Breaking News
Home / Columns / آج سیاسی گفتگو کرنا منع ہے

آج سیاسی گفتگو کرنا منع ہے

iftkhar bhutta

افتخار بھٹہ
آج سیاسی گفتگو کرنا منع ہے
ہمارے ہاں اپوزیشن میںرہتے ہوئے بلند و بانگ دعوئے اور الزامات لگائے جاتے ہیں کہیں قومی خود مختاری کا دعویٰ کشکول توڑنے اور دشمن یا عالمی طاقتوں سے آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان سیاسی جماعتوں کے حامی ان دعوﺅں اور وعدوں کو درست مان کر اپنی لیڈر شپ سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں لےکن اقتدار میں آکر نئی لیڈر شپ کو معلوم ہوتا ہے کے حقائق کچھ اور ہیں اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہیں اور پھر ملکی معاملات کو اس پرانی ڈگر پر چلانا پڑے گا ہمیں بتایا جاتا ہے سابق حکومت قومی حزانہ چھوڑ گئی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی غلط اقتصادی پالیسیوں اور ترجیحات نے ملکی معیشت کو برباد کر دیا ہے اب تو ماضی کی لیڈر شپ پر چور اور ڈاکو ہونے کے الزاجات لگائے جاتے ہیں غیر ملکی قرضوں کے حصول کے انکار کے نعروں کے باوجود آج پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر پاکستان دستک دے چکا ہے اور10 سے12ارب روپے کے نئے قرضہ جاتی پیکج کی درخواست کر دی گئی ہے حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بارے میں کافی گو مگو سے دو چار رہی ہے مگر سعودی عرب متحدہ امارات اور چین کی طرف سے امداد یا قرضہ ملنے کی پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی طرف رجوع کیا ہے اسی دوران ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں جو اب 134روپے تک جا پہنچا ہے سٹاک مارکیٹ میں لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں جس کی وجہ ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کے حوالے سے حکومتی وزراءکے متضاد بیانات ہیں تحریک انصاف کے ماہر اقتصادیات اسد عمر بتایا کرتے تھے ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس سے قرضوں کی مالیت میں کس قدر اضافہ ہو جاتا ہے رانے پرانے پاکستان میں ہر پاکستانی کتنا مقروض تھا مہنگائی کا کتنا طوفان آ جائے گا ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے 9سو ارب روپے کے قرضے بڑھ گئے ہیں ہم کیسی قوم ہیں کہ قرض لینے اور قرض ملنے پر خوشیاں مناتے ہیں سابق وزےر خزانہ اسحاق ڈار قرضہ جات کے حصول کےلئے عالمی مالیاتی اداروں سے کامیاب مذاکرات کو ملکی معاشی سر گرمیوں پر اداروں کا اعتماد قرار دیتے تھے یہ بات بھی درست ہے قرضے دینے والوں کےلئے ان کی وصولی زیادہ ضروری ہوتی ہے یہی وجہ ہے قرض حاصل کرنے والے سے اس کے تمام قرضوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں شرائط عائد کی جاتی ہیں جس میں بجلی گیس پانی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا شامل ہوتا ہے بد قسمتی سے ہم سیاسی مفادات کی وجہ سے آج تک بڑے سرمایہ داروں کاروباری اور صنعتی طبقات کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں ناکام رہے ہیں کالے دھن کی موجودگی میں قومی معاشی حجم کا تعین کرنا نا ممکن ہے کیونکہ اس حوالے سے حکومت کے پاس کوئی درست اعداد و شمار نہیں ہے جنرل پرویز مشرف کے عہد میں معیشت کو دستاویزی شکل دینے کےلئے سروے کیا گیا تھا اور کاروباری طبقات کے مطالبے پر اس کو روک دیا گیا بعد میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر سنٹرل سیل ٹیکس لگایا گیا تھا جو کہ ہر شہری سے بلاواسطہ طور پر وصول کیا جا رہا ہے یاد رہے کہ ملک میں خوشحالی لانے کےلئے بیرون ملک لوٹی ہوئی دولت لانے کا اعلان کیا گیا ہے مگر اس حوالے سے دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے یا ہم نے کوئی دستاویز تیار نہیں کی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی لوگوں سے کالا دھن وصولی کےلئے کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے ریاستوں کو مفروضوں اور وعدوں سے نہیں چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں کی مرضی کے بغیر پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں آزادی اور خود مختاری محض باتیں ہیں ۔عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے قبل گیس کی قیمتیں بڑھا دی تھیں ترقیاتی اخرجات کو کم کر دیا تھا اور اب مہنگائی کا طوفان آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد آئے گا ہمارے ملک کے بینکار صنعتکار تاجر اور کالا دھن کمانے والے بڑے اسودہ حال ہیں انہیں آٹے دھال کے باﺅ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ہے مطلب مہنگائی سے مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، کساد بازاری سے لاکھوں افراد کی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے یا ماہانہ دس ہزار سے پندرہ ہزار تنخواہ لینے والے جن کا قنبہ کم از کم پانچ افراد پر مشتمل ہے کس طرح تنخواہ میں گھر کا کرایہ کھانا پینا بیماری ، غمی اور خوشی کا مقابلہ کر سکتا ہے ہمیں اقتصادی بحالی کے حوالے سے کہیں سے اچھی خبر مل نہیں رہی ہے منڈیوں میں مندی کا رجحان ہے سی پیک کے حوالہ سے حکومتی حلقوں کی طرف سے متضاد بیانات آ رہے ہیں امریکہ جو کہ آئی ایم ایف میں اٹھارہ فیصد کا حصہ دار ہے اس کو خدشہ ہے حاصل کردہ قرضے سے چین کو ادائیگی کی جا سکتی ہے اس لےے وہ آئی ایم ایف کو پاکستان پر سخت شرائط عائد کرنے کی ہدایات دے رہا ہے اور پاکستان سے تمام سابق حاصل کردہ قرضوں کا ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں مختلف قرضوں کی ادائیگیاں واجب ال ادا ہو چکی ہیں جن میں پیرس کلب، یورو بانڈ اور آئی ایم ایف وغیرہ شامل ہیں جو کہ دس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں پاکستان کےلئے آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی نارمل حد 2.85بلین ڈالر ہے جبکہ ہماری درخواست اس سے چار گنا 12.5بلین ڈالر ہو سکتی ہے اگر اس سے کم قرضہ ملتا ہے تو پاکستان کو بیرونی خسارے کو پورا کرنے کےلئے چین ، سعودی عرب ، اسلامی ترقیاتی بینک اور دوسرے مالی ذرائع سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے 6.5ملین ڈالر کا ملنا بھی آئی ایم ایف کی خصوصی رعایت میں شامل ہوگا اس مقصد کےلئے کارکردگی اور ادائیگی کی صلاحیت کو مد نظر رکھنا ہوگا اگر صلاحیت بہت کم ہوگی تو اس کو ریڈ زون میں رکھا جا سکتا ہے اگر کارکردگی میں بہتری کی گنجایش ہے تو اس کو گرے زون میں رکھا جائے گا اگر اس سے منافع بخش سر گرمیوں کو تقویت ملتی ہے تو یہ گرین زون میں آئے گا ، فنڈ قرضے دیتے وقت اس ملک کی مجموعی پیدا وار کے حجم کے ساتھ تناسب کو بھی پےش نظر رکھتا ہے اس وقت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جی ڈی پی اور قرجوں کا تناسب ستر فیصد ہے جس کو ہائی رسک قرار دیا جاتا ہے عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں یہ 30فیصد تک ہو سکتا ہے ایسی صورتحال میں گرین یا ریڈ زون اور بالا آخر گرے زون میں ڈالا جا سکتا ہے قرضوں کا استعمال کے وہ کس مقصد کےلئے استعمال ہوتے ہیں یہ بہت اہم ہے آئی ایم ایف عمومی طور پر قرضے معیشت کی بحالی کےلئے دیتا ہے لےکن بد قسمتی سے پاکستان نے جتنے بھی ماضی میں آئی ایم اےف سے پیکج حاصل کے ہیں ان سے صرف جاری اخراجات پورے کےے جا سکے ہیں کیونکہ ہم ریاستی موصولات بڑھانے اور سٹرکچر ل اصلاحات کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ قرضوں کی ادائیگی کےلئے نئے قرضے حاصل کےے گئے ہیں آئی ایم ایف قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول میں تبدیلی اور مدت میں اضافہ کر سکتا ہے جس میں اصل زر اور سود کی ادائیگی نہیں بدلی جاتی ہے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول کی مدت بڑھائی گئی تھی قرضوں کی ادائیگی جو کہ واجب الدا نہیں تھی لہذا فنڈز کو زرعی حکومتوں کو دیا گیا جس کو نام نہاد ترقیاتی پروگراموں پر لگایا گیا اس مال غنیمت کی وجہ سے مشرف دور میں کوئی اقتصادی مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے اسی طرح جنرل ضیاءالحق کے دور میں اربوں ڈالر کی امداد افغان جہاد میں حصہ لینے کی وجہ سے ملی تھی اس سے ملکی معیشت تو مضبوط نہ ہوئی مگر مدرسوں کی اسلامی سیاسی معیشت اور کارپوریٹ قائم ہوئے آج جبکہ ان سابق قرضوں کی ادائیگیاں واجب الادا ہو چکی ہیں برآمدات نہ ہونے سے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں ہم درآمدات کے دباﺅ سے دو چار ہیں سرکلر ڈیڈ 1300ارب روپے ہے جبکہ حکومتی تحویل میں چلنے والے اداروں کا نقصان 1100ارب ڈالر ہے ہماری حکومت ان مسائل سے نمٹنے کےلئے معیشت کو متحرک کرنے کا کوئی روڈ میپ نہیں رکھتی ہے عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت آئندہ دو سال تک بحرانی کیفیات سے دو چار رہی گی اس کی بحالی کےلئے پیدا واری عمل اور صنعت کاری کو فروغ دینا ہوگا تا کہ ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکیں ینیادی ڈھانچے میں اصلاحات اور بہتر بنانا ہوگا اگر پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری نہیں آتی ہے تو پاکستان کو قرضوں کی ری شیڈولنگ کی طرف جانا ہوگا تو یہ تکلیف دے عمل ہوگا ہمیں اس ضمن میں آئی ایم ایف چین اور پیرس کلب سے رابطہ کرنا ہوگا جس سے پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پاکستان پر کسی حد تک ادائیگیوں کے دباﺅ میں کمی ہو سکتی ہے مگر ان تمام معاملات کو بہتر بنانے کےلئے اقتصادی منصوبہ بندی کرنا ہوگی حکومت پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کے منصوبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنا چاہتی ہے جس سے کاروباری اور روز گاری کی سر گرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے سوال یہ ہے اس سرمایہ کاری کےلئے بینکوں سے 1300ارب روپے کے لانگ ٹرم قرضوں کی ضرورت ہے ملکی بنک حکومت کو پہلے ہی مزید قرضے دینے سے انکار کر سکتے ہیں تو ایسی صورتحال میں مکانات کی تعمیر کےلئے قرضوں کا حصول محض خواب ہی لگتا ہے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *