نئے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی بحران کا ایک جائزہ
افتخار بھٹہ
پاکستان میں سیاست کے حوالے سے جنگی کیفیات کا سامنا ہے کہیں پر احتساب کے نام پر اپوزیشن کو سیاسی میدان سے خارج کرنے اور ون پارٹی راج قائم کرنے کے تذکرے ہیں کہیں پر اٹھارویں ترمیم کے خاتمہ کے حوالے سے افواہیں ہیں کیونکہ مقتدرہ طبقات این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو زیادہ مالی وسائل اور اختیارات کی تقویض کو اقتدار کی مرکزیت کےلئے بہتر خیال نہیں کرتے ہیں ملک میں کرپشن کے خاتمے اور اس حوالے سے اپوزیشن لیڈروں پر کرپشن کے الزامات اور مقدمات کو چینی سرمامیہ کاری کے تناظر کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ چند مبصرین کے بقول چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں شفاف نظام کے قیام پر زور دے رہا ہے اپوزیشن بھی احتسابی عمل کے بارے میں حتساب اٹھا رہی ہے بلاول بھٹو نے کل بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر بلوچستان کی محرومیوں نوجوانوں خاص طور پر پی ٹی ایم کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں آواز ٹھائی ہے بظاہری طور پر نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں محسوس ایسے ہوتا ہے اگلے چھ ماہ احتساب کے شور و غل میں گزر جائیں گے اگر اس کے دوران معاشی بحران کو حل نہ کیا گیا تو یہ عمران خان کی کارکردگی کےلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا ۔
اپوزیشن چاہے کتنا شور و غل مچائے عمران خان کی حکومت کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے دوست ممالک سے دھن برس رہا ہے عرب ممالک سے ملنے والے ڈالر جس کے بارے میں معلوم نہیں یہ قرضہ حسنہ ہے یا 3.2%سود پر ہے مگر سوراخ زدہ خزانہ نہیں بھر رہا مگر سوراخ زدہ خزانہ نہیں بھر رہا ہے ملک بھر پر غیر ملکی درآمدات کا دباﺅ موجود ہے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی واجب الادا ہو چکی ہے ملکی معیشت اور صنعت کا پہہ چلتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا دوست ممالک سے امداد ملنے کے بعد حکومت کو زر مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو روکنے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف افغانستان میں امن کے بارے میں افغان طالبان ، امریکہ ، پاکستان اور سعودی و خلیجی ممالک کے درمیان مثبت پیش رفت ہوئی ہے عرب ممالک سے من و سلو ی کی آمد، یمن میں فائر بندی، امریکیوں کی شام سے روانگی اور طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات یہ سب باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں اور بڑی منظم فوج رکھتے ہیں جس کو برادر ممالک کے دفاع یا خلیجی ممالک کے تحفظ میں حصہ ڈالنا ہے جبکہ اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کےلئے ہم پہلے ہی جنرل راحیل شریف کو بھجوا چکے ہیں ، یاد رہے ہماری معیشت ادھار پر چلتی ہے اور اس کی تمام ترقیاتی سر گرمیاں قرضوں کی مرہون منت ہیں پہلے ہمیں مغرب اور امریکہ سے امدادیں ملتی تھیں اب وہ عالمی مالیاتی اداروں سے ہمیں قرضے دینے کےلئے مدد فراہم کرتے ہیں ہم نے جہاد افغانستان سے لیکر صدر مشرف کے عہد تک ان امدادوں اور مال غنیمت سے خوب فائدہ اٹھایا مگر ان رقوم کا غیر پید واری کاموں میں استعمال ہوا ، سب سے زیادہ جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے مذہبی جماعتوںنے حاصل کیا جنہوں نے یہاں پر دینی مدرسوں کی معیشت کو قائم کیا ۔اور آج یہ تمام اداریں اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے سلیبس کو جدید بنانے کےلئے حکومت کی مداخلت کے خلاف ہیں 9/11کے بعد قرضوں کی ادائیگی ری شیڈول ہونے کے بعد مسلم لیگ ق کی حکومت کو مشرف کے دور میں بے پناہ مالی مسائل حاصل ہوئے جن کو بے مقصد ترقیاتی کاموں میں ضائع کر دیا گیا جبکہ صحت اور تعلیم کے معاملات کو سدھارنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی آج امریکہ کی طرف سے امدادیں بند کر دی گئیں ہے تو ہمارا رخ اب عرب ممالک کی طرف ہے جبکہ چین بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب میں دس سال تک بر سر اقتدار وہی اور ترقیاتی کاموں جن میں سڑکوں، پلوں ، ارنج ٹرین اور میٹرو بس کی تعمیر شامل تھی وہ تعلیم اور صحت کے شعبہ کے معاملات کو سدھارنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے آج بھی پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں اہم آلات اور مشینری موجود نہیں ہے جبکہ بچوں کےلئے وینٹی لیٹر بھی عدم دستیاب ہیں مشرف سے لیکر مسلم لیگ کے عہد میں مقامی اجارہ داریاں قبضہ گروپ اور نام نہاد ہاﺅسز سو سائٹوں کا کاروباری بڑھتا رہا ، جس میں صف اول کی قیادت ملوث رہی اب تحریک انصاف کی حکومت کرپشن اور بد عنوان سیاست دانوں کےخلاف پروپیگنڈہ اور احتسابی اداروں کے ذریعے مخالف سیاستدانوں کا ناطقہ بند کرنے جا رہی ہے بلکہ اس کی اپنی جماعت میں سیاسی مہاجرین جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ مکمل طور پر آزاد ہیں اس سارے منظر نامے میں پاکستانی سیاست کے تینوں ستون ایک صفحے پر ہیں سیاسی معاملات اپنی جگہ ہیں جبکہ معاشی مسائل بھی خاصے اہمیت کے حامل ہیں ان کی وجہ سے سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباءمیں وسیع پیمانے پر منشیات کے استعمال سے لیکر معصوم بچوں سے جنسی زیادتی عورتوں پر تیزاب گری غیرت کے نام پر قتل، چوری اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میںہ وتا ہے جہاںخوراک، علاج، زندگی کے تحفظ ، عورتوں اور اقلیتوں کے حوالے سے حالات بد ترین ہیں ۔
ہم یہاں پر گڈ گورننس عدم موجودگی کا رونا روتے ہیں جس کے مطابق غریب ممالک میں مسائل کی جڑ سرمایہ درانہ نظام نہیں ہے بلکہ بیڈ گورننس ہے ان ممالک میں سماجی اور معاشی نا انصافیوں اور وسائل کی تقسیم کا کوئی ایشو نہیں ہے نہ ہی حقوق کی مساوی تقسیم کا کوئی معاملہ ہے معاشی ایشوز پر حکمرانوں کے سیاسی مفادات غالب رہے ہیں میڈیا میں بھی معاشی معاملات پر بہت کم پروگرام کےے جاتے ہیں ، کالی معیشت کا ذکر نہیں ہوتا جو کہ ہمارے سما میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے اس وقت ملکی معیشت ریکارڈ داخلی اور خارجی خساروں سے دو چار ہے یہاں پر میڈیا پر ڈیڈائی سے جھوٹ بولا جاتا ہے پاکستان میں امیروں کے سوا سب ٹیکس دیتے ہیں ملک کے چارٹرڈ کونٹسی ادارے ICAPکے مطابق 88%ٹیکس بلا واسطہ وصول ہوتے ہیں جبکہ ڈائریکٹر ٹیکس صرف12%، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں 46%اور33%ڈائریکٹر ٹیکس وصول کےے جاتے ہیں پاکستان میں ٹیکس ٹرم فائل کرنے کا رواج کم ہو رہا ہے نصف سے کم رجسٹرڈ کمپنیاں ٹیکس ٹرم فائل اور ٹیکس ادا کرتی ہیں حکومتی مراعات کے باوجود سرمایہ کاری زوال پذیر ہے جو سرمایہ کاری ہو بھی رہی ہے وہ رئیل اسٹیٹ اور مالیاتی سٹہ بازی کے حوالے سے ہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب رہےہ یں موجودہ حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی سادگی کا جو ڈرامہ کیا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس کوئی پروگرام یا اصلاحاتی ایجنڈا موجود نہیں تھا ، یہ ایسے نئے سرمایہ کاروں کی جماعت ہے جو کہ پرانی اشرافیہ کو جس میں مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے تجراتی اجارہ دار شامل ہیں کو ہٹا کر ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں پاکستان کی مروجہ سیاست میں موجودہ سیاستی جماعتوں کے پاس زوال پذیر معیشت کو سنوارنے کےلئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار لائی جانے والی یہ جماعت تیزی سے بے نقاب ہوتی جا رہی ہے اس کی پالیسیوں کے نتیجہ میں محنت کش اور غریب طبقات کی محرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی نئی تحریکیں ئی سیاسی جماعت اور تصادم جنم لے سکتے ہیں جو کہ سارے منظر نامے کو بدل سکتے ہیں آخری اطلاعات کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں 172افراد کا نام جے آئی ٹی میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ آصف علی زرداری بلاول بھٹو اور فریال تالپور کے علاوہ دیگر افراد پر ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔اور ان کی گرفتاریوں کا امکان ہے سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے 31دسمبر کی تاریخ فکس کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت سندھ کے وزےر اعلیٰ مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹیوں کو توڑنے اور ان میں فاوروڈ گروپ بنانے کی کوشش کی جائے گی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جان صادق علی کی طرح حکومت سازی کا ٹریلر دوبارہ سندھ میں چلایا جائے گا سوال یہ ابھرتا ہے کہ اپوزیشن سے نمٹنے کے بعد کیا عمران خان ملک میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے ساتھ غریبوں کو ریلیف فراہم کر سکیں گے۔
افتخار بھٹہ
پاکستان میں سیاست کے حوالے سے جنگی کیفیات کا سامنا ہے کہیں پر احتساب کے نام پر اپوزیشن کو سیاسی میدان سے خارج کرنے اور ون پارٹی راج قائم کرنے کے تذکرے ہیں کہیں پر اٹھارویں ترمیم کے خاتمہ کے حوالے سے افواہیں ہیں کیونکہ مقتدرہ طبقات این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو زیادہ مالی وسائل اور اختیارات کی تقویض کو اقتدار کی مرکزیت کےلئے بہتر خیال نہیں کرتے ہیں ملک میں کرپشن کے خاتمے اور اس حوالے سے اپوزیشن لیڈروں پر کرپشن کے الزامات اور مقدمات کو چینی سرمامیہ کاری کے تناظر کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ چند مبصرین کے بقول چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں شفاف نظام کے قیام پر زور دے رہا ہے اپوزیشن بھی احتسابی عمل کے بارے میں حتساب اٹھا رہی ہے بلاول بھٹو نے کل بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر بلوچستان کی محرومیوں نوجوانوں خاص طور پر پی ٹی ایم کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں آواز ٹھائی ہے بظاہری طور پر نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں محسوس ایسے ہوتا ہے اگلے چھ ماہ احتساب کے شور و غل میں گزر جائیں گے اگر اس کے دوران معاشی بحران کو حل نہ کیا گیا تو یہ عمران خان کی کارکردگی کےلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا ۔
اپوزیشن چاہے کتنا شور و غل مچائے عمران خان کی حکومت کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے دوست ممالک سے دھن برس رہا ہے عرب ممالک سے ملنے والے ڈالر جس کے بارے میں معلوم نہیں یہ قرضہ حسنہ ہے یا 3.2%سود پر ہے مگر سوراخ زدہ خزانہ نہیں بھر رہا مگر سوراخ زدہ خزانہ نہیں بھر رہا ہے ملک بھر پر غیر ملکی درآمدات کا دباﺅ موجود ہے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی واجب الادا ہو چکی ہے ملکی معیشت اور صنعت کا پہہ چلتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا دوست ممالک سے امداد ملنے کے بعد حکومت کو زر مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو روکنے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف افغانستان میں امن کے بارے میں افغان طالبان ، امریکہ ، پاکستان اور سعودی و خلیجی ممالک کے درمیان مثبت پیش رفت ہوئی ہے عرب ممالک سے من و سلو ی کی آمد، یمن میں فائر بندی، امریکیوں کی شام سے روانگی اور طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات یہ سب باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں اور بڑی منظم فوج رکھتے ہیں جس کو برادر ممالک کے دفاع یا خلیجی ممالک کے تحفظ میں حصہ ڈالنا ہے جبکہ اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کےلئے ہم پہلے ہی جنرل راحیل شریف کو بھجوا چکے ہیں ، یاد رہے ہماری معیشت ادھار پر چلتی ہے اور اس کی تمام ترقیاتی سر گرمیاں قرضوں کی مرہون منت ہیں پہلے ہمیں مغرب اور امریکہ سے امدادیں ملتی تھیں اب وہ عالمی مالیاتی اداروں سے ہمیں قرضے دینے کےلئے مدد فراہم کرتے ہیں ہم نے جہاد افغانستان سے لیکر صدر مشرف کے عہد تک ان امدادوں اور مال غنیمت سے خوب فائدہ اٹھایا مگر ان رقوم کا غیر پید واری کاموں میں استعمال ہوا ، سب سے زیادہ جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے مذہبی جماعتوںنے حاصل کیا جنہوں نے یہاں پر دینی مدرسوں کی معیشت کو قائم کیا ۔اور آج یہ تمام اداریں اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے سلیبس کو جدید بنانے کےلئے حکومت کی مداخلت کے خلاف ہیں 9/11کے بعد قرضوں کی ادائیگی ری شیڈول ہونے کے بعد مسلم لیگ ق کی حکومت کو مشرف کے دور میں بے پناہ مالی مسائل حاصل ہوئے جن کو بے مقصد ترقیاتی کاموں میں ضائع کر دیا گیا جبکہ صحت اور تعلیم کے معاملات کو سدھارنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی آج امریکہ کی طرف سے امدادیں بند کر دی گئیں ہے تو ہمارا رخ اب عرب ممالک کی طرف ہے جبکہ چین بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب میں دس سال تک بر سر اقتدار وہی اور ترقیاتی کاموں جن میں سڑکوں، پلوں ، ارنج ٹرین اور میٹرو بس کی تعمیر شامل تھی وہ تعلیم اور صحت کے شعبہ کے معاملات کو سدھارنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے آج بھی پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں اہم آلات اور مشینری موجود نہیں ہے جبکہ بچوں کےلئے وینٹی لیٹر بھی عدم دستیاب ہیں مشرف سے لیکر مسلم لیگ کے عہد میں مقامی اجارہ داریاں قبضہ گروپ اور نام نہاد ہاﺅسز سو سائٹوں کا کاروباری بڑھتا رہا ، جس میں صف اول کی قیادت ملوث رہی اب تحریک انصاف کی حکومت کرپشن اور بد عنوان سیاست دانوں کےخلاف پروپیگنڈہ اور احتسابی اداروں کے ذریعے مخالف سیاستدانوں کا ناطقہ بند کرنے جا رہی ہے بلکہ اس کی اپنی جماعت میں سیاسی مہاجرین جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ مکمل طور پر آزاد ہیں اس سارے منظر نامے میں پاکستانی سیاست کے تینوں ستون ایک صفحے پر ہیں سیاسی معاملات اپنی جگہ ہیں جبکہ معاشی مسائل بھی خاصے اہمیت کے حامل ہیں ان کی وجہ سے سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباءمیں وسیع پیمانے پر منشیات کے استعمال سے لیکر معصوم بچوں سے جنسی زیادتی عورتوں پر تیزاب گری غیرت کے نام پر قتل، چوری اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میںہ وتا ہے جہاںخوراک، علاج، زندگی کے تحفظ ، عورتوں اور اقلیتوں کے حوالے سے حالات بد ترین ہیں ۔
ہم یہاں پر گڈ گورننس عدم موجودگی کا رونا روتے ہیں جس کے مطابق غریب ممالک میں مسائل کی جڑ سرمایہ درانہ نظام نہیں ہے بلکہ بیڈ گورننس ہے ان ممالک میں سماجی اور معاشی نا انصافیوں اور وسائل کی تقسیم کا کوئی ایشو نہیں ہے نہ ہی حقوق کی مساوی تقسیم کا کوئی معاملہ ہے معاشی ایشوز پر حکمرانوں کے سیاسی مفادات غالب رہے ہیں میڈیا میں بھی معاشی معاملات پر بہت کم پروگرام کےے جاتے ہیں ، کالی معیشت کا ذکر نہیں ہوتا جو کہ ہمارے سما میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے اس وقت ملکی معیشت ریکارڈ داخلی اور خارجی خساروں سے دو چار ہے یہاں پر میڈیا پر ڈیڈائی سے جھوٹ بولا جاتا ہے پاکستان میں امیروں کے سوا سب ٹیکس دیتے ہیں ملک کے چارٹرڈ کونٹسی ادارے ICAPکے مطابق 88%ٹیکس بلا واسطہ وصول ہوتے ہیں جبکہ ڈائریکٹر ٹیکس صرف12%، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں 46%اور33%ڈائریکٹر ٹیکس وصول کےے جاتے ہیں پاکستان میں ٹیکس ٹرم فائل کرنے کا رواج کم ہو رہا ہے نصف سے کم رجسٹرڈ کمپنیاں ٹیکس ٹرم فائل اور ٹیکس ادا کرتی ہیں حکومتی مراعات کے باوجود سرمایہ کاری زوال پذیر ہے جو سرمایہ کاری ہو بھی رہی ہے وہ رئیل اسٹیٹ اور مالیاتی سٹہ بازی کے حوالے سے ہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب رہےہ یں موجودہ حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی سادگی کا جو ڈرامہ کیا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس کوئی پروگرام یا اصلاحاتی ایجنڈا موجود نہیں تھا ، یہ ایسے نئے سرمایہ کاروں کی جماعت ہے جو کہ پرانی اشرافیہ کو جس میں مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے تجراتی اجارہ دار شامل ہیں کو ہٹا کر ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں پاکستان کی مروجہ سیاست میں موجودہ سیاستی جماعتوں کے پاس زوال پذیر معیشت کو سنوارنے کےلئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار لائی جانے والی یہ جماعت تیزی سے بے نقاب ہوتی جا رہی ہے اس کی پالیسیوں کے نتیجہ میں محنت کش اور غریب طبقات کی محرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی نئی تحریکیں ئی سیاسی جماعت اور تصادم جنم لے سکتے ہیں جو کہ سارے منظر نامے کو بدل سکتے ہیں آخری اطلاعات کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں 172افراد کا نام جے آئی ٹی میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ آصف علی زرداری بلاول بھٹو اور فریال تالپور کے علاوہ دیگر افراد پر ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔اور ان کی گرفتاریوں کا امکان ہے سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے 31دسمبر کی تاریخ فکس کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت سندھ کے وزےر اعلیٰ مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹیوں کو توڑنے اور ان میں فاوروڈ گروپ بنانے کی کوشش کی جائے گی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جان صادق علی کی طرح حکومت سازی کا ٹریلر دوبارہ سندھ میں چلایا جائے گا سوال یہ ابھرتا ہے کہ اپوزیشن سے نمٹنے کے بعد کیا عمران خان ملک میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے ساتھ غریبوں کو ریلیف فراہم کر سکیں گے۔