قرضہ جات ، ٹیکس اور عوامی ریلیف
افتخار بھٹہ
معاشی بحالی اور ترقی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں پاکستان کے حکمران طبقات کی ریاست کو خود کفیل بنانے کی خواہش دیکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہم نے موصولات کی وصولی میں اضافہ کرنے کی بجائے اندرونی اور بیرونی قرضہ جات لیکر ریاستی معاملات کو چلانے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ ٹیکسوں کی وصولیوں کو 8کھرب روپے تک بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابی منشور میں قرضہ جات نہ لینے کا وعدہ کیا تھا مگر اس نے 3ماہ کے اندر مہنگی شرح سود پر بھاری قرضے حاصل کےے ہیں مرکزی بینک کی جاری رپورٹ کے مطابق حکومت نے جولائی سے دسمبر 2018تک 1.43کھرب روپے کے قرضے حاصل کےے ہیں جبکہ سابق حکومت نے اس عرصہ میں 288ارب روپے کے قرضے لےے تھے ۔ وزارت حسانہ نے 94ارب روپے کے طویل المدتی قرضے کی آفر ٹھکرا کر 8.6ارب روپے 13.2%سود پر حاصل کےے ہیں جولائی سے نومبر 2018تک وفاقی حکومت روزانہ پندرہ ارب روپے کا قرضہ لیتی رہی ہے اس طرح قرضوں میں پانچ ماہ میں 2.24کھرب روپے اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجوہات میں موصولات کی وصولی میں کمی اور روپے کی قدر کا ڈالر کے مقابلے میں گر جانا ہے بیرونی قرضہ جات میں 17%(9.12کھرب روپے)کا پانچ ماہ میں اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ کرنسی کی قیمت میں 15%کمی سے ان میں 1.33 کھرب روپے کا اضافہ ہواہے ، جون 2018میں ڈالر کی قیمت 121روپے تھی جو کہ اب140روپے ہو چکی ہے۔ ان قرضہ جات کے اعداد و شمار میں 8سو10ارب روپے اور 3ارب ڈالر کے چین سے لے گئے قرضہ جات شامل نہیں ہے جو کہ مرکزی بینک کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں سعودی عرب میں ملنے والی رقوم ہیں جن کو ہم نے مقررہ مدت کے بعد واپس کرنا ہے آئی ایم ایف نے مارچ 2018میں عندیہ دیا تھا کہ پاکستان کو بیرونی ضروریات ، امپورٹ بلز ، قرضہ جات کی اقساط اور ان پر سود ادا کرنے کےلئے27ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی اور اس کے ساتھ خبر دار کیا تھا کہ پاکستان اتنے بھاری قرضہ جات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا اور ان کے بہتر استعمال اور واپسی کےلئے کیا طریقہ کار ہوگا سابق ادوار میں لےے گئے قرضہ جات بیڈ گورننس کی وجہ سے غیر پید ا واری کاموں میں استعمال ہوتے رہے ہیں جس سے انتظامی امور میں بہتری اور محصولات کی شرح وصولی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اگر ہم آئی ایم ایف سے مزید قرضہ جات حاصل کرتے ہیں تو بیرونی قرضے جون2014تک 103بلین ڈالر ہو جائیں گے، موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں محصولات کی وصولی170روپے کم ہوئی ہے تحریک انصاف کی حکومت کے دعوﺅں کے باوجود ٹیکس وصولیوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے ، ہمارے لےے فنانشل خسارے کے ٹارگٹ 5.6%جی ڈی پی (2.2کھرب روپے) کو حاصل کرنا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ ٹیکس وصولی کےلئے ایف بی آر میں انتظامی اصلاحات نہیں کی جا سکی ہیں ایف بی آر نے 2018-19کے پہلے چھ ماہ میں 3.5%گرﺅتھ بنائی ہے جو کہ11%کے ہدف سے کئی کم ہے جس کی وجوہات میں آمدنی کے لیکجیز شامل ہیں وزےر خزانہ اسد عمر جنوری میں منی بجٹ کا اعلان کرنے جا رہے ہیں مگر وہ یہ بانے سے قاصر ہیں کہ معاشی ترقی کے کیا اہداف ہونگے جس سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کیا جا سکے گا یاد رہے ٹیکسوں میں بڑھوتی معاشی ترقی کے ساتھ منسلک ہے ۔ معیشت کو متحرک کرنے سے ہی ٹیکسوں میں وصولی و بہتر اور غریب طبقات پر بالواسطہ کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آمیر طبقات اپنی آمدنی سے کہیں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ غریب طبقات اپنی آمدنی کے تناسب سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اس نظام ٹیکس کو Regressiveٹیکس سسٹم کہا جاتا ہے ۔ آج پاکستان میں خوراک کی ضروری اشیاءسے لیکر ہر دوسری شے پر بلاوسطہ ٹیکس عائد ہے اور مختلف سروسز پر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔
پاکستان میں تسلسل کے ساتھ بڑھتے ہوئے معالیاتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خساروں کی وجوہات میں بڑھتے ہوئے قرضہ جات اور ان کی ادائیگی اور ان پر اقساط اور سود کی ادائیگی میں صلاحیت کی کمی مائیکرو اکنامکس کے عدم توازن شامل ہیں ، سیاسی محاذ پر ہمارا بڑا لمیہ ہے کہ ہم پوائنٹ سکورننگ کےلئے بے مقصد ترقیاتی سکیمیں بناتیں رہتے ہیں اور معاشی خود کفالت کے حصول کےلئے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے ہماری پالیسیاں ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں ، ہم نے ترقی کے ذریعے کبھی روز گار فراہمی یقینی بنانے کی کوشش نہیں کی ہے ، ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری 77فیصد کم ہو چکی ہے اگر یہ سرمایہ کاری ہوئی بھی ہے تو ٹیلی کام انشورنس اور سروسز کے شعبہ میں ہوئی ہے جہاں پر روز گار کے بہت کم مواقع پیدا ہوتے ہیں ۔صنعتی اور تجارتی شعبہ میں سرمایہ کاری بہت کم ہوئی ہے، جس کی بنیادی انفرسٹرکچر بجلی اور گیس اور پانی کی عدم موجودگی ہے دوسرے ہمارے ہاں اعلیٰ تکنیکی مہارتوں سے لیس مین پاور کی کمی ہے ایشیائی ٹائیگرز میں سرمایہ کاری کی وجہ وہاںپر انفرسٹرکچر اور تربیت یافتہ لیبر کی موجودگی تھی جبکہ ہم پاکستان میں علاقائی تنازاعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے ایسی اصلاحات سرمایہ کاری کےلئے خوشگوار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں پاکستان میں مقامی سرمایہ کار بھی صنعت میں سرمایہ کاری کےلئے گھبرا رہے ہیں اگر یہی صورت رہی تو ہم پہلے قرضوں کی ادائیگی کےلئے مزید قرضے حاصل کرنے کی وجہ سے خود کفیل ریاست نہیں بن سکتے ہیں،
ملک میں غیر مناسب ٹیکس کا نظام بھی معاشی اور صنعتی گرﺅتھ میں رکاوٹ ہے ہمارا قرضہ جاتی بوجھ ایک بہت بڑی عفریت بن چکا ہے ۔مالیاتی خسارہ اور قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے افراط زر کے ہاتھوں لوگوں کی قوت خرید کم اور مہنگائی بڑ ھ رہی ہے ۔ امیر طبقات سے ٹیکس وصول نہیں کےے جا رہے اور جو کچھ کمایا جا رہا ہے اس کو جائیداد کی خرید و فروخت میں لگایا جا رہا ہے، پاکستان میں رئیل اسٹیٹ اور ہاﺅسز سو سائٹیوں کا کام عروج پر ہے جہاں پر کالے دھن کو آسانی کے ساتھ کھپانے کی گنجائش ہے، پاکستان ایک غریب ملک نہیں ہے مگر حکمرانوں اور امیر طبقات کی دولت جمع کرنے کی خواہش اور کرپشن نے ریاستی وسائل کو محدود کر دیا ہے ۔ہم عوام سے وصول کردہ ٹیکسوں کو غیر پید ا واری کاموںپر استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ملک کے قدرتی وسائل کا بے پناہ ضائع کیا ہے ، سر سبز پہاڑوں سے جنگلا ت غائب ہےں، پانی کے ذخائر تعمیر نہیں کر سکے ہیں، نہری نظام کی بہتری کےلئے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ہے، عوام مخالف پالیسیوں کے ذریعے ان کا سماجی معاشی اور سیاسی استحصال کیا ہے۔ ملک کے بڑے ذمیندار کوئی زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس کی وصولی کو وفاقی اور صوبائی دائرہ کار کے تناظر میں الجھا دیا گیا ہے ۔پاکستان میں سول و ملٹری بیورو کریٹس سرمایہ دار اور جاگیر دار 90%وسائل پر قابض ہیں ان کے نمائندے فیملیوں میں موجود ہیں، جبکہ محنت کش بالخصوص غریب طبقات کی اسمبلیوں میں کوئی نمائندگی نہیں ہے و کہ ملک میں سوشل ڈیمو کریسی کے تخت عوامی مفاد ات عامہ ، صحت تعلیم اور روز گار کا خیال رکھ سکے اور 90%دولت رکھنے والوں سے ٹیکس وصولی کےلئے آواز اٹھا سکے ، جو کہ90فیصد وسائل رکھنے کے باوجود صرف2%ٹیکس جمع کرواتے ہیں جس میں ٹیکسوں کی وصولی کے نظا م میں عدم توازن میں غریبوں اور امیروں میں خلیج وسیع ہو رہی ہے جس کی ذمہ داری طالمانہ ٹیکس سسٹم پر ہوتی ہے ہم اس میںمنصوبہ بندی اور گد گورننس سے ٹیکسوں کی وصولی 10کھرب روپے تک بڑھا سکتے ہیں ، مگر اس کےلئے ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا انہیں تعلیم ، صحت کے شعبوں بالخصوص، غریب طبقات کی حالت زار بہتر بنانے کےلئے استعمال کرنا ہوگا جس سے سماجی و معاشی عدم مساوات میں کمی ہو سکے سماجی انصاف کےلئے معاشی اجارہ داریوں کو توڑنا ہوگا جس کو ٹیکس کے درست نظام سے ممکن بنا یا جا سکتا ہے ۔ ملک کے عوام غربت بوکھ اور بے روز گاری کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے اور اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں امیر طبقات اربوں روپے اپنی عیاشیوں ، آرام اور غیر ملکی دوروں پر ضائع کر رہے ہیں ۔ قرضہ جات اور محصولات کی وصولی کا باہمی تعلق ہے ۔ اس وقت ملک میں 75ملین افراد صحت اور 88ملین پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ 66ملین نا خواندہ اور70ملین خط سے غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں سکڑے ہوئے وسائل اور بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل سے نمٹنے کےلئے سوشل ڈیمو کریسی کے تحت نئے نظام کے تشکیل کی ضرورت ہے جس میں سب کو اپنی جائیدادوں ، دولت اور آمدنی کے تناسب سے ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس کےلئے ایک سوشل ڈیمو کریٹ اور قیادت اور پارٹی کی ضرورت ہے جو تمام طبقات کی بہتری کےلئے یکساں سوچ اور منشور رکھتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Tags Column column-iftikhar bhutta