دل خانہ خراب کی باتیں دیکھیئے
افتخار بھٹہ
نعرے بازی، سابق حکومتوں پر الزامات، شیخ چلی جیسے دعوئے ، پارلیمنٹ میں بے مقصد تقرریں جس میں محض مخالفین کو زیر بار لانا شامل ہے پانچ ہزار افراد کو لٹکانے سے ملک کے معاشی اور انتظامی نظام میں بہتری لانے کی امیدیں ان خیالات کا اظہار کرنے والوں سے نہ پارلیمنٹ چل رہی ہے نہ حکومت نہ کالے دھن کی واپسی ہو رہی ہے بجٹ منظور کروانے میں حکومت کامیاب ہو گئی ہے جس میں عوام کو مزید قربانی کا بکرہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ ایمنسٹی سکیم میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے اس کے حوالے سے آئی ایم ایف نے عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے اس سکیم کا اجراءپرانے ٹیکس گزاروں کے ساتھ زیادتی ہے سیاسی محض آرائی کی وجہ سے معیشت سکڑتی ، کاروبار مندہ ، بے روز گاری بڑھتی روپیہ کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے حکمران کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں حالانکہ وہ 70%بلاوسطہ ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں جن کی تعداد 17کروڑ کے لگ بگ ہے جبکہ پانچ کروڑ مڈل کلاس اور امیر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور 90%دولت کے مالک ہیں جن کا برائے راست ٹیکسوں میں حصہ 2%سے بھی کم ہے ۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ریاستی مالی اور انتظامی کرپشن کی وجہ سے ہر شعبے کے خساروں میں اضافہ جبکہ اخراجات بڑے ہیں وفاقی حکومت کے اخراجات 2008میں 15سو ارب روپے تھے جو کہ اب72سو ارب روپے ہیں واپڈا کا خسارہ 18سو ارب روپے ہے حکومتی تحویل میں حکومتی اداروں کے اخراجات11سو ارب روپے ہیں برآمدات میں کمی ،صنعتوں کے بند ہونے سے تیزی سے بے روز گاری میں اضافہ یوٹیلٹی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ، روپے کی قیمت گرنے سے درآمدی خام مال کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں پیدا واری لاگت بڑھ جانے کی وجہ سے برآمدات میں گراوٹ ہوئی ہیں مقامی مال مہنگا ہونے سے مقامی صارفین غیر ملکی مصنوعات خریدے کو ترجیح دیتے ہیں اب شائد دودھ ، مقامی سبزیاں ، دالیں اور پھل ہی عام آدمی استعمال کر سکتا ہے مگر بتدریج ان کی قیمتوں میں بھی خاصہ اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں اوسان خطا نہ ہوں تو کیا ہوں اب لے دے کے کنٹینر کی حامی تنقیدی سیاست بچ جاتی ہے جس کو پاپو لسٹ نعروں کے ہاتھوں ممکنہ تباہی سے دو چار کیا جا رہا ہے ۔ موجودہ عالمی سیاسی رجحانات میں دائیں بازو کی سیاست پاپو لسٹ نعروں کے ہاتھوں بلڈوز ہو چکی ہے جس کا ایک اپنا نظریاتی بیانیہ ہے جس میں لبرل ازم اور شخصیت پرستی کے نعرے ہیں جن میں انسانوں کے بنیادی معاشی حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ٹرمپ ہو ، نریندر مودی ہو یا عمران خان وہ اپنے پاپو لسٹ تصور کے ذریعے قوم کی تقدیروں سے کھیل رہے جس میں مھض جذبات کے علاوہ کچھ نہیں ہے پاکستان میں یوں بھی 2014کے دھرنے کے بعد ایسی سیاسی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس میں عوامی حقوق کےلئے جدو جہد کرنے والی جماعت یا منشور کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
ہماری پاپو لسٹ لیڈر شپ کی وجہ سے نا بیرونی ممالک سے ڈالر وں کی بارش ہوئی ہے نہ لوٹی ہوئی دولت کے انبار برآمد ہوئے ہیں ہم دنیا بھر میں کشکول لئے گھومتے رہے ہیں چینی عربی خلیجی ممالک سے اربوں روپے کے قرضوں کے بعد اب آئی ایم اےف سے چھ ارب ڈالر مزید ملنے والے ہیں جبکہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویولپمنٹ بینک سے مزید قرضے حاصل کرنے کی امید ہے موجودہ حکومت نے11ماہ میں مزید پانچ ہزار ارب روپے قرضہ لے لیا ہے جبکہ گزشتہ حکومت نے پانچ سال کے دوران 10ہزار660روپے قرض لیا تھا ملکی تاریخ میں 5ہزار555ارب کے ٹیکس لگانے کے بعد بھی بجٹ خسارہ 8.2%رہے گا پہلے ہی ایف بی آر 4ہزار435ارب روپے کی ٹیکس کی وصولی میں ناکام رہا ہے ایسے میں مزید نئے ٹیکس کیسے وصول ہو جائیں گے پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کا مقصد کبھی بجٹ خسارے میں کمی یا غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہیں رہا بلکہ اس سے ریاستی اخراجات پورا کرنے کے ساتھ قرضوں پر سود کی ادائیگی کی جاتی ہے اس مقصد کےلئے ان مقاصد کی تکمیل کےلئے تعلیم ، صحت اور ترقیاتی آخراجات میں کٹوتی کی جاتی ہے نہ ہی کوئی ایسی مربوط پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو سکے ، ہماری حکومت کو یہ اندازہ نہیں کہ معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے امریکہ پر قرض اس کی کل جی ڈی پی سے زیادہ ہے مگر آج بھی امریکی ٹریثری بلز اور فنانشل ضمانتیں زیادہ محفوظ سمجھی جاتی ہیں اسی طرح امریکی کرنسی ڈالر پر اعتماد کیا جاتا ہے امریکی معیشت پر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے چین جیسا ملک بھی اپنے ریزرو اور ٹی بلز میں رکھتا ہے اس وقت اس کے پاس 21 ٹریلین ڈالر کے امریکی بلز موجود ہیں
ہماری حکومت ملک میں پیدا واری عمل کو جاری کرنے میں ناکام رہی ہے اس نے ٹیکس وصولی اور احتساب کے نام پر سرمایہ کاروں اور عام آدمی کو ڈرا دیا ہے اور سیاسی عدم استحکام انتہا پر ہے حکومت کی موجودہ مالیاتی پالیسیوں پر لوگوں کا عدم اعتماد ہے کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت ٹھہر نہیں رہی ہے پاکستانی روپیہ مسلسل گراوٹ سے دو چار ہے اگر یہی صورتحال رہی تو معاشی گراﺅتھ میں اضافہ نہیں بلکہ مزید کمی آئے گی قرضوں کے استعمال کے حوالہ سے تحقیقاتی کمیشن سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ہمیں ملک میں نام نہاد سخت گیر احتسابی نعروں کے ذریعے مزید مزاق بند کر دینا چاہیے سابق دور میں حکومتوں نے قرضے حاصل کےے تھے جن کو ریاستی اداروں اور عالمی مالیاتی اداروں کی زیر نگرانی استعمال میں لایا گیا تھا یوں بھی تمام حکومتیں تسلسل کے ساتھ قرضے لیتی رہی ہیں 2000کے بعد مشرف حکومت کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف فراہم کیا گیا اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کے قرضوں ان رکی ہوئی اقساط کو کس طرح خرچ کیا گیا اس کے ساتھ کولیشن سپورٹ فنڈز کی بھی پوچھ گچھ ہونا چاہیے مشرف کے عہد میں 1یونٹ بجلی نہیں بنائی گئی تھی قرضوں کی عدم ادائیگی سے بچ جانے والی اقساط کی رقوم کو نام نہاد ترقیاتی آخراجات اور اپنے حامیوں اور ضلعی حکومتوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے اڈٹ کی ضرورت ہے زرداری کے دور حکومت میں فنانشل معاملات اتنے بگڑے نہیں زرداری کے عہد میں فنانشل معاملات اتنے نہیں بگڑے تھے جبکہ نواز شریف نے سی پیک کے ذریعے بجلی گھر تعمیر کئے اور سڑکوں کا جال بچھایا جس سے ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی واقع ہوئی اس کے علاوہ چین کی مدد سے اکنامک زون میں انڈسٹری لگائی جانی تھی مگر اب تو سی پیک کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال اس قدر دیگر توں ہو چکی ہے ملک کے سب سے بڑے حساس ادارے کے سربراہ کو ترقیاتی قونصل میں بطور ممبر شریک ہونا پڑ گیا ہے ، چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر دوسری خود مختاری ممکن نہیں ہے ۔ مشکل فیصلے نہ کرنے سے مسائل بڑے ہیں ملک تنہا نہیں علاقے ترقی کرتے ہیں مشکل حالات میں کوئی فرد واحد قومی اتھاد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ، ملک کو در پیش سیکیورٹی خطرات، اقتصادی پالیسیوں میں عدم تسلسل ، اقتصادی نظم و ضبط کےلئے مشکل فیصلوں سے گریز کرنا ممکن نہیں ہے ماضی کی حکومتوں کی مصلحتوں کی وجہ سے ہم معاشی بحران سے دو چار ہوئے ہیں ہم اگر جنرل ضیاءالحق کے عہد سے سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا اس دور میں حکومت کی معاشی ترجیحات نہیں تھیں کیونکہ اس وقت افغان جنگ میں شمولیت کی وجہ سے بے پناہ امدادیں آ رہی تھیں لیکن بعد میں عالمی اداروں نے ان گرانٹوں کو ختم کر کے قرضوں میں تبدیل کر دیا چنانچہ بجٹ خساروںکو پورا کرنے کےلئے مزید قرضے لےے گئے اور آج ہم قرضہ جاتی شکنجے میں جکڑ چکے ہیں موجودہ صورتحال میں تمام ادارے ایک پیج پر ہیں ہندوستان کی دو سال کےلئے سلامتی کونسل میں رکنیت کی حمایت کی جا چکی ہے ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں پاکستانی مسلح فوج کے سربراہ نے باہمی علاقائی تعاون کی پیش رفت کے حوالے سے عندیہ دیا ہے جو کہ ماضی کی پالیسیوں کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی ہے علاقائی ممالک میں تجراتی تعاون سے خوشحالی کا روشن باب کھل سکتا ہے یاد رہے کہ دنیا کے تماممالک اپنی تجارت کا 90%ہمسایہ ممالک کے ساتھ کرتے ہیں جس کی وجہ سے نقل حرکت کے آخراجات میں کمی کے ساتھ وقت بھی کم صرف ہوتا ہے اس حوالے سے مربوط پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے یہاں سے سرمایہ کار بھاگ گیا یا اس نے سرمایہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا تو لاکھوں افراد بے روز گار ہونگے ملک معاشی طور پر بنجر ہو جائے گا ہمارے ارباب اختیار کو اکنامک اور پولیٹیکل سائنس کا لیٹریچر پڑھنا چاہیے عالمی ریسرچ پیپر کا مطالع کرنا چاہیے مگر میری بات کون غور سے سنے گا کیونکہ سیاست میں شامل بالخصوص حکومتی اکابرین اپنے حسابی علم کے حوالے سے ارسطو ، افلا طون ، بلٹرینڈ رسل اور جان کین ہیں۔
پاکستان میں اپوزیشن کی اس تجویز کو مذاق سمجھ کر تنقید کرنا سیاسی نا پختگی نظریاتی و اسٹیٹ من شپ رویوں کے فقدان کی علامت ہے اس مکتبہ فکر کےلئے جمہوریت ، میثاق جمہوریت اور میثاق میعشت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ ملک کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جمہوری عمل میں غیر سیاسی مداخلت کا حقیقی مقصد معاشی وسائل پر اجاری داری قائم کرنا ہے میثاق میعشت کی مثالی صور ت یہ ہے کہ پاکستان کے سارے سیاسی اور ریاستی فریق مل کر ایسا لائحہ عمل طے کریں جس کی روشنی میں پاکستان کو ایک دس نگر معیشت کی بجائے پیدا واری معیشت کے راستے پر گامزن کیا جائے ، ہمارے اخراجات عدم توازن کا شکار ہیں ہماری واحد امید انسانی سرمائے کے بہتر معیار سے منسلک ہے اس لےے عالمی ٹیکنالوجی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق معیار تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا پاکستانی قیادت کو خاندانی سیاست سے باہر نکل کر ملکی مفادات کے حوالہ سے پالیسیاں بنانی ہونگی کیونکہ ان کی مجبوریوں سے قوم کا کوئی واسطہ نہیں ہے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کےلئے سبکو مل بیٹھ کر روڈ میپ بنانا ہوگا تا کہ پیدا واری سماج کی تشکیل کی جا سکے
تیرے لےے چلے تھے ہم تیرے لئے ٹھیر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
۔۔۔۔۔
Tags Column column iftikhar bhutt