Breaking News
Home / Columns / قرضہ جات کا ہاتھی حکمران اور عوام

قرضہ جات کا ہاتھی حکمران اور عوام

iftkhar bhutta

قرضہ جات کا ہاتھی حکمران اور عوام
افتخار بھٹہ
چیزیں اتنی بگڑ چکی ہیں کہ اب ان کو ٹھیک کرنا شائد کسی کے بس میں نہ ہو پاکستان کی معیشت سیاست ثقافت سماجیات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے ایک مسئلے کو حل کرنے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے یوں بھی بھی تمام مسائل اور مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اظہار آزادی کے شوق میں اینکرز تجزیہ نگار کالم نگار ریٹائرڈ سول اور ملٹری بیورو کریس ہر معاملے میں اظہار خیال کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اپنے ماضی کے حکمرانی کے دوران پیدا کی جانے والی خرابیوں کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ اس تمام سیاسی اور سماجی عمل کا حصہ رہے ہیں میرچ سادگی سے ملک نہیں چلائے جاتے ہیں بلکہ اس کے لیے ویژن اور پیدا واری صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے پاکستانی معیشت اس وقت شدید دباﺅ میں ہے زر مبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کےلئے رہ گئے ہیں ہر ہفتے کی درآمدی ضروریات پوری کرنے کےلئے 250ملین ڈالرز کی ضرورت ہے اس کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی اور گردشی قرضوں کے معاملات اپنی جگہ موجود ہیں ہماری سابقہ حکومت نے ملک میں اقتصادی انقلاب اور خوشحالی لانے کی تمام تر اُمیدیں سی پیک کے ساتھ وابستہ کر رکھی تھیں اس ضمن میں مشرقی خطے کو ترجیح دی گئی جبکہ مغربی روٹ کو نظر انداز کر دیا گیا جس کی وجوہات یہ تھیں کہ مشرق میں صوبہ پنجاب شامل تھا جس کی حکومت مرکز اور پنجاب میں تھی جبکہ مغربی صوبوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اب موجودہ حکومت نے سی پیک کے حوالے سے بھی اپنے تحفظار کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے اور ان معاہدوں کی دوبارہ نظر ثانی کرنے کا ارادہ کیا ہے اس کے ساتھ سب سے اہم ۰پیش رفت سعودی عرب کو سی پیک میں پارٹنر بنانے کےلئے ہوئی ہے کہ وہ ان منصوبہ جات میں سرمایہ کاری کرے گا جبکہ بعد میں یہ کہا گیا کہ سعودی عرب گوادر میں آئل ریفرنری تعمیر کرے گا سوال یہ ابھرتا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کا سٹرائجکٹ پارٹنر ہے اور ایران کا حریف ہے جبکہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے حائف ہے اور دوسرے ایران بھی سعودی عرب کی سی پیک کے منصوبوں میں شمولیت کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کو آگے کیسے بڑھایا جائے گا ۔ہماری حکومت تمام طبقات کو خوش رکھنا چاہتی ہے جس میں پہلی ترجیح کارپوریٹ سیکٹر کےلئے ہے کیونکہ اس کی کارکردگی سے معیشت میں بہتر ی آ سکتی ہے مگر ماضی میں ان طبقات کو مراعات دینے سے نہ تو صنعتی پیدا وار اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے دنیا ہماری کاٹن کی چادریں گھانٹیں اور تولےے کب تک خریدے گی جبکہ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ویلیو ایڈٹ اشیا بنا کر برآمدات سے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں بنگلہ دیش میں کپاس نہیں پیدا ہوتی ہے لیکن وہ کپڑے کی برآمدات میں ہم سے کئی آگے ہے یہی صورتحال فلپائن ، چین اور بھارت کی ہے ہم پہلے تو برسوں تک توانائی کے بحران سے دو چار ہے ہیں آج مہنگی بجلی تیل اور خام مال کی وجہ سے لاگتی قیمتیں بڑ ھ گئی ہیں لہذا ہماری مہنگی مصنوعات کی عالمی منڈیوں میں کوئی کھپت ممکن نہیں ہے صنعت کاری کا عمل رک چکا ہے جبکہ ٹریڈنگ سروسز میں اضافہ ہو اہے جس میں ملازمتیں ملنے کی بہت کم گنجائش ہے بے روز گاری اور غربت کی وجہ سے عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے مختلف قسم کے جرائم بڑھے ہیں سماجی اور مذہبی عدم برداشت فروغ پذیر ہے بڑھتی ہوئی آبادی ایک بم کی مانند ہے ریاست محدود وسائل رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو بنیادی سہولیات اور سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکتی ہے دھماکوں اور خود کش حملوں کی وجہ سے ماضی میں صورتحال بہتر نہیں تھی مگر اب کچھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں شہروں کی طرف آبادی کی منتقلی کے دباﺅ میں صحت صفائی تعلیم اور سیوریج کے مسائل کھڑے کےے ہیں ہماری نئی آبادیوں کو کسی منصوبہ بندی کے تحت تعمیر نہیں کیا جا رہا کئی پرائیوٹ ہاوسز سوسائٹی میں شراکت کار قبضہ گروپوں نے اربوں روپے کمائے ہیں جبکہ کئی خریدار پلاٹوں کی قیمت ادا کرنے کے باوجود محروم ہیں غیر قانونی سو سائٹی کی باز گشت عدلیہ اور حکومتی ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے بلکہ اعلیٰ سطح پر گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ہماری موجودہ حکومت ملک میں پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیا ہے مگر ان تمام معاملات کےلئے مالی وسائل کی ضرورت ہے جبکہ ہم ترقیاتی اور دیگر اہم آخراجات میں کٹوتیاں کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، ہمیں عالمی مالی ادارہ کبھی عوامی مفادات جس میں مکانات کی تعمیر اور نوکریوں کی فراہمی کےلئے سرمایہ نہیں فراہم کریں گے اور نہ ہی ایسی ریاستی سطح پر عیاشی کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 64%آبادی کو پائپ کے پانی کی سپلائی موجود نہیں ہے گندھے پانی کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں پھیل رہی ہیں 47%آبادی کو 2100کلوری روزانہ خوراک نہیں مل رہی ہے 40%بجے دودھ سے محروم ہیں مکانات کی صورتحال بہت خراب ہے81%مکان صرف دو کمروں پر مشتمل ہیں جس میں اوسطاً سات افراد رہے ہیں بہت کم بچے کالج یا یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں پاکستان کی زیادہ آبادی صنعتی ہے کے اس کو ملکی ترقی اور پلازوں کی تعمیر سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ فائدہ سرمایہ دار اور کالا دھن رکھنے والے طبقات اٹھاتے ہیں جو خود ٹیکس نہیں ادا کرتے بلکہ اس کا بوجھ بلاوسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام پر منتقل کر دیتے ہیں اس عمل سے معاشی اور سماجی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے یہ تقسیم ہمیں مذہبی سیاسی لاثانی صوبائی اور طبقاتی سطح پر دیکھائی دیتی ہے یہ تمام طبقات انداز حکمرانی کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور بعض گروپوں نے ماضی میں مہاجرت نسل پرستی اور صوبائیت کے نام پر حقوق حاصل کرنے کےلئے پر تشدد راہیں اختیار کی تھیں اس صورتحال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں رخ نہیں کر رہے ہیں 60کی دہائی میں پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا مگر اب کئی علاقے کے ممالک ہم سے ترقی میں کہیں آگے ہیں پاکستان میں جی ڈی پی فی فرد سو لہ سو ڈالر ہے جبکہ چین میں8123اور جنوبی کوریا میں27538ڈالر ہے ہم اس ساری صورتحال کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہراتے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں ہے ملک کے تمام ادارے اور بر سر اقتدار رہنے والی جمہوری اور آمرانہ قوتیں اس کی ذمہ داری ہیں جنہوں نے ملک میں اقتصادی ترقی کا روڈ میپ طے کرنے کی بجائے علاقائی تنازعات میں حصہ لیا اور قرضوں پر ریاست معاملات کو چلانے کی کوشش کی تا ہم پاکستانی معیشت پر پاک بھارت جنگی صورتحال افغان جہاد کے اثرات غیر ملکی درآمدی دباﺅ صنعت کاری کے فروغ میں ناکامی ، اندرونی امن و امان کی صورتحال اداروں کی معاشی اور سماجی معاملات میں مداخلت سرمایہ کاری اور ترقی کے پروگراموں کے حوالے سے پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا کیونکہ ہر حکومت بر سر اقتدار آنے کے بعد ماضی کی کامیاب پالیسیوںکو جاری رکھنے کی بجائے اپنی نئی پالیسی دیتی ہے سیاسی حکومتوں کو معذول کر دیا جاتا ہے سیاسی حکومتوں کی نا اہلیاں اپنی جگہ ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو کس نے عددی برتری دلائی یہاں پر سول حکمرانوں پر بالا دست نادیدہ سیاسی قوتوں کو دباﺅ رہا ہے منصوبہ کے تخت کنٹرول ڈیمو کریسی اور من پسند حکمران طبقات کو اقتدار دیا گیا ہے آج بھی صورتحال اس سے جدا نہیں ہے لوگوں کو عدلیہ اور احتساب کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ من پسند افراد احتسابی شکجے سے آزاد ہیں ۔
ملک میں بظاہری طور پر ترقی ہوئی ہے جس میں کارپوریٹ سیکٹر میں قائم صحت اور تعلیم کے اداروں نے ترقی کی ہے ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جو کہ تیز رفتار ی سے جدید ٹیکنالوجی کےساتھ ترقی کرنے کا زمانہ ہے ہمیں بھی اپنی روایتی صنعتوں سے جدید ٹیکنالوجی کی طرف سوئچ کرنا ہوگا تا کہ تبدیلی کے عمل کو ورکنگ کلاسز کے مفادات میں بہتر بنایا جا سکے آج درآمدات کا بھوت اور قرضہ جات ہمیں جکڑ چکے ہیں ریاستی ادروں اور عوام کے درمیان تضادات میں اضافہ ہو رہا ہے غریب اور آمیر طبقات کی آمدنی وسیع خلیج ہے ملک میں مختلف اجارہ داریوں کی طرف سے بچائی ہوئی بساط سے بے چینی میں اضافہ ہو اہے ہمیں غیر معمولی ذہانت رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے خلائی قلعوں کی تعمیر سے سماج کو اٹھایا نہیں جا سکتا ہے سعودی عرب چین اور آئی ایم کے تعاون سے ہم معاشی گرداس سے وقتی طور پر تو نکل سکتے ہیں مگر ہمیں ملک کی معاشی اور صنعتی بنیادوں کو مضبوط کر کے آگے بڑھنا ہے حکومت کو تمام اداروں کو ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرنے اور مخالفین کو نشانہ بنانے کی بجائے تبدیلی کے عملیت پسند روڈ میپ کو متعارف کروانا ہوگا تا کہ معیشت کے پہیے کو متحرک کیا جا سکے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *