Breaking News
Home / Columns / بچوں کو زہر کھانے سے کیسے بچایا جائے؟

بچوں کو زہر کھانے سے کیسے بچایا جائے؟

Hanif anjum
حنیف انجم
بچوں کو زہر کھانے سے کیسے بچایا جائے؟
بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت ہر شہری کا فرض ہے پوری دنیا میں بچوں کو فروخت کی جانے والی چیزوں خصوصاً کھانے پینے والی اشیاءکے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا اس کے لیے ریاستی ادارے مکمل جانکاری کے بعد ہی کسی بھی چیز کو بازار میں آنے کی اجازت دیتے ہیں یہاں تک کے ہر فروخت ہونے والی چیز پر اس کے اجزائے ترکیبی ،ایکسپائر ڈیٹ اور قیمت لکھی جاتی ہے لیکن پاکستان میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ماسوائے چند ملٹی نیشنل یا بڑی کمپنیوں کے علاوہ دیگر کمپنیاں تو بلکل تردد ہی نہیں کرتیں کہ وہ اپنی پراڈکٹ پر اجزائے ترکیبی لکھیں یہی وجہ ہے کہ آج بازار میں بچوں کے لیے جو چیزیں فروخت کی جارہی ہیں وہ انتہائی ناقص ہونے کے ساتھ مضر صحت بھی ہیں اور جو بیماریوں کا باعث ہیں۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ مختلف کمپنیاں خاص طور پر بچوں کو ہدف بنا کر ایسی غذائی مصنوعات کی تیاری اور ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرتی ہیں، جن کا استعمال بچوں میں صحت کے حوالے سے کئی مسائل پیدا کر رہا ہے۔ دیہاتوں اور شہروں میں بھی بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء کا کوئی معیار نہیں ہے۔ خصوصاً تعلیمی اداروں کے باہر جو کچھ فروخت ہوتا ہے یہ اشیاء غیر معیاری اور مضر صحت ہوتی ہیں اس سلسلہ میں مثبت اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں غیر معیاری اشیا کی فروخت عروج پر ہے اور اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، قوانین ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں کوئی کوالٹی چیک نہیں ہے، کوئی اسٹینڈرڈ نہیں ہے۔ ، اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں کی اشیا کے بارے میں جو وارنٹی دی جاتی ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اورخریدار بے بس و مجبور ہوتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ملاوٹ شدہ اشیا کی فروخت عروج پر ہے۔ مصنوعات میں ملاوٹ، انسانی صحت کو بری طرح برباد کر رہی ہے اور لوگ مختلف موذی امراض کا شکار ہو رہے ہیں، ملک میں ملاوٹ، گراں فروشی اور جعلسازی کو روکنے کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور اس سلسلہ میں کوئی غیر سرکاری ادارہ بھی عملی طور پر کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس طرح ہمارے دیگر حقوق ہیں جو بطور حق ہم حکومت سے طلب کر سکتے ہیں اسی طرح بطور صارف ہماراحق ہے، کہ ہم جو کچھ خرید رہے ہیں وہ معیاری ہو ، ہمیں صارف کی حیثیت سے اپنے حقوق کا علم ہونا بھی چاہےے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدو جہد بھی کرنی چاہےے۔صارفین کے حقوق کے لئے اقوام متحدہ نے ایک چارٹر 1955 میں منظور کیا۔ اس چارٹر پر عمل درآمد کے لئے صارفین کی طویل جدوجہد کے بعد 15 مارچ 1960ءکو جا کر صارفین کے حقوق کا بل پاس ہوا۔ صدر کینڈی نے اپنی انتخابی مہم میں یہ بل پاس کرانے کا وعدہ کیا تھا، جو انہوں نے پورا کیا۔ اس کے بعد بھی صارفین کا کام ختم نہیں ہو گیا۔ صارفین انفرادی طور پر اور انجمنوں کی صورت میں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ کون کون سے ادارے یا سٹور صارفین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔ترقی یافتہ ممالک میں صارفین حکومت پر سب ذمہ داری ڈال کر بیٹھے نہیں رہتے۔ بعض اوقات یہ صرف دس ڈالر کی چیز کے لئے ہزاروں ڈالر کی لڑائی لڑتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی سرگرمی نظر نہیںآتی نہ ہی یہاں صارفین کے حقوق کے لیے کوئی تنظیم سرگرم ہے نتیجہ مارکیٹ فورسز کی من مانیاں اور لوٹ مار ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دکاندار سے لوگ قیمتوں یا اشیاءکے معیار پر تکرار کرتے ہیں، الجھتے ہیں، لیکن بالاخر اِسی قیمت اور اِسی معیار کی چیز لے کر گھر چلے جاتے ہیں۔
امریکہ میںسٹور مالکان حکومت سے زیادہ صارفین اور صارفین کی انجمنوں سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں اس حوالے سے حالات مخدوش ہیں یہاں صارف اپنے حقوق سے عمومی طور پر ناآشنا ہے۔ روزانہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے والے کروڑوں صارفین کا قدم قدم پر استحصال ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ مالیاتی شعبے میں بینک کے ساتھ کھاتہ کھولتے ہوئے صارف جانے انجانے میں کتنی ہی چیزوں کے لئے حامی بھر لیتا ہے۔ ملک میں صارفین کے تحفظ کے لیے کنٹریکٹ ایکٹ، سیلز اینڈ گڈز ایکٹ سمیت دیگر قوانین توموجود ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظران میں ایک طرف ترمیم کی اشد ضرورت ہے تو دوسری جانب عملدرآمد کی۔صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے پنجاب میں حکومتی سطع پر کچھ کام نظر آرہا ہے جس میں صارف عدالتوں کا قیام ہے ۔ صوبہ پنجاب میں قریباً 11 اضلاع میں صارف عدالتیں قائم کی گئی ہیں جبکہ ایک صارف عدالت اسلام آباد میں کام کر رہی ہے۔ ابھی دوسرے اضلاع میں اس بارے میں پیش رفت نہیں ہوئی۔ لاہور میں بھی ضلعی صارف عدالت قائم کی گئی ہے، اس کی جانب سے ایک بورڈ لگایا گیا ہے، جس کی تحریر درج ذیل ہے۔ یہ صارف کو حق دلوانے کے لئے معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ خریداران سے التماس ہے کہ اشیا خریدتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں۔ اشیا پر تاریخ تیاری اور تاریخ اختتام کا درج ہونا، اشیاءپر اجزائے ترکیبی کا لکھا ہونا، مشتہر کی گئی قیمت پر اشیا کی فراہمی، خرید کردہ اشیا کی رسید حاصل کرنا، نرخنامہ آویزاں ہونا، اشیا کی واپسی کے متعلق معلومات فراہم کرنا۔ اگر یہ تمام معلومات دکاندار،خریدار کو مہیا نہ کرے تو اس کیخلاف متعلقہدفاتر میں شکایت درج کرائیں اور اگر کوئی شخص کسی شے یا خدمت سے ہونے والے نقصان کی بناء پر ہرجانہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ضلع صارف عدالت سے رجوع کرے۔ شہریوں کو اس ضمن میں آگاہی فراہم کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *