وسیم بٹ، جرمنی
ٹرانس جینڈر کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے
معاشرے شعوری ترقی سے ہی پروان چڑھتے اور ترقی کرے ہیں ہمارے معاشرتی روئے ہی ہمیں دنیا میں بہتر اور بد تر مقام عطا کرتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں معاشرے میں بعض کیمونٹی کے حوالے سے ہمارے معاشرتی روئے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرتے اس ضمن میں معاشرے کا سب سے پسہ ہوا طبقہ خواجہ سرا کافی مشکلات کا شکار رہتا ہے انہیں ان کے کئی بنیادی حقوق کے ساتھ شناخت تک میسر نہیں تھی اس پسے ہوئے طبقے کو ہمیشہ تحضیک اور دشنام کا نشانہ بنائے جانے کی شکایات عام ہیں۔
مختلف حوالوں سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ٹرانس جینڈر کا شمار ملک کے محروم ترین طبقات میں ہوتا ہے جن سے ناصرف معاشرتی سطح پر امیتاز برتا جاتا ہے بلکہ ان کو تعلیم وروزگار کے مواقع بھی کم میسر ہیں۔ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ اور انھیں مساوی شہری حقوق دینے سے متعلق گزشتہ کچھ عرصہ سے کی جانے والی کوششیں ماضی کی نسبت زیادہ بلند آہنگ ہوئی ہیں ۔پاکستان میں خواجہ سراو¿ں کو امتیازی سلوک کا ہمیشہ ہی شکوہ رہا ہے اور ایسے کئی واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جہاں انھیں شہری حقوق دینا تو درکنار انھیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا۔انھیں یہ شکایت رہی ہے کہ ان پر ہونے والے مظالم کی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ اسپتالوں میں بھی انھیں امتیازی سلوک اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگ عموماً انھیں صرف تفریح کا ذریعہ ہی سمجھتے ہیں۔
لیکن ان اقدامات کو کو سراہا جارہا ہے جو خواجہ سراو¿ں کو معاشرے کا حصہ سمجھنے اور بنانے کے لیے حکومتی اور سماجی سطح پر حالیہ مہموں میں کیے گئے ہیں سماجی سطع پر شعور اجاگر کرنے اور ان کے لئے آواز بلند کرنے کا نتیجہ میں سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی ملک میں موجود تیسری صنف یعنی خوجہ سراو¿ں کے وجود کو تسلیم کرنے اور انھیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے بل پاس کیا گیا ۔ قومی اسمبلی نے خواجہ سراو¿ں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2018 منظور کرلیا جس کے بعد انہیں شناختی کارڈ، پاسپورٹ سمیت ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہوگیا۔ اس کا کریڈیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر کو جاتا ہے جنہوں نے قومی اسمبلی میں خواجہ سراو¿ں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2018ء سینیٹ سے منظوری کے بعد فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی تھی ۔منظور کردہ بل میں حق وراثت، تعلیم کا حق، روزگار، حق رائے دہی، عوامی عہدہ رکھنے کا حق، صحت کا حق، اجتماع کی آزادی کا حق، عوامی مقامات تک رسائی کا حق اور جائیداد کا حق دیا گیا۔بل میں قانونی پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت کے فرائض پر واضح کردیے گئے ہیں۔ سابقہ دور حکومت کے اس کارنامے کو جہاں دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے وہیں خواجہ سراہوں کے اندر اطیمنان بھی پایا جاتا ہے۔
2017کی مردم شماری میں پہلی بار اس صنف کو جگہ دی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں خواجہ سراو¿ں کی تعداد 10 ہزار 418 ہے جو کل آبادی کا 0.005 فی صد بنتی ہے۔۔پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20کروڑ 77 لاکھ 74ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں موجود مخنث آبادی کا سب سے زیادہ 64.4 فیصد حصہ پنجاب میں ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے۔پنجاب میں مخنث برادری کے 6 ہزار 709 افراد موجود ہیں جبکہ کراچی کا زکر کئے بغیر سندھ میں 2 ہزار 527 مخنث افراد کی موجودگی بتائی گئی ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب 913 اور 109 اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں صرف 27 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تعداد 133 بتائی گئی ہے۔جبکہ یہ بھی بھی ایک حقیقت ہے کہ 2009 میں پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے قانونی طور پر تیسری جنس کو تسلیم کرتے ہوئے خواجہ سراوں کو شناختی کارڈ حاصل کرنے کی اجازت دی
لیکن جینڈر انٹر پر کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان کی تعداد پانچ لاکھ سے اوپر بتاتی ہیں اب کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں ان کی گنتی کی ہی نہیں گئی ۔ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لئے سرگرم چار تنظیموں کے بانی رہنماوں کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے لیکن سیاست اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں مخصوص شعبوں تک محدود کردیا گیا ہے، جس کے باعث برادری کے کئی افراد بھیک مانگ کر اور رقص کرکے گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔گزشتہ دو سالوں میں کے پی کے میں 55 ٹرانس جینڈر اور ملک بھر میں سن دو ہزار پندرہ سے اب تک 500 خواجہ سرا قتل کر دیے گئے،اس سفاکیت کی تصدیق سیکرٹری لاءاینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کرتے ہیں۔قتل کی رپورٹ تو درج ہو جاتی ہے مگر کیس کی پیروی کوئی نہیں کرتا۔ٹرانس جینڈر تیسری جنس کے طور پر پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں اور گھر، علاج اور نوکری حاصل کر سکتے ہیں، یعنی اب ہر پاکستانی کی طرح ان کے بنیادی حقوق بھی تسلیم کر لئے گئے ہیں۔انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت تو ملی مگر فارم میں ان کی صنف کا خانہ ہی نہ تھا۔نیک شگون یہ ہے کہ نادرا ٹرانس جینڈر کو مفت شناختی کارڈ کی فراہمی کر رہا ہے اور اب شناخت کوئی پیچیدہ مسئلہ بھی نہیں۔سن 2012 میں سپریم کورٹ ف پاکستاب نے ٹرانس جینڈر افراد کو مساوی شہری قراد دیتے ہوئے انہیں وراثت کی جائیداد میں حصے کا حق دار قرار دیا تھا اور اپنے حکم میں اعلی عدلیہ نے انہیں تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع دینے کا کہا تھا۔اس سے ایک سال پہلے انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔اس سال ہونے والی مردم شماری میں پہلی بار ٹرانس جینڈر افراد کی بھی گنتی کی گئی ۔ ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منظوری کے بعد حکومت کو حقیقی معنوں میں یہ مہم چلانے کی ضرورت ہوگی کہ معاشرے کو، حکومتی عہدے داروں ، پولیس اہل کاروں اور ہر کسی کو یہ احساس دلا یا جائے کہ ٹرانس جینڈر انہی کی طرح انسان ہیں اور انہی کی طرح ان کے بھی برابر کے حقوق ہیں۔
دوسری جانب ایک اور خوش آئند بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں ملک کے پہلے ٹرانس جینڈر وارڈ کا افتتاح بھی ہو چکا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں ملک کے پہلے ٹرانس جینڈر وارڈ کا افتتاح کر دیا گیا،وارڈ کا افتتاح وزیرصحت عامرمحمودکیانی اوروفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کیا۔ گذشتہ ماہ وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے سوشل میڈیا ویب سائٹ کے ذریعے اس وارڈ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔نئی حکومت کے آنے کے بعد پمز ہسپتال نے خواجہ سرا مریضوں کے لیے الگ کمرے متعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ قدم خواجہ سرا مریضوں کی مشکلات میں کمی لائے گا اور ان کی طبی رسائی میں اضافہ کرے گا۔چند روز قبل اسلام آباد میں پہلی بار ایک خواجہ سرا کو ڈرائیونگ لائسنس بھی جاری کیا گیا تھا۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پڑئے بغیر کہ ان کی تعداد کتنی ہے کتنی نہیں لیکن ضرورت اس مر کی ہے کہ انہیں بھی انسان سمجھتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق کا خیال ہر سطع پر رکھا جائے بطور انسان تکریم و تعظیم انسان کا بنیافی حق ہے جسے افراد معاشرہ سے لیکر حکومتی سطع تک یقینی بنانا چاہیے جبکہ حکومت کو ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے چاہیں تاکہ یہ لوگ بھی باعزت زندگی گزار سکیں۔
نوٹ: سٹی پریس پر شائع ہونے تمام کالم نیک نیتی سے شائع کیءجاتے ہیں کسی بھی کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا سٹی پریس کے لیے قطعاً ضروری نہیں ہے۔
ادارہ