صورتحال
ہارون عدیم
”پلاک کا میلہ چراغاںاور شاہ حسین کانفرنس“
لاہور والڈ سٹی کے سربراہ اور لاہور میں ثقافتی سرگرمیوں کے روح رواں کامران لاشاری نے ہمیں یہ امید بندھائی تھی کہ اس بار یہ ممکنات میں سے ہے کہ میلہ چراغاں عالمی سطح کے معیار پر منایا جائے، اور اسے ایک ثقافتی اور سیاحت کا برانڈ بنا لیا جائے ،پورا وال سٹی چراغاں سے روشن کر دیا جائے، لاہور کے اہم مقامات، عمارتوں اور گول چکروں کو نہ صرف روشن کیا جائے بلکہ ثقافتی پروگرام بھی منعقد کئے جائیں، مگر یہ امید ایک آس ہی رہی، لگتا ہے پنجاب حکومت کے خزانے نے انہیں اس خواب میں رنگ بھرنے نہیں دئے،پنجاب حکومت نے اعلان تو ہارس اینڈ کیٹل شو کے احیاءکا بھی کیا تھا مگر ہنوز اس کے آثار معدوم ہیں، یہ کریڈیٹ صرف پنجاب انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج آرٹ اینڈ کلچر کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے وسائل سے تن تنہا 29مارچ سے یکم اپریل تک اپنے کمپلکس میں میلہ چراغاں منعقد کیا، جس میں تین دن موسیقی، رقص اور دھمال شام چار بجے سے لے کر رات گئے تک عوام الناس کی تفریح طبع اور سرور و مستی پہنچانے کا ذریعہ بنے رہے، 31مارچ کی شب ایک مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا،جبکہ یکم اپریل کو شاہ حسین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس میں ممتاز محققین، دانشوروں نے شمولیت کر کے مکالمے کو رائج کیا، یہ کانفرنس مسلسل8ایک ایک گھنٹے کے سیشنز پر محیط تھی، جس میں شاہ حسین کو ہر زوایہ سے پرکھا گیا، غالباً یہ پہلا موقع تھا جب کسی کانفرنس میں شاہ حسین کو رسمی اور روائیتی بندھے ٹکے نصابی زائچوں سے ماورا پرکھا گیا، پلاک کی سربراہ صغراءصدف اور ڈائریکٹر خاقان حیدر غازی اپنے اس کام کے لئے خصوصی مبارکبادکے مستحق ہیں کہ اس ایک روزہ کانفرنس میں مکالمے نے ایک نیا جنم لیا، اور مناظرہ پسپا ہوتے دیکھا گیا، سول اسٹیبلشمنٹ نے شاہ حسین کا جو بت بنا رکھا تھا وہ ٹوٹتا محسوس ہوا، یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی ترقی پسند جماعت پی پی پی بھی اپنے پہلے دور میں تمام فریڈم فائٹرز پر ٹیلی پلے بناتی ہے ، مگر دلا بھٹی پر ڈرامہ نہیں بناتی باوجود اس کے کہ فخر زمان اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، وہ اس لئے کہ دلا بھٹی نے اکبر کو لگان دینے سے انکار کیا تھا، اسے للکاارا تھا، اکبر کا لاہور کو دارلخلافہ بنانے کا سبب بھی دلا بھٹی کی بغاوت کو کچلنا تھا، اور شاہ حسین دلا بھٹی کی فکری رہنمائی کر رہے تھے، اس بار شرکاءنے اس مدے پر کھل کر بات کی۔
ہمیں بھی اس کانفرنس میں ”شاہ حسین کی شاعری میں جمالیات“ پر مباحثے میں حصہ لینے کے لئے بلایا گیا تھا، ہم نے جو گزارشات پیش کیں ، دل چاہا کہ وہ اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کی جائیں، ہم نے معزز ایوان کی خدمت میں عرض گزاری کہ اس موضوع میں دو باتیں طے کی جانے والی ہیں ایک ”شاعری “اور دوسرا”شعری جمال“،پہلے یہ طے کر لیتے ہیں کہ اچھا شعر یا شاعری کی تعریف کیا ہے۔۔۔؟ ہم نے عرض کی کہ ہم دنوں یہ تعریف دھونڈنے میں ناکام رہے ہیں ، کیونکہ جب ہم کسی شعر یا شاعری کی تعریف کرتے ہیں تو در اصل ہم ااس شاعر کے شعری تجربے، شعری منطق، شعری اسلوب اور موضوع کے چناو¿ کی تعریف کرتے ہیں، بڑا شاعر وہ ہوتا ہے جو عام روٹین کی باتوں کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنائے، اور جب یہ باتیں ہمیں چونکا دیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اور ہمیں سوچ بچار پر مجبور کریں اور ”خبریت“کا باعث بنیں ، سر مرستی، سرور اور گداز پیداکریں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑا شاعر ہے۔ اور اس کی تخلیق اعلیٰ شعریت کی حامل ہے۔
اب پہلے ہم جمالیت کی تعریف کر لیں، جمالیت کی بھی تعریف کرنا کار دشوار ہے، ظاہری جمالیت ہر معاشرے میں مختلف ہو سکتی ہے، مثلاً ہمارے ہاں پھول کی پنکھڑیوں جیسے پتلے ہونٹ خوصورتی کی سند پاتے ہیں جبکہ افریقہ میں موٹے اور لٹکے ہوئے ہونٹ خوبصورتی کی علامت گردانے جاتے ہیں،جو کہ ہمارے معاشرے میں یہ موٹے اور لٹکے ہوئے ہونٹ بد صورتی گردانے جاتے ہیں، یہی عالم ”شعری جمالیات “ کا ہے، مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری جس کی تعریف ہم اوپر طے کر چکے شعری جمالیات سے بھر پور ہوتی ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ سخت سے سخت بات بھی نرم اور ملائم انداز میں کہہ جانا شعری جمال ہے، مثلاً شاہ حسین کہتے ہیں کہ
کہے حسین فقیر نماناں ،تخت نہ ملدے منگے
یا
چپ رہاں تے مرنی ہاں جے بولی تے مار دین گے
جب کہ بلھے شاہ کہتے ہیں
بلھیا جے کر غازی بننایں لک بن تلوار
پہلے رانگھڑ مار کے پچھوں کافر مار
اسی طرح فیض اور جالب کا حوالہ بھی دیا جا سکتاہے، فیض کہتے ہیں
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ ءزنجیر میں زباں میں نے
جبکہ جالب کہتے ہیں کہ
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
جالب اور سئیں بلھا سخت لہجہ اور کھردرے الفاظ میں بات کرتے ہیں جبکہ شاہ حسین اور فیض ملائمیت اور نرم لہجے میں بات کرتے ہیں، شاہ حسین اور فیض کی شاعری جمالیت کی آئنہ دار ہے۔
شاہ حسین کی شاعری جمالیت سے بھرپور کیوں ہے۔۔۔؟ اس کا سبب شاہ حسین خود ہیں، ہم گزشتہ سال شاہ حسین کانفرنس میں یہ بات کر چکے ہیں کہ شاہ حسین نے اکبر کے سماج میں عورتوں کے سات روا رکھے گئے ظلم و جبر اور پابندیوں کے خلاف رد عمل میں احتجاجاً عورت بن کر نسوانی لہجے میں بات کی، عورت سخت لہجے میں بات نہیں کرتی، دوسرا شاہ حسین میں موسیقی اتنی بھری ہوئی تھی کہ شاعری راگوں میں اترتی تھی، اور سب سے بڑھ کر وہ رقص کے بنا رہ نہیں سکتے تھے، کہا جاتا ہے کہ جہاں رنگ اور قلم ساتھ چھوڑ جائیں تو شاعری جنم لیتی ہے اور جہاں شاعری بیان سے قاصر ہو جائے تو موسیقی اظہار بن جاتی ہے اور جب موسیقی کا دامن کم پڑ جائے تو رقص جنم لیتا ہے، وہ ایک بہت بڑے رقاص تھے، بعض محققین کا ماننا ہے کہ دھمال ان کا ایجاد کیا ہوا رقص ہے۔اوپر سے شاہ حسین یہ جانتے تھے کہ تنہائی، دوئی یا اکلاپا انسان کی گھٹی میں شامل ہے، ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ بچے کی پیدائش یا بچے کا ماں کے وجود سے علیحدہ ہونا فطرت سے جڑی ہوئی زندگی سے علیحدہ ہونا ہے،جہاں انسان کے سارے عمل اور رد عمل پہلے سے طے ہوتے ہیں کہ وہ کیا کریں گے، لہٰذای اس کی پیدائش اسے ایک غیر متعین صورتحال میں لے آتی ہے، جہاں اسے فیصلے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے،اس لئے یہ تنہائی اور اکلاپا اس کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے جس کا دارو یا علاج وہ عشق کی صورت میں کرتا ہے،وہ دوسروں میں سما جانا چاہتا ہے، گروہ بنا کر رہنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ازلی تنہائی ،دوئی اور اکلاپا شاہ حسین کی شاعری کا خمیر بن گیا ہے، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایک ایسا شاعر جس میں رقص، موسیقی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، جس کا لہجہ نسوانی ہو، موضوعات میں عشق، ازلی تنہائی اور رسم و رواج کے خلاف احتجاج ہو اس میں شعری گداز اور سرور جسے ہم شعری جمالیات کہتے ہیں کیسے کم ہو سکتا ہے۔۔۔؟
Tags column haroon adeem