Breaking News
Home / Columns / ” کیا ”مہاجر“اپنے حصے کا پاکستان ساتھ لائے تھے۔۔۔؟ “

” کیا ”مہاجر“اپنے حصے کا پاکستان ساتھ لائے تھے۔۔۔؟ “

haroon adeem logo

ہارون عدیم
” کیا ”مہاجر“اپنے حصے کا پاکستان ساتھ لائے تھے۔۔۔؟ “
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے اراکین کے مابین ہونے والی لفظی بمباری نے ماضی کی تلخ یادیں تازہ کر دی ہیں، جس کواگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھاجائے تو قصور ایم کیو ایم کا ہی ہے، وہ اپنی تخلیق کے بیانیہ کو پھر سے زندہ کر رہی ہے، بجائے اس کے کہ وہ 70سال اس دھرتی پر پروان چڑھنے اور اس کے وسائل کو تصرف میں لاتے ہوئے خود کو سندھی اور پاکستانی گردانتے آج بھی خودکو مہاجر منوانے پر بضد ہیں، سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ گروہ خود کو پاکستان بنانے والا کلیم کرتا ہے،سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر پنجاب اور سندھ اسمبلی پاکستان میں شامل نہ ہوتے تو کیا پاکستان بن پاتا۔۔۔؟سندھ اسمبلی میں ہونے والی اس ناخوشگوار بحث پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے دعویٰ کیا ہے کہ ”مہاجر“ اپنے حصے کا پاکستان ساتھ لے کر آئے تھے، جو کہ نہ صرف تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے، بلکہ اسے مسخ کرنے جیسا ہے،” تقسیم ہندوستان کے قانون“ کے مطابق تو مہاجر صرف اور صرف مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب ،اور مشرقی اور مغربی بنگال سے ہجرت کرنے والوں کو ڈکلیئر کیا گیا تھا۔بھارت میں اکثریتی مسلم ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کو پاکستان نقل مکانی کرنے پر مہاجر کا سٹیٹس قانونی طور پرحاصل نہیں تھا۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین متروکہ املاک اور اثاثوں کا تبادلہ بھی اسی قانون اور اصول کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ ایم کیو ایم ااب قومی دھارے میں شامل ہو گی اور اپنی لسانی شناخت اور بے وطنیت کے دعوے سے دستبردار ہو گی، وہ شہری علاقوں کی نمائندہ بن کر ابھرے گی، مگر 2018کے انتخابات اور اس کے بعد کی فضاءنے ان کی رہی سہی عزت بھی گنوا دی، جس کی ذمہ داری بحرطور ایم کیو ایم کی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے ، جو اب تک اردو بولنے والے طبقے کو مہاجر منوانے پر بضد ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی ایم کیو ایم نے مہاجر قومی موو¿منٹ سے متحدہ قومی موو¿منٹ کا سفر شروع کیا تھا ان کی جانب سے یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج سے مہاجر کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا۔اب اس ملک میں کوئی مہاجر نہیں۔کیونکہ اب سب اس دھرتی کے فرزند ہیں،یہیں پیدا ہوئے ،یہیں پلے بڑھے،یوں بھی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ جانوں کے نذرانے پنجابیوں نے دیئے،پنجاب خود دو لخت ہوا،مگر مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والوں نے کبھی بھی خود کو مہاجر نہیں کہلوایا،یہ بھی تاریخی حقیقت اور زیادتی کے طور پر ریکارڈ پر موجود ہے کہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والوں کے حصے کی متروکہ املاک کی الاٹمنٹ ان مسلم اکثریتی ریاستوں(یوپی،سی پی) سے آنے والے مہاجروں کو دی گئیں۔1970 تک بنکنگ اور وزارت خارجہ میں پنجابیوں اور دیگر قومیتوں کا داخلہ بند تھا۔اور ان اداروں پر اردو بولنے والوں کا قبضہ تھا۔
ایسے بے شمار حقائق قلم بند کیئے جا سکتے ہیں،مگر یہ ہمارا مدعا نہیں۔یہ باتیں بھی اس لئے کہہ دیں کہ ریکارڈ کی درستگی رہے، اس کے لئے ان باتوں کا دہرانا بڑا ضروری تھا،گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہونے والی گرفتاریوں سے اب یہ بات ثابت ہو چکی کہ کراچی کا اصل مسئلہ بھتہ خوری یا دوسرے لفظوں میں لوٹ مار میں حصے بخروں کا ہے۔1985 تک کراچی میں جماعت اسلامی کا راج ہوتا تھا،1970 میں جب پی پی پی نے پورے ملک میں بالخصوص پنجاب اور سندھ میںجو لینڈ سلائیڈنگ کامیابی حاصل کی اس کے باوجود کراچی میں اسے کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ایم کیو ایم کے ظہور کے بعد جماعت اسلامی کا ہولڈ کراچی سے جاتا رہا اور کراچی اور حیدر آباد پر ایم کیو ایم نے مکمل اجارہ داری حاصل کر لی۔1988 سیاسی جماعتوں کی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں جہاں پورے سندھ میں ”سیاسی ووٹ“ اور پنجاب میں ”بلدیاتی ووٹ“کاسٹ ہوا وہاں کراچی اور حیدر آباد میں” لسانی اور گروہی ووٹ“ کاسٹ کیا گیا،اردو زبان اور مہاجر کی بنیاد پر۔یہ بھی ضیاءالحق کا قوم و ملک کو تحفہ تھا۔جہاں اس نے 1985 میں بغیر کسی قومی مطالبے کے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے پاکستانی قوم کو صوبائی بنیادوں کی بجائے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا اور آئین کا حصہ بنا دیا کہ اس ملک میں پانچ قومیتیں بستی ہیں،مسلمان،عیسائی،ہندو اور سکھ،مرزائی،پارسی اور دیگر شیڈول کاسٹیں۔یہ بھی طے کر دیا گیا کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کی نہ تو نمائندگی کر سکتی ہے،اور نہ ہی اسے ووٹ دے سکتی ہے،اس طرح مخلوط انتخابات کی جگہ جہاں جداگانہ انتخابات کو قوم پر مسلط کیا گیا وہاں سیاست کی بنیاد مذہب بنا دیا گیا،اشتراک عمل، اورقومی یکجہتی کی بنیاد ہی ختم کر دی گئی۔اور یہ سب کچھ صرف پی پی پی دشمنی میں کیا گیا،ایم کیو ایم بھی پی پی پی دشمنی میں بنائی گئی،اور 1988 میں لسانی اور گروہی سیاست کی داغ بیل رکھ دی گئی۔
1992 تک ایم کیو ایم نے گروہی اور لسانی بنیادوں پر ہی سیاست کی ،مگر جب میاں نواز شریف کی حکومت نے ان کے خلاف فوجی ایکشن لیا تو ایم کیو ایم نے قومی مطالبے پر اپنی سیاست کا انداز بدلا،مگراپنے فسطائی روّیوں کو نہ بدلا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق 2500سے زیادہ ٹارگٹ کلر، بھتہ خور گرفتار کئے جا چکے ہیں جو سب ایم کیو ایم کے کارکن ہونے کے دعویدار ہیں، اور یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ سب کچھ ایم کیو ایم کی قیادت کے کہنے پر کیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب ریاست اور سیاست دونوں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے،رہتی سہتی کسر ایم کیو ایم اپنی سیاست کاری سے پوری کر رہی ہے، ایم کیو ایم کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ان کے خوف سے آزاد ہو چکا، جبکہ نہ تو سندھ حکومت کو ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی عمران خان بلیک میل ہونے والے ہیں، لہٰذا ایم کیو ایم کو پاکستانی بننا ہو گا۔وہ اس لئے کہ یہ اطلاعات کا دور ہے، ایک چھوٹا سا سیل فون آپکو ہر وہ اطلاع مہیا کر دیتا ہے جو آپ کو درکارہے، بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ مہاجروں کو کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے، ان کو شہریت نہیں ملتی، ایم کیو ایم کے پاس تو پاکستان کی شہریت بھی ہے اور انہیں ووٹ کاحق بھی ہے، الیکشن لڑنے کا اختیار بھی۔ کاروبار کرنے، ملازمتیں حاصل کرنے کا حق بھی۔
رہا معاملہ ”مہاجروں کا اپنے حصے کا پاکستان ساتھ لانے کا تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے، کیا محترم سبزواری اپنے بیان کی تقویت اور دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کوئی تاریخی شہادت پیش کر سکتے ہیں جو یہ ثابت کر دے کہ قائد اعظم نے ملک کا فلاں صوبہ ، شہر یا علاقہ یو پی سی پی سے ہجرت کر کے آنے والوں کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔۔۔؟یا قانون تقسیم ہند میں انگریزوں نے کراچی اور حیدر آباد کو اردو سپیکنگ مہاجروں کے لئے مختص کر دیا تھا،چلیں یہ مان بھی لیا جائے کہ ایم کیو ایم کے اسلاف نے قیام پاکستان کے لئے قربانیاں دیں، مگر جب ان کی اولاد اسی ملک سے دشمنی پر اتر آئیں تو کیا انہیں ان کے والدین کا کریڈٹ دیا جاا سکتا ہے، کیا صحابہ اکرام کی اولادیں قانون سے بالا تر تھیں۔۔۔؟بہتر ہو گا کہ ایم کیو ایم کے سارے دھڑے پاک سرزمین پارٹی کی طرح مہاجریت اور اردو سپیکنگ ہونے سے جان چھڑائیں، سندھی اور پاکستانی بنیں،اسی میں سب کی بقاءہے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *