتور تھا یا آئین توڑ کر ملک سے فرار ہونے والا طاقتور تھا؟ سیاست دانوں کو ٹھاپیں لگائیں، اُن پر ٹاک شوز میں پھبتیاں کسیں، ان کی ڈمی بنا کر تمسخر اڑائیں، کوئی بات نہیں کہ یہ سب اسی گلے سڑے فرسودہ جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے، البتہ سیاست دانوں کے خلاف اس مسحور کُن بیانئے کی آڑ میں چند لوگ جس نظام کی راہ ہموار کرتے ہیں اُس میں سب سے پہلے انہی لوگوں کی بولتی بند ہوتی ہے اور اجازت ملنے کے بعد جب کھلتی ہے تو اُس میں سے فقط پھول ہی جھڑتے ہیں، حوالے کے لئے ملاحظہ ہو 12اکتوبر 1999کے ابتدائی چند سال (بعد کے برسوں میں تو رخصت ہوتے ہوئے ڈکٹیٹر کو ٹھاپیں لگانے والے وہ بھی تھے جو پہلے اُسے رام کا اوتار کہتے تھے)۔
ان تمام جذباتی نعروں پر بات ہو سکتی ہے جنہیں سُن کر ہم پر جنون طاری ہو جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں کچھ لوگ نظام الٹانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً موروثی جمہوریت کے نعرے کو ہی لیتے ہیں، کیا واقعی ہمارے ملک میں موروثی جمہوریت ہے جو دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں؟ حالانکہ امریکہ جیسی جمہوریت میں بیسیوں خاندانوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹے تخت نشین ہوئے۔ جی ہاں، اب میں یہ گھسا پٹا جملہ سنوں گا کہ میں اس غلیظ جمہوریت کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس میں ہمیں غلام ابن غلام رکھا جاتا ہے لیکن آج میرا موڈ چونکہ اس بحث میں پڑنے کا نہیں لہٰذا میں ایک لمحے کے لئے فرض کر لیتا ہوں کہ واقعی ہم ایک مکروہ اور جعل سازی پر مبنی نظام میں جکڑے جسے ہم جمہوریت سمجھ کر تالیاں پیٹتے رہتے ہیں اور احمقوں کی طرح بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ تو کیا کوئی بتائے گا کہ اس سے بہتر نظام کون سا ہے اور وہ کیسے نافذ العمل ہو سکتا ہے؟
مجھے اندازہ ہے کہ آپ سمیت ہم سب کی یہ خواہش ہے کہ یہاں مسلمانوں کے سنہری دور خلافت کی طرز پر کوئی نظام رائج ہو جس کے نتیجے میں عدل و انصاف کی فوری فراہمی ہو، کوئی بیروزگار نہ ہو، غربت کا نشان مٹ جائے، قانون سب کے لئے برابر ہو، حکمران اور عوام میں کوئی امتیاز نہ ہو، وزیر اعظم سائیکل پر سفر کرے، سربراہان مملکت کی سواری گزرنے پر سڑکیں بند نہ کی جائیں، ہر بچہ ایچیسن کالج کے معیار کی تعلیم حاصل کرے، معیشت پھلے پھولے، چار سُو خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔ اب ایک لمحے کے لئے اپنے ذہن میں ان ممالک کی فہرست لائیں جنہوں نے اس طرز کا نظام اپنے ہاں رائج کر رکھا ہے اور جہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا بے چین پھرتی ہے، فوراً یورپ اور سکینڈے نیویا کے ملک ہمارے ذہن میں آئیں گے۔ اب ذہن پر مزید زور ڈال کر یہ بھی سوچیں کہ ان ممالک نے یہ نظام کیسے اپنایا، کیا وہاں دس بیس سال بعد جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی تھی یا وہاں جمہوریت کا تسلسل رہا؟ جی، مجھے اسی دلیل کا انتظار تھا کہ ان ممالک کا ہمارے ساتھ موازنہ درست نہیں، ہمارے ہاں چونکہ جہالت ہے اس لئے اَن پڑھ اور جاہل عوام کو کبھی ذات برادری کے نام پر اور کبھی سبز باغ دکھا کر نو سرباز سیاست دان برسوں سے بیوقوف بناتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ سو سال تک یونہی بیوقوف بناتے رہیں گے کیونکہ جب مشین ہی خراب ہو گی تو اس سے نکلنے والا رس میٹھا نہیں بلکہ زہریلا ہوگا سو اس زہریلی مشین کو ہی بدلنا ہو گا۔ بظاہر اس دلیل میں بڑی کشش ہے مگر نقص اس میں یہ ہے کہ ان تمام ترقی یافتہ ممالک کے پاس پہلے دن ہی زیرو میٹر مشین نہیں تھی، بلکہ ان کے پاس بھی ایسی ہی خراب مشینی جمہوریت تھی لیکن انہوں نے مشین بدلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مشین کو ٹھیک کروایا، شروع شروع میں وہ رک رک کر چلتی رہی لیکن پھر رواں ہو کر رس دینے لگی۔ اپنے ہاں تو مشین بدلنے کی بھی چار مرتبہ کوشش کی گئی لیکن ہر مرتبہ اسی مشین کو توڑ کر واپس ہاتھ میں پکڑا دیا گیا کہ اب اس ٹوٹی ہوئی مشین سے کام چلاو۔ اب جبکہ ہم اس مشین سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو خوش گفتار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ مشین ناکارہ ہے، کہیں سے زیرو میٹر جمہوریت لے کر آو جو فوراً رس دینا شروع کرے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ زیرو میٹر جمہوریت کہاں سے اور کتنے میں ملتی ہے!
دراصل جمہوریت کے بارے میں ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جب تک کہیں سے نئی نکور زیرو میٹر جمہوریت یہاں نافذ نہیں کی جاتی تب تک یہ ڈریکولا جمہوریت یونہی ہمارا خون پیتی رہے گی، ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ زیرو میٹر جمہوریت میں لیڈر فرشتہ سیرت ہوتے ہیں جس سے نظام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہے جس پر پھر کبھی ۔