عمر فاروقی
بھارت نے پارلیمنٹ کے ذریعےجموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی آرٹیکل35 اے کو بھی ختم کردیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر ریاست کے لیے مستقل شہریت کے قانون اور شہریوں کے اختیارات طے ہوتے ہیں۔ اس آرٹیکل کے ہٹنے کے بعد شہر ی حقوق اور ملازمت کے اصول و ضوابط بھی بدل جائیں گے۔ پاکستان نے بھارت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہکہا گیا ہے کہ ہندوستان کے حصہ والا کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور یہ معاملہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں شامل ہے، بھارت کسی یک طرفہ ا قدام سےاس کے متنازعہ ڈھانچہ کو بدل نہیں سکتا ۔جواب میں بھارت کا کہنا ہے کہ اب مسئلہ کشمیر حل ہو گیا ہے، لیکن حقیقت دعوے کے برعکس ہے۔ مودی سرکار کے اس ظالمانہ فیصلے کے بعد بھارت نواز حلقے میں بھارت کے خلاف ہو گئے ہیں۔ یعنی سارے کشمیری ہی بھارت کے خلاف ہو گئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کرفیو اور پابندیوں کو آج کم وبیش3 ہفتے گذر چکے ہیں ، لاک ڈاؤن اور ذرائع مواصلات کی بندشیں بدستور جاری ہیں۔قابض بھارتی فوج نے نام نہاد آپریشن کی آڑ میں ایک کشمیری کو شہید اور 40 نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔پابندیوں کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا، جس کے دوران بھارتی فورسز نے آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے باعث متعدد کشمیری زخمی ہو گئے۔احتجاج روکنے کے لیے اب تک گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
بھارت نے اپنے طور پر 72 سال کا ’اسٹیٹس کو‘ توڑ کر کھیل ہی ختم کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان بھارت او ِ رکشمیر میں نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے کھیل کی ابتدا ہے۔ باہمی کشمکش، کشیدگی، شدت پسندی، انتقام، مزاحمت، پراکسی جنگوں کا ایک نیا کھیل مودی حکومت نے خطے کی نئی نسلوں کو منتقل کردیا۔ جموں و کشمیر سے متعلق دفعہ 370 ہٹانے کے بھارتی فیصلے نے ایک دھماکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ اور آگے چل کراس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا اور حالات خوف ناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں۔
پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کا تشویشناک پہلو یہ ہوگا کہ ایسی وہ تمام عسکری اورجہادی تنظیمیں جن پر پابندیاں عائد ہیں ا ن کے لئے مواقع پیدا ہو جائیں گے کہ وہ عالمی پابندیوں سے آزاد ہو کر اپنےآپ کو دوبارہ منظم کرلیں ۔ یاد رہنا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان نے تمام جہادی اور عسکری تنظیموں پر پابندی لگا رکھی ہے، ان کے فنڈز کے ذرائع پر کڑی نگرانی ہے اوران تنظیموں کی قیادتیں جیل میں ڈال دی گئیں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرحد پار جہاد کو دہشت گردی قرار دیا جا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود ان جہادی اور عسکری حلقوں کی خواہش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستانی فوج کیلئے ماضی کی طرح ضرورت بنی رہیں ، پاک بھارت تصادم یا کوئی محدود جنگ ان کے لئے بہترین موقع ہوگا کہ پاکستان کی فوج کیلئے ان کی اہمیت ناگزیر ہو جائے گی۔کیونکہ اس کے بعد جہاد پر عائد پابندیوں اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور عالمی اتحاد کے ایجنڈے کی اہمیت اورپاسداری کا پاکستان کیلئے جواز باقی نہیں رہتا ۔ بلکہ افغانستان کے اندر طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جس قدر کامیابیاں حاصل کر رکھی ہیں ان سب پربھی پانی پھر جائے گا۔
لیکن اس کے برعکس اس حوالے سے بھارت کے پالیسی سازوں کی خوش گمانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں عسکری تنظیموں کی نئے سرے سے افزائش کے امکانات کا ابھار پاکستان کے خلاف امریکہ اور اس کےعالمی اتحادیوں کے شدید ردعمل کا سبب بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی اتحاد سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے عالمی برادری میں تنہا کیا جا سکتاہے۔خطے میں پاکستان کیلئے ا س طرح کے ناپسندیدہ حالات یقینا بھارت کیلئے مثالی ہونگے اور وہ بلاروک ٹوک پاکستان کواپنی جارحیت کا نشانہ بنا سکے گا۔تاہم اس کے مضمرات سے پیدا ہونے والے نتائج کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی بقا کیلئے خطرہ بننے والے حالات عسکریت پسند تنظیموںاور جہادی عناصر کی دوبارہ سے افزائش کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں جن کو دہشت گردی اور شدت پسندی یا بنیاد پرستی سے جوڑا جاتا ہے۔بہر حال بھارت کے پالیسی سازوں کی خواہشیں ایک طرف لیکن ایسا شاید نہ ہو سکے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی جانتے ہیں کہ عالمی دہشت گردی اور بنیاد پرست قوتوں کے خلاف بھارت کو ساتھ ملانا اپنے طور پر ایک احمقانہ اقدام ہوگا ،کہ ہندو توا کی بنیاد پرستی کا عفریت فرقہ واریت کی بد ترین شکل میں خود بھارت کے اندر اس کی جمہوری، سیکولر روایات کو نگل رہا ہے اور بھارت ایک ترقی کرتی ہوئی نارمل اور لبرل قومی ریاست کی جگہ تیزی کے ساتھ ایک ہندو قوم پرست ریاست بن رہا ہے۔
ایک ایسی ہندو ریاست جس کے سامنے کانگریس کے ایک گروہ اور بائیں بازو کیمٹھی بھر جماعتوں کے علاوہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنا سر تسلیم خم کر چکی ہے۔ وہ مسلمانوں کا دم بھرنے والے ٹی آر ایس ہوں یا ملائم سنگھ و مایاوتی ،سب ہی کشمیر ایشو پر مودی حکومت کے ساتھ ہیں۔ مودی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیوں کا جوہری عنصر آر ایس ایس کے عزائم اور امنگیں ہیں۔ جوبھارت کو ہندووں کا ملک قرار دیتے ہیں اورکسی دوسری قوم کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر سے متعلق دفعہ 370 ہٹانے کے پس پردہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا دیرینہ کشمیری خواب بالآخر تکمیل کو پہنچا۔ جس کا مقصد کشمیر میںہندو آباد کاری کے ذریعے مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ رام مندر کی تعمیر اور واحد سول کوڈ جیسی آر ایس ایس کی باقی خواہشیں بھی بی جے پی کا سیاسی مفاد دیکھتے ہوئے پوری کر دی جائیں گی۔ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ ملک میں اب ہندوتوا کا راج ہے اور راج رہے گا، خواہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو۔محض ایک کانگریس پارٹی اور اس میں بھی گاندھی،نہرو خاندان ہی ابھی تک اس کے خلاف ہے۔ باقی سارے کسی نہ کسی طور پر آر ایس ایس کا ہندوتوا کا ایجنڈا تسلیم کر چکے ہیں۔ جو انتہائی خطرناک ہے۔
بھارت کے سیاسی سماجی ماحول میںلاشعوری طور پر فرقہ وارانہ بنیاد پرستی کے اثرات جس رفتار سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں وہ انتہائی سنگین ہیں ۔ ہندوتوا کے فروغ اور بالادستی نے حکمرانی کے تمام اعصاب کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے،اور ریاستی فیصلوں میں وہ پوری قوت سے شراکت داری کررہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں انہیں کنٹرول کرنا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے مشکل ہی نہیں بلکہ پاکستان میں شدت پسندی کی نسبت زیادہ بڑا چیلنج ہوگا۔ اس پس منظر میں کشمیر کی صورتحال پر دونوں ممالک کی جانب سے تندوتیز بیانات سے پیدا ہونے والے حالات روز بروز خطرناک ہوتے جارہے ہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان اور بھارت جنگ کے کسی امکان کی جانب بڑھ رہے ہیںجو تشویشناک ہے، کیونکہ ایسی صورت حال کا فائدہ دونوں طرف کے شدت پسندوں کو اٹھانے سے کو ئی نہیں روک سکتا۔جس کے نتیجے میں بھارت کے بنیاد پرست اور پاکستان کی عسکریت پسند تنظیمیں دونوں ملکوں کو جنگ کی جانب دھکیل سکتی ہیں ،اس کے بعد ایک محدود جنگ کو کسی بڑی جنگ میں تبدیل کیا جائے اس کا فیصلہ بنیاد پرست قوتوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس پر پاکستان اور بھارت کی قیادتوں کے علاوہ عالمی قیادتوں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کے امن وامان کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے، اس حوالے سے گذشتہ روز امریکی صدرکی مقبوضہ کشمیرکی کشیدہ صورتحال پرایک بارپھرثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اوربھارت کےدرمیان کشمیر دیرینہ، پیچیدہ اور حل طلب مسئلہ ہے،انہوں نے کہاکہ آئندہ ہفتے وہ بھارتی وزیراعظم سے مسئلہ کشمیرپربات کریں گے، بھرپورکوشش ہوگی کہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی ہوجائے۔
کہاجاتاہے کہ جنگ و امن کے فیصلے ٹھنڈے دل و دماغ سے کیے جاتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بھارت پر چڑھائی کر دو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہاس بارے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے کئی عوامل پر غور و خوض کرنا پڑتا ہے، جن میں فوجی طاقت اور عالمی رائے عامہ کے رجحانات کاجائزہ لینے اولین ضرورت ہے ۔ کشمیر پر ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے، جبکہ آزمائش کی اس گھڑی میں قومی یکجہتی کا مثالی مظاہرہ ہونا چاہیے تھا۔قومی اقتصادی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے، تو پاکستان کسی جنگ کا متحمل نہیںہو سکتا ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا قومی مفاد پاکستان کی بقا اور سالمیت ہے۔ ہمیں جذبات پر قابو رکھتے ہوئے حالات کا جائزہ لینا ہو گا۔