سماجی ترقی میں حائل رکاوٹیں
مکالمہ
سلمان عابد
salmanabidpk@gmail.com
کسی بھی معاشرے کو مہذہب اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے سماجی ترقی کے عمل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔کیونکہ ترقی کا بڑا دارمدآر سماجی ڈھانچے سے جڑا ہوتا ہے ۔ترقی کا عمل کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا براہ راست تعلق سماج میں موجود سماجی اداروں ، رویوں ، سوچ، فکر اور طرز عمل سے ہوتا ہے ۔ہمارے جیسے معاشروں میں ترقی کے تناظر میں یہ سوچ غالب رہتی ہے کہ ترقی کے مراد انتظامی ڈھانچوں یا انفراسٹکچرکی تعمیر و ترقی ہوتی ہے ۔ یقینی طور پر یہ بھی ترقی کا ایک زوایہ ہے ۔لیکن ترقی کو جانچنے ، پرکھنے ، سمجھنے اور او را س کے فہم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے سماجی ڈھانچوں کا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔سماجی ترقی میں بنیادی اہمیت فرد کی تبدیلی یا ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعیت یا افراد یا معاشرہ کی ترقی کے عمل کو سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ فرد کی ترقی کا عمل اگر سماج کے ساتھ نہ جڑے تو یہ یہ ترقی سیاسی تنہائی کا شکار ہوجاتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ترقی کو ایک بڑے سماجی تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔ اس سے مراد انسانوں کی ترقی ہوتی ہے او ریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اس پر بڑی سرمایہ کاری نہ کی جائے ۔ یہ سرمایہ کاری محض مالی وسائل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس میں سماجی ، سیاسی او راخلاقی ڈھانچے بھی ہوتے ہیں ۔سماجی ترقی کے عمل میں سب سے زیادہ اہمیت فرد کو حاصل ہوتی ہے کہ اس کا اپنا سیاسی ،سماجی اور اخلاقی طرز عمل کس حد تک معاشرتی یا سماجی تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔بدقسمتی سے ہماری سیاست میں اس وقت ترقی کے تین مناظر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ اول انفرادی ترقی ، دوئم سیاسی ترقی اور سوئم معاشی ترقی شامل ہے ۔سماجی ترقی کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ا ور یہ سیاسی جماعتوں ، اہل دانش، رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے اداروں سمیت ریاست او رحکومت کی اہم ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتی۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی تحریکوں کا جمعہ بازار تو نظر آتا ہے مگر سماج کی سطح پر موجود خرابیوں کے خاتمہ میں سماجی تحریکوں کا فقدان واضح نظر آتا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اور سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت کی توجہ کا مرکز اقتدار کی سیاست ہے اور سماجی سطح پر ان جماعتوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں عملی طور پر سماج کی تشکیل سماجی کاموں سمیت سماجی امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں ۔اہل دانش کا گروہ جس کا مقصد سماج کی تشکیل میں مثبت انداز میں رائے عامہ کی تشکیل اور ذہن سازی کی مدد سے ایک فکری جہت کو پیدا کرنا تھا وہ ناکام نظر آتا ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان پڑھے لکھے اور سماج کی ترقی کو پیدا کرنے کے بڑے حصہ دار سماج کی تشکیل کے ایجنڈے کو پیچھے چھوڑ کر اقتدار ، طاقت اور حکمران طبقات کے مفادات سے جوڑ کر سماجی تشکیل سے لاتعلق ہوگئے ہیں ۔ جب اہل دانش کا طبقہ طاقت ور طبقات کا نمائدہ بن کر اپنی دانش کی میز سجاتا ہے تو اس میں کمزور طبقات کا استحصال اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جو سماج میں اور خرابیوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
سماجی تشکیل میں اصل نکتہ کردارسازی ، اخلاقی تربیت ،سماجی اہم اہنگی سمیت ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے اورمدد یا تعاون کے ڈھانچوں کو مضبوط بنانا ہوتا ہے ۔لیکن سماج میں جس تیزی سے اخلاقی معیارات بدلے ہیں او ران کی جگہ کمرشل ازم، ذاتی سوچ اور فکر سمیت محض طاقت ، اختیار او ردولت نے لی ہے اس سے پورے سماجی ڈھانچوں کی نوعیت کو ہی بدل ڈالا ہے ۔اسی طرح اہل دانش کا ایک اہمیہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے سماجی سطح پر ملکی اور عالمی یا گلوبل دنیا میں آنے والی تیزی سے تبدیلیوں کے علم کو سمجھا ہی نہیں ہے ۔ آج بھی ہم پرانے علم اور فہم کی بنیاد پر سماج کو کھڑ ا کرنا او ر آگے بڑھانا چاہتے ہیں ، جو ممکن نہیں ۔کیونکہ دنیا میں جس تیزی سے سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس کی نئی تحقیق پر یہاں کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جتنی مرضی ترقی کرلیں لیکن یہ ترقی ہمیں کچھ نہیں دے سکے گی کیونکہ جو ترقی سماج میں بنیادی تبدیلیوں کو سمجھنے او رپرکھنے یا اس پر عملدرآمد میں ناکام ہو وہاں سماجی ترقی کا عمل رک جاتا ہے ۔ ہمارے سماج میں جو رویے کمزور اور محروم طبقات ، اقلیتوں سمیت غربت کے مارے یا محرومی کی سیاست کا شکار لوگوںکے ساتھ رکھا جاتا ہے اس سے سماج کے اپنے طرز عمل اور رویوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے ۔ہم جتنی توجہ اپنا گھر بنانے یا اس کی دیکھ بھال پر لگاتے ہیں اتنی توجہ کے قابل نہ تو ہم اپنے محلہ ، علاقہ کو دیتے ہیں اور نہ ہی اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں ۔یہ جو معاشرے میں انتہا پسندی ، عدم برداشت، سماجی اہم اہنگی کا فقدان ، مادہ پرستی او رذاتیات پر مبنی ترقی کا جو چال چلن ہے اس نے واقعی معاشرے کو سماجی سطح پر بہت کمزور کردیا ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے فاصلے پیدا کررہے ہیں یا ان میں سماجی اور سیاسی تلخیاں بڑھ گئی ہیں ۔رنگ، نسل ، مذہب ، علاقہ ، سوچ اور فکر میں ایک دوسرے کی مختلف آرا کو قبول نہ کرنا ایک سماجی بیماری بن گئی ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم رہ تو ایک ہی محلہ اور علاقے میں ہیں لیکن ہمارا سماجی تعصب بہت بڑھ گیا ہے جو محبت کی بجائے نفرت کی سیاست کو جنم دے رہا ہے ۔سیاسی جماعتیں جو بنیادی طور پر معاشرے یا نظام بدلنا چاہتی ہیں وہ اس بنیادی فہم کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی بھی بڑی سیاسی تبدیلی کسی بڑی سماجی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ۔آپ سماجی سطح پر سرکاری اعدادوشمار دیکھیں توآپ کو ایک ہی ضلع، صوبہ او رملک یا علاقہ میں رہنے والوں کے درمیان طبقاتی خلیج واضح نظر آتی ہے ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ریاست او رحکومت یا معاشرے کا نظام طبقاتی ہے اور یہ طاقت ور کے ساتھ کھڑا ہے ۔عورتوں کے ساتھ جو سماج میں سلوک کیا جاتا ہے اس میں دور جہالت سمیت ہمارے تعصب کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔ آج بھی عورتوں کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں کمزور بھی ہے اور ان کو کمتر بھی سمجھا جاتا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طاقت ور میڈیا کے باوجود اس میں سماجی ایجنڈا منظر سے غائب ہے او راس میں سیاسی درجہ حرارت کو بالاددستی حاصل ہے ۔یہ ادارہ جس انداز سے لوگوں کی فکر او رطرز عمل کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا تھا ، وہ داخلی محاذ پر لاتعداد ایسے مسائل کا شکار ہے جس نے سماجی شعبوں سمیت سماجی رویوں کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا ہے اور لوگوں کے سامنے اچھے او ربرے کی تعریف بھی بدل گئی ہے ۔ مذہبی طبقہ جو دین کے نام پر تربیت کی بات کرتا ہے بہت زیاد ہ زوال کا شکار نظر آتا ہے او ران کے دوہرے معیارات سمیت فرقہ وارانہ او رانتہا پسندی پر مبنی رویوں نے سماج کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے ۔عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ سماج کی تشکیل میں والدین، استاد، دانشور، صحافی ، مذہبی ، سیاسی اور سماجی راہنما کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔لیکن یہ تمام ادارے کہاں کھڑے ہیں اس کا بھی درست انداز میں تجزیہ کرکے ایک نئے فہم کو سامنے لاکر ان کو زیادہ سے زیادہ جوابدہ بنانا ہوگا۔ تعلیم اور گھر یا سماج کے نظام میں تربیت کی کمی نے معاشرے میں انسانی احترام کو بہت زیادہ کمزو ر کردیا ہے ۔لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے او رآگے بڑھنے کے لیے منفی راستوں کو اختیا رکرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے ۔جس بھی سماج میں انسانیت کے مقابلے میں طاقت ، کرپشن اور بدعنوانی کو بالادستی یا سماجی قبولیت ہوگی وہاں معاشریں کی سماجی جڑیں آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھودیتی ہیں ۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ اہل سیاست جو سماج میں تبدیلی کا دعوی کرتے ہیں وہ سماجی ایجنڈے کی ازسر نو تشکیل کریں او ر اس ایجنڈے کو سیاسی ایجنڈے کے ساتھ جوڑیں ۔ کیونکہ سیاست اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور دونوں کو جوڑ کر ہی سماج کی تشکیل کو سب کے لیے قابل قبول بنایا جاسکتا ہے ۔سماجی برائیوں کے خلاف ایک بڑی سیاسی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے ۔لیکن یہ کام محض ریاست یا حکومت تن تنہا نہیں کرسکے گی ۔ اس کے لیے معاشرے کے تمام فریقین کو آگے بڑھ کر سماج کی تشکیل کے ایجنڈے کو بنیاد بنانا ہوگا او ریہ ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی جدوجہد کو سماج کی تشکیل کے ساتھ جوڑ سکیں ۔
Tags column-salman abid