Breaking News
Home / Columns / بچوں کوڈیجیٹل نشے سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

بچوں کوڈیجیٹل نشے سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

bachon ko digital meda

حنیف انجم

خیالات
بچوں کوڈیجیٹل نشے سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟
آج ہم جس عہد میں زندہ ہیں اسے ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے ابھی ہم کسی ایک چیز سے متعارف ہوتے ہیں تو ساتھ ہی کوئی دوسری ڈیوائس ہمارے ہاتھوں میںآچکی ہوتی ہے جتنی تیزی سے سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی میں نت نئی دریافتیں اور ڈیوئاسزآرہی ہیں ہم اسے سیکھنے میں میں ابھی وہ مہارتیں حاصل نہیں کر پارہے لیکن اب تو اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہمیں اپنے بچوں کی راہنمائی کے لئے جدید سائنی علوم اور ٹیکنالوجی سے متعارف ہوئے بنا کوئی چارہ کار نہیں رہا کیونکہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی سیکھے بغیر آج کے حالات میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کو ٹیکنالوجی سیکھنی چاہیے۔ لیکن اس کے لئے والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر اس ضمن میں کڑی نظر رکھیں کیونکہ جہاں ٹیکنالوجی فائدہ مند ہے وہیں اس کا بے جا اور غیر ضروری استعمال نقصان دہ بھی ہے اس حوالے سے ایک جانب ماہرین اور دوسری جانب عالمی ادارئے ہمیں متنبہ کرتے رہتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق بارہ ماہ سے کم عمر بچوں کو الیکٹرانک سکرینوں سے دور رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اس بات پر زور بھی دیا گیا ہے کہ والدین بچوں کو ورزش اور دیگر صحت مندانہ عادات کی طرف راغب کریں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک سال سے کم عمر بچوں کے لیے الیکٹرانک سکرین کا استعمال مکمل ممنوع ہے جبکہ دو سے چار سال کے بچوں کو بہلانے کے لیے موبائل فون یا ٹیبلٹ دیا جا سکتا ہے مگر صرف ایک گھنٹے کے لیے، اس سے زیادہ استعمال ان کے لیے غیر صحت بخش ہوگا۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بچوں کی بہتر نشونما کے لیے مکمل نیند اور ورزش سے متعلق بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ہدایات میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کو پیٹ کے بل لیٹنے کے لیے زمین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ سرگرمی ایک گھنٹے تک جاری رکھنی چاہیے اور تمام سکرینز کو بچوں سے دور رکھنا چاہیے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے صحت نے مزید یہ بتایا ہے کہ دو سے چار سال کے عمر بچوں میں مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ان سرگرمیوں کو دن میں متعدد بار دہرائیں جبکہ سکرین ٹائم کو 60 منٹ تک محدود رکھیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے جسمانی طور پر فعال یعنی تندرست اور توانا رہنا اور نیند کی کافی مقدار حاصل کرنا بے حد ضروری ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہی اچھی عادات بچوں میں پروان چڑھتی ہیں اور پھر بلوغت اورجوانی سے لےکر ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ڈبلیوایچ او کے مطابق صحت مندانہ جسمانی سرگرمیاں، خوشگوار رویے اور پرسکون نیند یہ تمام تر عادات کم عمری سے ڈالی جاتی ہیں۔ والدین بچوں پر بچپن میں ہی توجہ دینا شروع کردیں تو بچے وہی عادات زندگی بھر ساتھ رکھتے ہیں۔ بچوں کو بہلانے کے لیے کمپیوٹر گیمز، ویڈیو اور ٹیلی وڑن میں مصروف رکھنا سراسر غلط ہے۔
دوسری جانب ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت کا شکار کر رہی ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے امراض کی بنیاد پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اس کے تحت چند اخبارت میں کچھ رہنما مضامین شائع کروائے۔ان ماہرین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔ماہرین نے جب ان بچوں کی روزمرہ عادات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ اسمارٹ فونز ان بچوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے جو ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ان ماہرین کے مطابق بعض والدین خود بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب سے ان کے بچوں نے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے رویوں اور عادات میں منفی تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ البتہ کچھ والدین کو اس کا علم نہیں تھا اور وہ اس بات کو ماننے سے انکاری تھے کہ اسمارٹ فون ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
اسی ضمن میں ہمارے سامنے ایک خوفناک مثال بھی سامنے آئی جس کے مطابق نیویارک کی رہائشی ایک والدہ سوزین کا کہنا تھا کہ اس کا 6 سالہ بیٹا ایک زندہ دل اور خوش مزاج بچہ تھا جو کھیلوں اور پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا تھا۔ پھر اسے اس کی ساتویں سالگرہ پر انہوں نے آئی پیڈ تحفہ میں دیا اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔سوزین کے مطابق انہوں نے یہ تحفہ اسے اس لیے دیا تاکہ وہ اپنی تعلیم کے لیے دنیا بھر کی ریسرچ سے استفادہ کرسکے۔ ساتھ ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔شروع میں ایسا ہی ہوا، انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگیا اور گفتگو کے دوران وہ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت کرنے لگا، لیکن پھر آہستہ آہستہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔اب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت خاموشی سے آئی پیڈ کے ساتھ گزارنے لگا۔ اس کے رویے میں تبدیلی آتی گئی۔ جس وقت آئی پیڈ اس کے پاس نہ ہوتا وہ گم صم رہتا۔ پڑھائی اور کھیلوں سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔سوزین کا کہنا تھا کہ ایک دن رات کے وقت وہ یہ سوچ کر اس کے کمرے میں گئیں کہ وہ سورہا ہوگا، لیکن وہ جاگ رہا تھا اور اپنے آئی پیڈ پر جانوروں کو قتل کرنے والے ایک کھیل میں مشغول تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر آنکھیں پھاڑے، کسی حد تک ایب نارمل انداز میں اسکرین کو گھور رہا تھا اور جیسے ایک ٹرانس میں محسوس ہورہا تھا۔ سوزین کو اسے متوجہ کرنے کے لیے کئی دفعہ زور سے ہلانا پڑا تب وہ بری طرح چونک اٹھا۔سوزین کے مطابق اس صورتحال سے وہ بے حد خوفزدہ ہوگئیں اور اگلے ہی دن اسے ماہر نفسیات کے پاس لے آئیں۔
سوزین جیسے کئی اور والدین بھی تھے جنہوں نے کم و بیش اسی صورتحال سے گھبرا کر ماہرین نفسیات سے رجوع کیا۔ماہرین نفسیات نے جب اس سلسلے میں دیگر ماہرین سے رجوع کیا اور مزید تحقیق کی تو ان پر انکشاف ہوا کہ جدید دور کی یہ اشیا بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا کہ یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔
طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس لت کا شکار بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزار، اداس اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچے چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہوگئے۔ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت کا شکار ہوگئے وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کا شکار شخص کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا (فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نشے کے شکار افراد کی طرح ایسے افراد اور بچوں کی زندگی سے بھی ٹیکنالوجی کو بالکل خارج کردیا جائے۔ اسمارٹ فونز، کپیوٹر حتیٰ کہ ٹی وی کو بھی ممنوعہ بنادیا جائے۔آج کل کے دور میں یہ ایک نا ممکن بات تو ہے مگر بچوں کو بچانے کا واحد حل یہی ہے۔ماہرین نے مزید تجاویز دیں کہ بچوں کو 12 سال کی عمر سے قبل کسی قسم کی ٹیکنالوجی سے متعارف نہ کروایا جائے۔بچپن سے ہی بچوں کو کتابوں اور روایتی کھلونوں سے مصروف رکھا جائے۔انہیں باہر جا کر جسمانی حرکت والے کھیل جیسے کرکٹ اور فٹبال یا سائیکل چلانے کی ترغیب دی جائے۔قدرتی اشیا جیسے سبزہ زار، پھولوں، درختوں، سمندر اور ہواو¿ں سے روشناس کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی اور اہمیت بتائی جائے گھر کے اندر انہیں گفتگو میں مصروف رکھا جائے۔ ان سے روزمرہ کی مصروفیات، اسکول، دوستوں اور کھیلوں کے بارے میں باتیں کی جائیں تعلمی اداروں ،میں ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *