زیادہ تر ڈاکٹر بہت اچھے ہیں اور ان کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو مسیحا ہیں اور دوسرے وہ جو سینہ زور ہیں۔ پہلے سینہ زوروں کی بات ہو جائے۔
سڑک پر ایک موٹر سائیکل سوار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، ساتھ میں جوان بہن تھی، دونوں کو شدید چوٹیں آئیں، لڑکی نے حجاب اوڑھ رکھا تھا مگر اب بیچاری کے کپڑے پھٹ چکے تھے، شلوار ادھڑ چکی تھی، بھائی کو ہوش نہیں تھا، لوگ اکٹھے ہوگئے، کسی نے انہیں اپنی گاڑی میں ڈالا اور ایک سرکاری اسپتال میں لے گیا۔ وہاں انسانوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، دونوں بہن بھائی کو بڑی مشکل سے ایمرجنسی تک پہنچایا گیا، تھوڑی دیر تک وہ یونہی اس امید پر کھڑے رہے کہ کوئی اُن کی حالت دیکھ کر خود ہی انہیں پوچھ لے گا مگر جب کسی نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تو انہیں لانے والے شخص نے میز کے پیچھے بیٹھی نرس سے کہا کہ انہیں اٹینڈ کریں، جواب میں نرس نے کہا پہلے پرچی بنوا کر لائیں۔ منابھائی ایم بی بی ایس یاد آگئی۔ چاروناچار وہ شخص پرچی بنوانے کائؤنٹر پر گیا جہاں پہلے سے ایک طویل قطار تھی، کسی کے سر پھٹا ہوا تھا، کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، کسی کی آنکھ پھوٹی ہوئی تھی، مگر سب پرچی بنوانے لائن میں کھڑے تھے، اس شخص کی باری پندرہ منٹ بعد آئی، پرچی بنوانے کے بعد وہ دوبارہ ایمرجنسی میں گیا تاکہ اب اُن مریضوں کو بستر پر ڈلوا سکے مگر اب نرس نے اپنا کھاتا کھول لیا ’’نام لکھوائیں، کہاں سے آئے ہیں، چوٹ کیسے لگی؟‘‘ اللہ اللہ کرکے انہیں بیڈ پر لٹایا مگر پھر بھی کوئی انہیں دیکھنے نہیں آیا، اسپتال میں آئے ہوئے قریبا ً آدھ گھنٹہ گزر چکا تھا، ڈاکٹر موجود تھے اور نہایت مطمئن انداز میں یوں خوش گپیاں چل رہی تھیں گویا کسی کیفے میں بیٹھے ہوں، یہ وہی چند نوجوان ڈاکٹرز تھے جن کے کارنامے ہم آئے روز اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی میں دیکھتے ہیں۔ جب اُس شخص نے کچھ شور مچایا تو ایک ’’کاکی‘‘ نما ڈاکٹرنی بیزاری سے اٹھی اور لڑکی کا بے دلی سے یوں معائنہ کیا جیسے کہہ رہی کہ یہاں کیوں آئی ہو، وہیں سڑک پر ہی مر جاتی تو اچھا تھا! دوسری طرف مرد ڈاکٹر نے بھی اسی طرح لڑکے کو دیکھا جیسے کسی کیڑے مکوڑے کو دیکھتے ہیں۔ انہیں لانے والے شخص نے کہا کہ کم از کم اِن کی خراشیں تو صاف کر دیں، جواب ملا ’’وہ یہاں سے نہیں ہوں گی، اس کے لئے علیحدہ کمرہ ہے۔‘‘ پھر وہ کمرہ ڈھونڈا گیا، وہاں پہلے سے ہی دس مریض قطار میں کھڑے تھے اور انہیں دیکھنے کے لئے صرف ایک بندہ موجود تھا، کچھ واویلا کیا گیا تو ایک اور شخص اندر آیا اور نہایت بدتمیزی سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے، جب اسے مسئلہ بتایا گیا تو چاروناچار اس نے بھی ٹریٹمنٹ شروع کی مگر ایسے جیسے جانوروں کا علاج کرتے ہیں، ٹیکہ یوں لگایا جیسے کسی بھینس کو لگاتے ہیں۔ ڈریسنگ کروانے کے بعد درخواست کی کہ اب پٹی بھی کردو تو جواب ملا وہ ایمرجنسی سے ہوگی….. عملے کی نااہلی اور ڈاکٹروں کی بدتمیزی کو ہزار سے ضرب دے کر آپ اِس قضیئے کو کہیں بھی ختم کر سکتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں دوائیں دستیاب نہیں یا مشینری ہر وقت خراب رہتی ہے، اِس اسپتال میں دوائیں بھی مفت دستیاب تھیں اور ہر قسم کی مشینری بھی چالو تھی، خرابی صرف سینہ زور ڈاکٹروں کے دماغ میں بھرا ہوا خناس اور عملے کی کام چوری تھی۔ ہزار بہانے اِن کے پاس کام نہ کرنے کے موجود ہیں ’’تنخواہیں کم ہیں، مریضوں کی شرح ابنارمل ہے، ترقیاں نہیں ملتیں، وغیرہ وغیرہ۔‘‘مگر ننگی سچائی یہ ہے کہ بعض نوجوان ڈاکٹرز کی شکل میں ایک ایسا مافیا وجود میں آچکا ہے جس کا کام اسپتالوں میں صرف سینہ زوری کرنا ہے، یہ اُسی قسم کی سینہ زوری کا آغاز ہے جیسے کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے پینتیس برس قبل کیا تھا، اُس وقت بھی اسپتالوں کے یہی نوجوان ڈاکٹرز تھے سو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اُن کی اعلیٰ قیادت ڈاکٹرز پر مشتمل ہے، ذرا نام ذہن میں لائیں، بات صاف ہو جائے گی۔ پنجاب کے یہ نام نہاد نوجوان ڈاکٹرز ایک فون کال پر اسپتالوں میں ہڑتال کرواتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت اِن کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے، یہ لوگ ڈیوٹی پر غیرحاضر رہنے والے اور کام سے غفلت برتنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیتے، اپنے سینئرز سے بدتمیزی کرتے ہیں، ان کی بات اِس جملے سے شروع ہوتی ہے ’’یہ کام ہم نے نہیں ہونے دینا!‘‘ ان کا مطمعح نظر ہے کہ کوئی اِن سے کام کی بابت پوچھنے کا مجاز نہیں البتہ یہ ہر قسم کی ترقی اور مراعات کے حقدار ہیں ۔ یہ اپنا حلف بھول چکے ہیں جو انہوں نے بطور معالج اٹھایا اور انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ ایک معزز پیشے سے وابستہ ہیں جسے انگریزی میں Noble Professionکہتے ہیں، اس پیشے کی دنیا بھر میں تکریم کی جاتی ہے ورنہ بقول مشتاق یوسفی ’’چاندی تو طبلے سارنگی میں بھی ہے!‘‘
سینہ زور ڈاکٹرز تصویر کا ایک رُخ ہیں۔ تصویر کا دوسرا رُخ وہ پاکستانی ڈاکٹرز ہیں جو صحیح معنوں میں مسیحا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر پوری دنیا میں پاکستان کی عزت بڑھانے میں کوئی طبقہ کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ پاکستانی ڈاکٹرز ہیں، یہ جذباتی نعرہ نہیں حقیقت ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز کا شمار ٹاپ کے ڈاکٹرز میں ہوتا ہے، یہ ایسے مسیحا ہیں جو مریض کی نبض دیکھ کر تشخیص کر لیتے ہیں، ایسے ہی ایک ڈاکٹر محی الدین تھے جو اب وفات پا چکے ہیں، کئی سال پہلے مجھے ٹائیفائڈ کا شبہ ہوا تو میں اپنے ٹیسٹ کروا کے اُن کے پاس لے گیا اور جس طرح مریض کی عادت ہوتی ہے فوراً اپنی رپورٹ نکال کر ڈاکٹر کے سامنے رکھ دی، ڈاکٹر نے رپورٹ پرے کی اور کہا کہ پہلے میں آپ کو خود چیک کروں گا، آدھ گھنٹے تک میرا بغور معائنہ کرنے کے بعد انہوں نے دوٹوک لہجے میں فیصلہ سنایا ’’آپ کو ٹائیفائڈ نہیں ہے، اب رپورٹ دکھایئے!‘‘ رپورٹ بھی یہی تھی۔ اب بھی ایسے ڈاکٹر اور سرجن موجود ہیں، چند نام جو ذہن میں گونج رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر عارف تجمل، سرجن مجید چوہدری، ڈاکٹر راشد لطیف اور شیخ زید اسپتال کے ڈین ڈاکٹر فرید شامل ہیں۔
یہ فیصلہ اب ان نوجوان ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ انہوں نے سینہ زوروں کی فہرست میں نام لکھوانا ہے یا اِن مسیحائوں کی لسٹ میں آنا ہے۔ مسیحاؤں کی اِس کیٹیگری میں اگر ڈاکٹر مسعود صادق کا نام شامل نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی، آپ لاہور کے چلڈرن اسپتال کے ڈین ہیں، میری حسرت ہی ہے کہ میں کبھی ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھوں، یہ اپنے حاسد کا ذکر بھی اس محبت سے کرتے ہیں جیسے کوئی اپنی محبوبہ کی بات سنا رہا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کالم میں ڈاکٹر صاحب کے ایک نیک کام کا ذکر کیا تھا کہ انہوں نے دل کے مریض بچوں کے مفت علاج کے لئے اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا جس کے لئے انہیں زمین درکار تھی، یہ زمین انہیں مل گئی ہے مگر بے تحاشا کام ابھی باقی ہے۔ اس اسپتال میں اُن بچوں کا علاج ہو سکے گا جو کابل سے لاہور تک علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، ڈاکٹر مسعود صادق اور اُن کے رفقا اِس نیک کام میں اپنا حصہ تو ڈال ہی رہے ہیں مگر اِس ملک کے پانچ امیر ترین افراد اگر چاہیں تو یہ نیک کام پلک جھپکتے میں مکمل ہو سکتا ہے۔
چند کروڑ روپے پاکستان کے پانچ متمول ترین افراد کے لئے مونگ پھلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے مگر جن والدین کے بچے دل میں سوراخ ہونے کی وجہ سے محض اس لئے مر جاتے ہیں کہ اِن کے پاس اپنے بچے کے آپریشن کے لئے روپے نہیں ہوتے، اُن کے لئے یہ ’’مونگ پھلیاں‘‘ نہیں بلکہ تمام عمر کا سرمایہ ہے۔ سو کوئی ہے جو پاکستان کے اس مسیحا کی مدد کرے؟
ایسا نہیں ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں دوائیں دستیاب نہیں یا مشینری ہر وقت خراب رہتی ہے، اِس اسپتال میں دوائیں بھی مفت دستیاب تھیں اور ہر قسم کی مشینری بھی چالو تھی، خرابی صرف سینہ زور ڈاکٹروں کے دماغ میں بھرا ہوا خناس اور عملے کی کام چوری تھی۔ ہزار بہانے اِن کے پاس کام نہ کرنے کے موجود ہیں ’’تنخواہیں کم ہیں، مریضوں کی شرح ابنارمل ہے، ترقیاں نہیں ملتیں، وغیرہ وغیرہ۔‘‘مگر ننگی سچائی یہ ہے کہ بعض نوجوان ڈاکٹرز کی شکل میں ایک ایسا مافیا وجود میں آچکا ہے جس کا کام اسپتالوں میں صرف سینہ زوری کرنا ہے، یہ اُسی قسم کی سینہ زوری کا آغاز ہے جیسے کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے پینتیس برس قبل کیا تھا، اُس وقت بھی اسپتالوں کے یہی نوجوان ڈاکٹرز تھے سو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اُن کی اعلیٰ قیادت ڈاکٹرز پر مشتمل ہے، ذرا نام ذہن میں لائیں، بات صاف ہو جائے گی۔ پنجاب کے یہ نام نہاد نوجوان ڈاکٹرز ایک فون کال پر اسپتالوں میں ہڑتال کرواتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت اِن کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے، یہ لوگ ڈیوٹی پر غیرحاضر رہنے والے اور کام سے غفلت برتنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیتے، اپنے سینئرز سے بدتمیزی کرتے ہیں، ان کی بات اِس جملے سے شروع ہوتی ہے ’’یہ کام ہم نے نہیں ہونے دینا!‘‘ ان کا مطمعح نظر ہے کہ کوئی اِن سے کام کی بابت پوچھنے کا مجاز نہیں البتہ یہ ہر قسم کی ترقی اور مراعات کے حقدار ہیں ۔ یہ اپنا حلف بھول چکے ہیں جو انہوں نے بطور معالج اٹھایا اور انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ ایک معزز پیشے سے وابستہ ہیں جسے انگریزی میں Noble Professionکہتے ہیں، اس پیشے کی دنیا بھر میں تکریم کی جاتی ہے ورنہ بقول مشتاق یوسفی ’’چاندی تو طبلے سارنگی میں بھی ہے!‘‘
سینہ زور ڈاکٹرز تصویر کا ایک رُخ ہیں۔ تصویر کا دوسرا رُخ وہ پاکستانی ڈاکٹرز ہیں جو صحیح معنوں میں مسیحا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر پوری دنیا میں پاکستان کی عزت بڑھانے میں کوئی طبقہ کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ پاکستانی ڈاکٹرز ہیں، یہ جذباتی نعرہ نہیں حقیقت ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز کا شمار ٹاپ کے ڈاکٹرز میں ہوتا ہے، یہ ایسے مسیحا ہیں جو مریض کی نبض دیکھ کر تشخیص کر لیتے ہیں، ایسے ہی ایک ڈاکٹر محی الدین تھے جو اب وفات پا چکے ہیں، کئی سال پہلے مجھے ٹائیفائڈ کا شبہ ہوا تو میں اپنے ٹیسٹ کروا کے اُن کے پاس لے گیا اور جس طرح مریض کی عادت ہوتی ہے فوراً اپنی رپورٹ نکال کر ڈاکٹر کے سامنے رکھ دی، ڈاکٹر نے رپورٹ پرے کی اور کہا کہ پہلے میں آپ کو خود چیک کروں گا، آدھ گھنٹے تک میرا بغور معائنہ کرنے کے بعد انہوں نے دوٹوک لہجے میں فیصلہ سنایا ’’آپ کو ٹائیفائڈ نہیں ہے، اب رپورٹ دکھایئے!‘‘ رپورٹ بھی یہی تھی۔ اب بھی ایسے ڈاکٹر اور سرجن موجود ہیں، چند نام جو ذہن میں گونج رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر عارف تجمل، سرجن مجید چوہدری، ڈاکٹر راشد لطیف اور شیخ زید اسپتال کے ڈین ڈاکٹر فرید شامل ہیں۔
یہ فیصلہ اب ان نوجوان ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ انہوں نے سینہ زوروں کی فہرست میں نام لکھوانا ہے یا اِن مسیحائوں کی لسٹ میں آنا ہے۔ مسیحاؤں کی اِس کیٹیگری میں اگر ڈاکٹر مسعود صادق کا نام شامل نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی، آپ لاہور کے چلڈرن اسپتال کے ڈین ہیں، میری حسرت ہی ہے کہ میں کبھی ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھوں، یہ اپنے حاسد کا ذکر بھی اس محبت سے کرتے ہیں جیسے کوئی اپنی محبوبہ کی بات سنا رہا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کالم میں ڈاکٹر صاحب کے ایک نیک کام کا ذکر کیا تھا کہ انہوں نے دل کے مریض بچوں کے مفت علاج کے لئے اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا جس کے لئے انہیں زمین درکار تھی، یہ زمین انہیں مل گئی ہے مگر بے تحاشا کام ابھی باقی ہے۔ اس اسپتال میں اُن بچوں کا علاج ہو سکے گا جو کابل سے لاہور تک علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، ڈاکٹر مسعود صادق اور اُن کے رفقا اِس نیک کام میں اپنا حصہ تو ڈال ہی رہے ہیں مگر اِس ملک کے پانچ امیر ترین افراد اگر چاہیں تو یہ نیک کام پلک جھپکتے میں مکمل ہو سکتا ہے۔
چند کروڑ روپے پاکستان کے پانچ متمول ترین افراد کے لئے مونگ پھلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے مگر جن والدین کے بچے دل میں سوراخ ہونے کی وجہ سے محض اس لئے مر جاتے ہیں کہ اِن کے پاس اپنے بچے کے آپریشن کے لئے روپے نہیں ہوتے، اُن کے لئے یہ ’’مونگ پھلیاں‘‘ نہیں بلکہ تمام عمر کا سرمایہ ہے۔ سو کوئی ہے جو پاکستان کے اس مسیحا کی مدد کرے؟