طیب اردگان کیلئے خطرے کی گھنٹی ؟
عمر فاروقیمیئر استنبول کے دوبارہ انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کے امیدوار کو اپوزیشن کے امیدوار نے شکست دے دی۔ عالمی نشریاتی ادار وں کے مطابق اپوزیشن جماعت کے امیدوار اکرم امام اوغلو نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 13 ہزار ووٹ زیادہ لیے ہیں۔
فرخ سہیل گوئندی جو کہ ان دنوں ترکی میں ہیں اور اپنے ویڈیوز کے ذریعےاستنبول شہر کے میئر کے حالیہ انتخابات پراپنے خیالات کے ساتھ دوستوں اور احباب کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ترکی کی سیاست دو اصولوں کے گرد گھومتی ہے معیشت اور جمہوریت یعنی مزید معیشت و طاقتور میشت اورمزید جمہوریت ۔ اپوزیشن سیاست میں ایک طویل عرصے سے جمہوری جدوجہد کر رہی ہے جس کی ترکی میں ایک شاندار روایت ہے۔ مزید یہ کہ ترکی کی سیاست میں سیکولر ازم اور اسلام کے تضادات کو بیان نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ترک سیاست میں اس حوالے سے کوئی تاثر مو موجود ہے۔ سیاست کا آپس میں مقابلہ ہے جو صرف سیاست سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میئر استنبول کے انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان میں اپنی ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا جواستنبول کو جیتتا ہے وہ ترکی کو جیتا ہے۔موجودہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ترکی کی سیاست تبدیل ہورہی ہے ۔ استنبول کی سیاست ترکی کی سیاست کا فیصلہ کرتی ہے اور اس دفعہ تو فیصلے نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے کیونکہ انقرہ جیسے بڑے شہرکے بعد اب استنبول کا اختیار بھی اب اپوزیشن کو حاصل ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں استنبول میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں حکمراں جماعت طیب ارداون کے امیدوار کو شکست ہوئی تھی جس کے بعد اے کے پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا جس کے باعث انتخابات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کی اس کامیابی کو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر رجب طیب اردگان ملکی سیاسی منظر نامے پر 2003 سے متحرک ہیں پہلے وہ وزیر اعظم رہے اس کے بعد صدر منتخب ہوئے، جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد انھیں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔اپنے دور اقتدار کے دوران انھوں نے ترکی میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں اور معاشی ڈھانچے کو تبدیل کیا، انھیں ترکی کے قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
صدر رجب طیب ایردگان کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر استنبول میں مئیر کے انتخابات میں ان کی شکست اور اکریم امام اوغلو کی جیت کی خبریں سننے کے فورا بعد ہزاروں پر جوش شہری ترکی کے جھنڈے لہراتے ہوئےاستنبول کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے جشن مناتے رہے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے اُمیدوار کو استنبول میں تقریبا پچیس برس بعد فتح نصیب ہوئی ہے۔ سیکولر سی ایچ پی کے حامیوں، سیاسی کارکنوں اورپرامید نوجوانوںنے کمال اتاترک کی تصاویر والے بینر ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔ کچھ نے تو امام اوغلو کے ماسک بھی اپنے چہروں پر چڑھائے ہوئے تھے۔ان میں سے بہت سے نوجوان تو صرف اردگان کی جماعت کو ہی حکومت میں دیکھتی آئی ہے۔ ان کے لیے یہ پورے ملک میں تبدیلی لانے کی ایک نئی لہر ہے۔ایک 22 برس کے نوجوان ایچے یلمز جو ایک مقامی یونیورسٹی کے طالب علم بھی ہیں کا کہنا تھا کہ ‘بہت سے ترک نوجوان ملک چھوڑنے کے لیے بے تاب ہیں لیکن شاید اب وہ دوبارہ ترکی میں رہنے کے بارے میں ہی سوچیں۔ اب ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ ایک تیس سالہ خاتون لائدا کا کہنا تھا، ‘میں کئی برسوں بعد اس قدر خوش ہوں۔‘ اکریم امام اوغلو نے اس موقع پر اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ پورے ملک کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ‘یہ انتخابات کسی ایک جماعت نے نہیں جیتے بلکہ یہ پورے استنبول اور پورے ترکی کی فتح ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ‘آج استنبول کے سولہ ملین شہریوں نے جمہوریت پر ہمارا یقین پختہ کر دیا ہے اور انصاف پر ہمارا اعتماد بحال ہو گیا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک نئے سفر کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور اس کی بنیاد انصاف، برابری اور محبت پر استوار ہے۔ ان کی اس بات کا شاید یہ پس منظر بھی ہے کہ اس سے پہلے ترکی میں سیکولر جماعتوں کو فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے کے الزامات کا سامنا تھا۔لیکن استنبول میں تاریخ کے ایک مختصر دورانئے کے بعد عوام نے سیکولر پارٹی کے امیدوار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں ترک معاشی بحران نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی ان دنوں زبردست معاشی بحران کا شکار ہے جس کے باعث سے حکمران جماعت کی حمایت میں کمی آئی ہےاور اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ترکی کی کرنسی مسلسل گر رہی ہے جبکہ افراط زر کی شرح میں اضافے سے مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط زر میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے حامی روایتی ووٹروں میں بھی بے چینی ہے۔اسی لئے اکریم امام اوغلونے اپنی انتخابی مہم میں غربت، بے روزگاری اور بچوں کی بہتر نگہداشت جیسے امور کو موضوع بنایا ۔ انہوں نے شہری انتظامیہ کے خلاف ‘جنگ کا اعلان‘ کر رکھا تھا۔روایتی سیاست کے برعکس انھوں نے انتخابی مہم کے دوران مخالفین پر ذاتی حملے نہیں کیے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم بہت مثبت انداز میں آگے بڑھائی۔ وہ گلی گلی گئےاور لوگوں سے ملے ۔سوشل میڈیا پر امام اوغلو کی مہم چلانے والے زلان کارکرت کے مطابق ’استنبول کے نو منتخب میئر عوام میں گھل مل جاتے ہیں جو کہ ہر امیدوار نہیں کرسکتا۔‘اس کے علاوہ ان کے انتخابی نعرے بھی بہت متاثر کر دینے والے تھے۔”جیسے کہ ‘سب اچھا ہو جائے گا ـ” یہ نعرہ انہیں ایک 13 برس کے لڑکے بیرکے نے دیا جو اس مہم کا حصہ تھا۔اے ایف پی کے مطابق انھوں نے مئی میں یہ کہہ دیا تھا کہ” وہ جمہوریت کی خاطر ہر صورت (اردگان ) کا مقابلہ کریں گے اور یہ یقیناً انقلاب ہوگا جب ہم (اس مقابلے کو) اس کے اختتام تک لے جائیں گے”۔اپوزیشن کی جیت کے امکان پر اِکرم امام اوغلو نے کہا تھاکہ” وہ نفرت کا مقابلہ پیار سے کرسکتے ہیں۔ صدر اردگان کا مقابلہ کرنے کی لئے ہماری یہ حکمت عملی بہت مؤثر رہی ہے۔انھوں نے اس شہر کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے 25 سال انتظار کیا ہے اور یہ ناقابل یقین کامیابی حاصل کی ہے۔ اب وہ ان لمحات سے لطف اندوز ہورہے ہیں”۔اِکرم امام اوغلو 1970 میں ترکی کے علاقے ترابزون میں پیدا ہوئے۔ استنبول کے نو منتخب میئر امام اوغلو کا تعلق سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی سے ہے۔انتخابات سے قبل ان کے نام سے کم لوگ ہی واقف تھے ۔ امام اوغلواگرچہ میڈیا پر زیادہ مشہور نہیں تھے۔ تاہم اپنی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد 350,000 سے بڑھ کر 2.75 ملین تک پہنچ چکی ہے۔اس سے قبل امام اوغلو استنبول کے کم شہرت والے ضلع ‘بیلک دزو‘ کے میئر بھی رہ چکے ہیں ۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں میئر کی سیٹ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اب جبکہ اکرم امام اوغلو اپنا انتخابی معرکہ جیت کر استنبول کے مئیر بن چکے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ” شاید اب یہیں سے ان کو آگے بڑھنے کا رستہ بھی مل گیا ہے”۔ اردگان کے سیاسی سفر کا آغاز بھی استنبول میں فتح سے شروع ہوا تھا۔ وہ پہلی بار 1994 میں اس تاریخی شہر کے میئر بنے تھے۔
اس انتخاب کے نتائج صدر رجب طیب اردگان کے لیے بڑا دھچکا ہیں۔ ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑنا شروع ہوچکی ہے اور یہ انتخابی نتیجہ اس میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اپنی جماعت میں پھوٹ اردگان کے 25 سال سے ان کے سیاسی عروج کے زوال کی ابتدا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اب بھی صدر ہی ہوں گے اور پارلیمنٹ کا کنٹرول ان کے اتحادیوں کے پاس ہی ہو گا لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی یہ شکست ان کے طویل اقتدار کے خاتمے کی شروعات ہوگی۔ اگرچہ آئندہ عام انتخابات 2023 میں ہونے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات اب پہلے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ اردگان نے انتخاب سے قبل یہ کہا تھا کہ جو جماعت استنبول میں جیتے گی وہی پورا ترکی جیت جائے گی اور استنبول کے نتائج اس کی بڑی نشانی ہے۔ اس سے کوئی فرو نہیں پڑتاکہ امام اولو نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے ۔استنبول میں بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں اکرم امام اولو کی جیت کو پورے ترکی کے لیے ایک ’نیا آغاز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
عمر فاروقیمیئر استنبول کے دوبارہ انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کے امیدوار کو اپوزیشن کے امیدوار نے شکست دے دی۔ عالمی نشریاتی ادار وں کے مطابق اپوزیشن جماعت کے امیدوار اکرم امام اوغلو نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 13 ہزار ووٹ زیادہ لیے ہیں۔
فرخ سہیل گوئندی جو کہ ان دنوں ترکی میں ہیں اور اپنے ویڈیوز کے ذریعےاستنبول شہر کے میئر کے حالیہ انتخابات پراپنے خیالات کے ساتھ دوستوں اور احباب کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ترکی کی سیاست دو اصولوں کے گرد گھومتی ہے معیشت اور جمہوریت یعنی مزید معیشت و طاقتور میشت اورمزید جمہوریت ۔ اپوزیشن سیاست میں ایک طویل عرصے سے جمہوری جدوجہد کر رہی ہے جس کی ترکی میں ایک شاندار روایت ہے۔ مزید یہ کہ ترکی کی سیاست میں سیکولر ازم اور اسلام کے تضادات کو بیان نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ترک سیاست میں اس حوالے سے کوئی تاثر مو موجود ہے۔ سیاست کا آپس میں مقابلہ ہے جو صرف سیاست سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میئر استنبول کے انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان میں اپنی ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا جواستنبول کو جیتتا ہے وہ ترکی کو جیتا ہے۔موجودہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ترکی کی سیاست تبدیل ہورہی ہے ۔ استنبول کی سیاست ترکی کی سیاست کا فیصلہ کرتی ہے اور اس دفعہ تو فیصلے نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے کیونکہ انقرہ جیسے بڑے شہرکے بعد اب استنبول کا اختیار بھی اب اپوزیشن کو حاصل ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں استنبول میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں حکمراں جماعت طیب ارداون کے امیدوار کو شکست ہوئی تھی جس کے بعد اے کے پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا جس کے باعث انتخابات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کی اس کامیابی کو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر رجب طیب اردگان ملکی سیاسی منظر نامے پر 2003 سے متحرک ہیں پہلے وہ وزیر اعظم رہے اس کے بعد صدر منتخب ہوئے، جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد انھیں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔اپنے دور اقتدار کے دوران انھوں نے ترکی میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں اور معاشی ڈھانچے کو تبدیل کیا، انھیں ترکی کے قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
صدر رجب طیب ایردگان کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر استنبول میں مئیر کے انتخابات میں ان کی شکست اور اکریم امام اوغلو کی جیت کی خبریں سننے کے فورا بعد ہزاروں پر جوش شہری ترکی کے جھنڈے لہراتے ہوئےاستنبول کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے جشن مناتے رہے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے اُمیدوار کو استنبول میں تقریبا پچیس برس بعد فتح نصیب ہوئی ہے۔ سیکولر سی ایچ پی کے حامیوں، سیاسی کارکنوں اورپرامید نوجوانوںنے کمال اتاترک کی تصاویر والے بینر ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔ کچھ نے تو امام اوغلو کے ماسک بھی اپنے چہروں پر چڑھائے ہوئے تھے۔ان میں سے بہت سے نوجوان تو صرف اردگان کی جماعت کو ہی حکومت میں دیکھتی آئی ہے۔ ان کے لیے یہ پورے ملک میں تبدیلی لانے کی ایک نئی لہر ہے۔ایک 22 برس کے نوجوان ایچے یلمز جو ایک مقامی یونیورسٹی کے طالب علم بھی ہیں کا کہنا تھا کہ ‘بہت سے ترک نوجوان ملک چھوڑنے کے لیے بے تاب ہیں لیکن شاید اب وہ دوبارہ ترکی میں رہنے کے بارے میں ہی سوچیں۔ اب ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ ایک تیس سالہ خاتون لائدا کا کہنا تھا، ‘میں کئی برسوں بعد اس قدر خوش ہوں۔‘ اکریم امام اوغلو نے اس موقع پر اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ پورے ملک کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ‘یہ انتخابات کسی ایک جماعت نے نہیں جیتے بلکہ یہ پورے استنبول اور پورے ترکی کی فتح ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ‘آج استنبول کے سولہ ملین شہریوں نے جمہوریت پر ہمارا یقین پختہ کر دیا ہے اور انصاف پر ہمارا اعتماد بحال ہو گیا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک نئے سفر کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور اس کی بنیاد انصاف، برابری اور محبت پر استوار ہے۔ ان کی اس بات کا شاید یہ پس منظر بھی ہے کہ اس سے پہلے ترکی میں سیکولر جماعتوں کو فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے کے الزامات کا سامنا تھا۔لیکن استنبول میں تاریخ کے ایک مختصر دورانئے کے بعد عوام نے سیکولر پارٹی کے امیدوار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں ترک معاشی بحران نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی ان دنوں زبردست معاشی بحران کا شکار ہے جس کے باعث سے حکمران جماعت کی حمایت میں کمی آئی ہےاور اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ترکی کی کرنسی مسلسل گر رہی ہے جبکہ افراط زر کی شرح میں اضافے سے مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط زر میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے حامی روایتی ووٹروں میں بھی بے چینی ہے۔اسی لئے اکریم امام اوغلونے اپنی انتخابی مہم میں غربت، بے روزگاری اور بچوں کی بہتر نگہداشت جیسے امور کو موضوع بنایا ۔ انہوں نے شہری انتظامیہ کے خلاف ‘جنگ کا اعلان‘ کر رکھا تھا۔روایتی سیاست کے برعکس انھوں نے انتخابی مہم کے دوران مخالفین پر ذاتی حملے نہیں کیے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم بہت مثبت انداز میں آگے بڑھائی۔ وہ گلی گلی گئےاور لوگوں سے ملے ۔سوشل میڈیا پر امام اوغلو کی مہم چلانے والے زلان کارکرت کے مطابق ’استنبول کے نو منتخب میئر عوام میں گھل مل جاتے ہیں جو کہ ہر امیدوار نہیں کرسکتا۔‘اس کے علاوہ ان کے انتخابی نعرے بھی بہت متاثر کر دینے والے تھے۔”جیسے کہ ‘سب اچھا ہو جائے گا ـ” یہ نعرہ انہیں ایک 13 برس کے لڑکے بیرکے نے دیا جو اس مہم کا حصہ تھا۔اے ایف پی کے مطابق انھوں نے مئی میں یہ کہہ دیا تھا کہ” وہ جمہوریت کی خاطر ہر صورت (اردگان ) کا مقابلہ کریں گے اور یہ یقیناً انقلاب ہوگا جب ہم (اس مقابلے کو) اس کے اختتام تک لے جائیں گے”۔اپوزیشن کی جیت کے امکان پر اِکرم امام اوغلو نے کہا تھاکہ” وہ نفرت کا مقابلہ پیار سے کرسکتے ہیں۔ صدر اردگان کا مقابلہ کرنے کی لئے ہماری یہ حکمت عملی بہت مؤثر رہی ہے۔انھوں نے اس شہر کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے 25 سال انتظار کیا ہے اور یہ ناقابل یقین کامیابی حاصل کی ہے۔ اب وہ ان لمحات سے لطف اندوز ہورہے ہیں”۔اِکرم امام اوغلو 1970 میں ترکی کے علاقے ترابزون میں پیدا ہوئے۔ استنبول کے نو منتخب میئر امام اوغلو کا تعلق سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی سے ہے۔انتخابات سے قبل ان کے نام سے کم لوگ ہی واقف تھے ۔ امام اوغلواگرچہ میڈیا پر زیادہ مشہور نہیں تھے۔ تاہم اپنی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد 350,000 سے بڑھ کر 2.75 ملین تک پہنچ چکی ہے۔اس سے قبل امام اوغلو استنبول کے کم شہرت والے ضلع ‘بیلک دزو‘ کے میئر بھی رہ چکے ہیں ۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں میئر کی سیٹ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اب جبکہ اکرم امام اوغلو اپنا انتخابی معرکہ جیت کر استنبول کے مئیر بن چکے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ” شاید اب یہیں سے ان کو آگے بڑھنے کا رستہ بھی مل گیا ہے”۔ اردگان کے سیاسی سفر کا آغاز بھی استنبول میں فتح سے شروع ہوا تھا۔ وہ پہلی بار 1994 میں اس تاریخی شہر کے میئر بنے تھے۔
اس انتخاب کے نتائج صدر رجب طیب اردگان کے لیے بڑا دھچکا ہیں۔ ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑنا شروع ہوچکی ہے اور یہ انتخابی نتیجہ اس میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اپنی جماعت میں پھوٹ اردگان کے 25 سال سے ان کے سیاسی عروج کے زوال کی ابتدا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اب بھی صدر ہی ہوں گے اور پارلیمنٹ کا کنٹرول ان کے اتحادیوں کے پاس ہی ہو گا لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی یہ شکست ان کے طویل اقتدار کے خاتمے کی شروعات ہوگی۔ اگرچہ آئندہ عام انتخابات 2023 میں ہونے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات اب پہلے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ اردگان نے انتخاب سے قبل یہ کہا تھا کہ جو جماعت استنبول میں جیتے گی وہی پورا ترکی جیت جائے گی اور استنبول کے نتائج اس کی بڑی نشانی ہے۔ اس سے کوئی فرو نہیں پڑتاکہ امام اولو نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے ۔استنبول میں بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں اکرم امام اولو کی جیت کو پورے ترکی کے لیے ایک ’نیا آغاز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔