نفرتوں کو ختم کرنے کےلئے تازہ جذبے کی ضرورت ہے
افتخار بھٹہ
سیاست بھی ایک میچ ہوتا ہے جس میں ہارنے اور جیتنے کی گنجایش ہوتی ہے مگر یہ لمبے عرصے تک چل سکتا ہے اس کا انحصار قیادت اور اس کی پالیسیوں پر ہوتا ہے دوسرا عوامی مقبولیت کا پیمانہ ہوتا ہے کتنے لوگ ذاتی کا جذباتی یا نظریاتی تعلقات محسوس کرتے ہیںجس میں رومانیت کا عنصر غالب رہتا ہے سیاسی محبتوں اور مخاصمتوں کے درمیان اندازے اختلاف مختلف اور کیفیات جدا ہوتی ہیں ہر خاندان قبیلے ، بستی ، قومی اور مختلف نسلی گروہوں کے اپنے ہیروں ہوتے ہیں مگر قومی سطح پر ہم جیسے نظریاتی ، فکری ابہام اور جذباتیت سے دو چار معاشروں کو طلسماتی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی زندگیوں میں رچ بس جاتی ہے اور اس کے دکھ عوام کے غموں کا حصہ بن جاتے ہیں بات لمبی ہوتی جا رہی ہے ذکر سابق تین مرتبہ خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کے انتقال کا ہے جس نے پاکستانی سیاست میں ارتاش پیدا کرنے کے ساتھ ماضی میں سیاست میں فعال کردار اداکرنے والی کئی خواتین کے واقعات کو تازہ کر دیا ہے محترمہ فاطمہ جناح کا انتقال 1967کو ہوا تھا مگر تاریخ میں لکھا گیا ہے صدر ایوب خان کی امریت نے اس کو وطن دشمن قرار دیا تھا اور4جنوری 1965کو ہی بغیرہ چہرہ تابون میں کھیل ٹھونک دیئے گئے تھے راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دے دی گئی مگر اس کا جنازہ پڑنے اور چہرہ دیکھنے کی اہل خانہ کو اجازت نہ دی گئی 27ستمبر 2007کو رالپنڈی میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا شاہنواز تابوت میں بند ہو کر پاکستان آیا20ستمبر 1986کو میر مرتضیٰ بھٹو کو اس وقت گولیاں مر دی گئیں جب کہ اس کی بہن بینظیر بھٹو وزےر اعظم کے عہدے پر فائز تھیں گزشتہ چالیس سال سے پھیلی افغان جنگ کی پالیسی کے نتیجہ میں پورے ملک میں تابوت بکھرے پڑے ہیں جس میں معصوم طالبعلم بے گناہ شہری خواتین بچے اور بوڑھے شامل ہیں جبکہ ریاستی اداروں کے وہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے دہشت گردی کےخلاف لڑائی میں اپنی جانیں ہار دیں دوسری طرف انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد میں محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کے مثالی کردار ہیں جنہوں نے قید و بند کی صوبتیں برداشت کیں محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کا کردار جمہوری جدو جہد کے حوالے سے ضمنی ہے وہ 1999سے 2002تک مسلم لیگ کی قیادت کرتی رہی ہیں اور مشرف آمریت کا بہادری کا مظاہرہ کیا مختلف پارٹیوں سے رابطے کےے یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب چلے گئے اور محترمہ کلثوم نواز دوبارہ گھر داری کی طرف لوٹ گئیں جن کی بیماری کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کیونکہ ان کا تعلق ایسے معاشرے سے تھا جہاں اپنی بیماری کا یقین دلانے کےلئے مرنا پڑتا ہے ان کی تد فین میں حصہ لینے کےلئے میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو دوبارہ اڈیالہ جیل میں منتقل کر دیا گیا ۔یہ ایک ایسے خاندان کے افراد ہیں جو کہ35سال تک اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اہم عہدوںپر فائز رہا مگر آج کرپشن کے الزامات میں پابند سلاس ہے یہ لمحات ہمارے حکمران طبقات کےلئے کتنے حیرت انگیز اور ڈرمائی ہیں مگر ہم ماضی میں اس سے زیادہ درد ناک اور دل خراش واقعات دیکھ چکے ہیںسابق ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے پاکستان کے کرشمہ ساز راہنما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا اس کی بیوی نے جمہوریت کی خاطر تکلیفیں برداشت کیں جبکہ دونوں بیٹے مختلف واقعات میں غیر فطری طور پر ہلاک کر دیئے گئے ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سر عام گولیاں مار دی گئیں اس خاندان نے جتنے المےے اور دکھ برداشت کےے ہیں اس کی پاکستانی سیاست میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے یہی وجہ ہے ہم محترمہ کلثوم نواز کے کردار میں بھٹو خاندان کی جدو جہد کے حوالے سے کوئی مماثلت نہیں تلاش کر سکتے ہیں ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ نواز شریف خاندان کو اپنے حفظ و یمان میں رکھے نہرو اور گاندھی خاندان کی کہانی بھٹو خاندان سے مختلف نہیں ہے، امریکہ میں جان ایف کینڈی ایک کرشماتی راہنما تھے ان کے خاندان نے بھی کئی صدمے برداشت کےے، شریف خاندان کی سیاست میں بجلی کی کڑک اور شعلوں کی تپش سامنے نہیں آئی ہے مگر گزشتہ سال سے نواز شریف نے ایک نیا سیاسی اور مزاحمتی روپ دھارا ہے جس کی قیادت شائد مستقبل میں مریم نواز کرے گی ۔
پاکستانی کے سیاسی منظر نامہ میں ابھی کئی ڈرامائی تبدیلیاں رو نما ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے عدالت کے کئی اہم فیصلے جلد آنے کو ہیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی جنگ رہنے کا امکان ہے جس کا تعلق انتخابات سے قبل اور بعد کی در پردہ کارروائیوں کے حوالے سے ہے کلثوم نواز کا یوم وفات ملکی اور عالمی تاریخ کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے یہ ہمارے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وصال ہے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کا دن ہے اسی طرح ایک اداس کرنے والا دن آج سے چھ سال قبل 11ستمبر کو کراچی میں لانڈی کی فیکٹری میں ڈھائی سو کارکنوں کو زندہ جلا دینا ہے کلثوم نواز کے انتقال سے موجودہ سیاسی صورتحال پر اثر پڑ سکتا ہے خاص طور پر مسلم لیگ کے کارکن اور لیڈر متحرک ہو سکتے ہیں عمران خان کی حکومت ابھی قدم نہیں جما پائی ہے ہر آنے والے حکمرانوں کی طرح اس کو بھی ملکی خزانہ خالی ملا ہے اور بے پناہ معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے آج تحریک انصاف نے جاری تجارتی اور مالیاتی خساروں اور بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیتھس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کےلئے منی بجٹ کا اعلان کیا ہے جس کے بارے میں ایک علیحدہ کالم لکھا جائے گا حکومت ریلوئے کا خسارہ کم کرنے کےلئے اس کے اثاثہ جات بیچنے کا پروگرام بنا رہی ہے اداروں کی نجکاری کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اگر نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو اس سے بڑھنے والی مہنگائی کا اثر براہ راست عوام پر پڑے گا جبکہ سرمایہ دار اور حکمران طبقات اس کے اثرات سے مکمل طور پر علیحدہ رہیں گے ایک نئی جے آئی ٹی کے شکنجہ میں زرداری خاندان کو جکڑنے کی کوشش کی جائے گی عمران خان کو اپنی کارکردگی دیکھانے کا وقت ملنا چاہیے ابھی اس کے اقدامات پر تنقید نہیں کرنی چاہئے۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم فکری آزادیوں سے خائف ہیں خوف کی فضا جو انتخابات سے قبل ہم پر طاری تھی آج بھی موجود ہے پاکستانی میڈیا خوف سے دو چار ہے ہم نئے پاکستان میں داخل ہونے یا پرانے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کونسی سیاسی روایات اور رشتے ختم ہونے جا رہے ہیں یا نئے استوار ہونے جا رہے ہیںآصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے جاتی امرہ میں نواز شریف کے خاندان کے ساتھ تعزیت کر کے مستقبل کے سیاسی حوالے سے پوشیدہ پیغام دیا ہے یہ ہمارے بد قسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں اور عہدیدیداران کی تربیت کا کوئی بندو بست نہیں کیا ہے ایسی انتظامی نا اہلیوں اور بحرانی کیفیات سے تحریک انصاف دو چار دیکھائی دیتی ہے ۔سوشل میڈیا پر اس کے کارکنوں کی طرف سے جاری بیانات اور تحریریں ان کی سیاسی نا پختگی کا ثبوت ہیں ہمارے ہاں سیاست میں ریاست محور مرکز نہیں ہے اس کو چلانے کےلئے تربیت کی ضرورت نہیں ہے سرکاری شعبوں میں نت نئے تجربات انہیں غیر مستحکم کر دیتے ہیں شعوری آگاہی کے فروغ کےلئے روکنے کےلئے تعلیمی اداروں میں یونینیں بحال کرنے سے حائف ہیں آج کل اعلانات ہو رہے ہیں خواب دیکھائے جا رہے ہیں عوام گورنر ہاﺅس کو اندر دیکھنے کو جمہوری جدو جہد کا ثمر سمجھ رہے ہیں حالانکہ اس سے نہ کسی کا پیٹ بھر سکتا ہے نہ روز گار مل سکتا ہے ہماری یہی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے ابھار کوحکمران طبقات نے انتخابات میں کیش کرانے کی کوشش کی ہے ایک طرف ہم مقروض اسٹیٹ ہیں ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی قرضہ فراہم کرنے والے اداروں کے مفادات کے تابع ہونگی اگر کسی سیاسی قیادت نے آزادانہ طور پر فیصلے لاگو کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کا عبرت ناک انجام ہمارے سامنے ہے ہماری سیاسی قیادت نے معاملات کو سلجھانے کی بجائے طبقاتی مفادات کےلئے الجھانے کی کوشش کی تو سیاسی سانحات جنم لیتے رہیں گے آخر میں محترمہ کلثوم نواز کے درجات کی بلندی کےلئے دعا گو ہوں وہ سلیقہ شعار اور وفا دار خاتون تھیں جنہوں نے پاکستان کی جدو جہد کی تاریخ میں کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور ڈالا ہے۔