کامیاب معاشی اور خارجہ پالیسیوں کےلئے سنجیدگی کی ضرورت
افتخار بھٹہ
تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ایک ماہ بیت چکا ہے یہ ابھی اس حکمرانی کے ابتدائی دن ہیں حکمرانی کی آرزو سب کو ہوتی ہے مگر معاملات سیدھے نہ ہوں تو راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے پورے ملکی انتظامات پر اختیارات رکھنے کے باوجود منتخب نمائندے چند افسروں کا محتاج بن کر رہ جاتے ہیں عمران خان بھی ان کیفیات سے دو چار ہیں نہیں ایک ایماندار اور نیک نیت سیاستدان ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس سے انہیں زرداری اور نواز شریف پر ترجیح حاصل ہے عمران خان کے خامیوں کو یقین ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق روز گار تعلیم اور صحت کےلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کےلئے کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ پہلے کرپشن کو ختم کیا جائے یا معیشت کو بحال کیا جائے کیونکہ معیشت کے چالوں ہونے سے ہی لوگوں کو روز گار ملے گا قرضوں کے ذریعے نہ ترقی کی جا سکتی ہے نہ انسانی وسائل کےلئے سرمایہ مہیا کیا جا سکتا ہے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے اسد عمر کا مشورہ کچھ اور ہے ان کے بقول معیشت کا بائی پاس ہو رہا ہے کامیاب ہوا تو ٹریک پر آ جائے گی آئندہ چند سالوں میں معیشت مضبوط ہو جائے گی ایف بی آر ٹیکس سسٹم ریفارمز سسٹم پالیسی جلد شروع کی جائے گی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ پندرہ اکتوبر تک ہو جائے گا 1کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جائے گا مگر گردشی قرضوں اور قرضہ جاتی کی ادائیگی اور ان پر ٹیکس کی ادائیگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ایک اطلاع کے مطابق پاکستان کے مقامی بینکوں نے حکومت کو جاری اخراجات کےلئے قرضہ جات دینے سے انکار کر دیا ہے ۔
وزےر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ میں موجود اپنی سفارت کارانہ مہارت کے ذریعے پاکستان کے حوالے سے خدشات اور تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یاد رہے کہ عمران خان نے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کےخلاف دھرنے دیئے تھے اور طالبان کے حوالے سے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا ہے امریکی ایسی غلطیاں کبھی نہیں بھولتے ہیں ہم امریکہ سے ترک تعلق نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے دوسرے سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ گہرے روابط ہیں جو کہ سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے نئے دوست تلاش کرنا یا روس اور چین سے سہولیات حاصل کرنا ہمیں صرف تسلی ہی دے سکتا ہے کیونکہ تمام عالمی سماجی اقتصادی اور فوجی حوالوں سے امریکہ کو سپریم حیثیت حاصل ہے ایک طرف بھارت نے مذاکرات سے انکار کیا ہے دوسری طرف ہم نے کرکٹ میں بھارتی ٹیم سے شکست کھائی ہے ہم بھارت کے ساتھ جنگی بنیادوں پر لڑتے ہیں جس میں لپکنے جھپٹنے اور چھا جانے کا ذکر ہوتا ہے اب ایسے جنونی اور جذباتی نعرے گھس پٹ چکے ہیں ہم سفارت کاری اور کھیل میں فرق نہیں کرتے ہیں ہم نے ماضی میں بھارت کے ساتھ کئی مذاکرات کئے جس میں بھارت کی پاکستان کے بارے میں پالیسی ایک رہی ہے جبکہ ہمارے وزےر اعظموں کی مختلف پالیسیاں رہی ہیں ہمارا کشمیر کے بارے میں اٹوٹ انگ کا نعرہ ہے مختلف جماعتوں کی ہندوستان کے بارے میں مختلف تاویلات کچھ قوتیں بھارت کے ساتھ تعلقات اور تجارت ایک حد تک نہیں بڑھنے دیتی ہیں اس سرکشی پر سزا بھی ملتی ہے بھارت ہمارے اختلافات کو اچھالتا ہے ، ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کرتے اور بھارتی ظلم و ستم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بھارت دہشت گردی اور در اندازی کے حوالے سے ہمارے کردار کے بارے میں عالمی برادری کو یقین دلا چکا ہے اب ہماری بات کو کوئی وزن دینے کےلئے تیار نہیں ہے ہمارے بعض دانشور ہندوستان کی جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے نہیں دھکتے ہیں اور بھارت کو بھی دنیا میں جمہوری اعتبار سے قابل اعتماد ملک سمجھا جاتا ہے اس نے سفارت کاری اور دوسرے شعبوں میں نعرے بازے کی بجائے تحقیق اور منصوبہ بندی کی ہے ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے آندرا گاندھی سے مذاکرات کر کے 90قیدوں کی واپسی کو یقینی بنایا اور معاہدہ تاشقند کے ذریعے کچھ علاقہ بھی حاصل کیا چین بے ایوب خان کو بتایا اور بھٹو نے چین کے ساتھ خارجہ تعلقات کی بحالی میں کیا کردار ادا کیا بد قسمتی سے ہم نے جہاد افغانستان میں امریکہ اور اسلامی ممالک کے ساتھ شرکت میں بہت کچھ کھویا ہے جس کے نتائج ہم دہشت گردی فرقہ واریت منشیات اور ناجائز اسلحے کی خرید و فروخت میں بھگت رہے ہیں آج پاکستان میں چند انتہا پسند گروہ امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں بالخصوص غیر مسلموں کو شکست دینے کے چکر میں ہیں جس سے اسلامی ممالک میں پراکسی جنگوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کسی جہادی گروہ نے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے ان تمام معاملات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے امریکہ سے تعلق میں بہتری کی کوششیں یقین طور پر جاری رہنی چاہیں مگر تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں امریکہ کا جار خانہ کردار اورنئی بین الاقوامی صف بندیوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے موجودہ حکومت کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ اس کے تمام اداروں کے ساتھ تعلقات ایک پیج پر ہیں جس سے مراد سول اور عسکری قیادت کا یکسا سوچ رکھنا ہے یہ بات ہم ماضی سے سنتے رہے ہیں میاں نواز شریف کو آن بورڈ ہونے کی وجہ سے تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا چوہدری برادران صدر مشرف کو کئی سو مرتبہ وردی میں منتخب کرانے کے حامی رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کو کبھی ایک پیج پر ہونے کا فورم فراہم نہیں کیا گیا وہ ہمیشہ مختلف اداروں کے ہاتھوں گردش ایام سے دو چار رہی ہے کہیں پر ملک دشمنی اور غداری کے الزامات تھے عدالت عالیہ کے حکم نہ ماننے پر یوسف رضا گیلانی کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیا گیا تھا آصف زرداری کی طویل جیل میں بندش اسی طرح میاں نواز شریف اور خاندان مالی کرپشن کے مقدمات کے سے گزر رہا ہے جبکہ زرداری اور فریال تالپور پر منی لانڈرنگ پر الزامات کی تلوار لٹک رہی ہے اداروں سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے درمیان اختلافات کو اتنی بلندی پر نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی احتساب کے نام پر سیاست ، معیشت اور سماجیت کا گلہ گھونٹ دینا چاہیے، اختلاف رائے ہونا ایک صحت مند عمل ہے کیونکہ بحث سے مسائل کے حل کے دروازے کھلتے ہیں دوسرے موجودہ حکومت کے پاس قانون سازی کےلئے کوئی اکثریت نہیں ہے اس کو مستقبل میں بہر صورت پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا تا کہ وہ اپنی ایجنڈے کو عملیت کی شکل دے سکے ہم نے آئینی اصلاحات کے ذریعے تین مرتبہ انتقال اقتدار کیا ہے جس میں مختلف پارٹیاں بر سر اقتدار آئی ہیں تمام جماعتیں ملکی سلامتی اور جمہوریت کے حوالہ سے یکساں سوچ کی حامل ہیں پاکستانی افواج نے دہشت گردی کی آفریت سے نجات دلانے کےلئے جس طرح قربانیاں دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا اہم باب ہیں اب سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ٹھوس معاشی اور خارجہ پالیسیوں کے ذریعے ملک کو بحرانی کیفیات سے کس طرح نکالتی ہیں اس عمل کےلئے قرضوںپر انحصار کرنے کےلئے معیشت کو مقامی بنیادیں فراہم کرنی چاہیں ہمیں تمام صورتحال کا جدید تناظر میں سنجیدگی کےساتھ جائزہ لینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔