ایک زندگی کوکیسے بچایاجائے۔
۔۔۔ڈاکٹرناظرمحمود
لکھاری یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ سے پی ایچ ڈی ہیں اوراسلام آبادمیں کام کرتے ہیں۔
Email: mnazir1964@yahoo.co.uk
گزشتہ ہفتے ایمبولینس سروس کے بارے میں کالم پربہت سے قارئین کی جانب سے پسندیدگی کاجواب آبا۔ بہت سے دوستوں نے ای میلز کے ذریعے ایمبولینسرسروسز کی بہتری کے بارے میں میرے خیال سے اتفاق کیا انہوں نے نہ صرف وقت کے بارے میں بلکہ سروس ڈیلیوری اورایمبولینس کے طورپراستعمال کی جانے والی گاڑیوں کے معیارکے بارے میں بھی لکھا۔
کچھ قارئین اس بارپرناراض تھے کہ لکھنے والے نے امن،چھیپا اورایدھی جیسی چیئرٹی تنظیموں پرتنقیدکی جوعوام کی مددسے شاندارکام کررہی ہیں اور تنقید کی بجائے ان کی تعریف کی جانی چاہئے۔ اُن کے معاشرتی کردارکے بارے میں توکوئی بحث ہی نہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ تنقید تباہ کن کی بجائے تعمیری ہونی چاہئے۔
ایک قاری محمدیاسین نوآبادیاتی نظام کی وڈیروں کی حکمرانی پرشاکی تھے۔ اُن کے نزدیک نوآبادیاتی نظام کی لٹوکریسی پبلک فنڈزمیں لوٹ مارکابہترین ذریعہ ہے۔ ان بیانات میں کچھ سچ ہے۔ وڈیرہ شاہی امیرانہ طبقے کاایک جزو ہوسکتی ہے۔ امیرانہ مشینری میں دیگرقباحتیں سول اورفوجی بیوروکریسی ہے جن میں جرنیل،جج اور عوامی شعبوں کے دوسرے افسربھی آتے ہیں اورمیں ریاست کے تمام شعبوں میں بھی موجودہیں۔ بیوروکریسی اورمحکموں کے علاوہ امیرانہ طبقہ کاروبارمیں بھی ہے۔
ہمارے سرمایہ کار اور صنعت کارمفاد پرست تاجرو سے زیادہ ڈاکووڈیروں کی طرح کارویہ اختیارکرتے ہیں۔ پاکستانی امراکے تین رخی امیرانہ ڈھانچے میں بیوروکریٹ،سرمایہ کار اور وڈیرے شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف وسائل پرقبضہ کررکھا ہے بلکہ لوگوں کے بنیادی حقوق بھی غصب کررکھے ہیں جن میں سے صحت کی نگرانی کئے جانے کاحق بھی شامل ہے۔
اگرہمارے بیوروکریٹ ریاست کے وسائل پرصحت کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں توامیرطبقہ کے دیگرشعبوں کے پاس بھی ملک کے اندراوربیرون ملک علاج کی سہولیات سے استفادہ کرنے کے لئے دولت کی کمی نہیں۔ یہ بے چارے عوام ہی ہیں جواپنے علاج کے لئے ہزاروں روپے اوریہاں تک کہ ایمبولینس کے اخراجات بھی اداکرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
ایک اورقاری مدثرنظامی جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو سندھ کے ریجنل فنانس مینجرہیں نے وضاحت کی کہ جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوکراچی اورنوابشاہ کے علاوہ پورے سندھ میں پرائمری ہیلتھ کیئر کے لئے کام کرتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو کے پاس دیہی سندھ میں دوسویااس سے زیادہ ایمبولینسز ہیں اوریہ سوزوکی بولان کی ایمبولینس استعمال کرنے کے صرف6روپے فی کلومیٹروصول کرتی ہے اورسوزوکی اے پی وی کے 8روپے فی کلومیٹروصول کئے جاتے ہیں۔ دل کے مریضوں کے لئے جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو ٹویوٹاہائی ایس ایمبولینس فراہم کرنے کے صرف10روپے فی کلومیٹروصول کرتی ہے۔
یہ جان کراچھالگالیکن میں اس میں اضافہ کروں گاکہ یہ ابتدامیں سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن اور سندھ حکومت کے درمیان پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ تھی۔
جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوکاقیام بارہ سال پہلے عمل میں آیا یہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے اقتدارمیں آنے سے پہلے کاوقت تھا۔ تاہم پیپلزپارٹی کی حکومت نے دوہزارچودہ میں اسے غیرمنافع بخش تنظیم کے طورپر رجسٹرکرکے اس کی کارکردگی بہترکرنے کی کوشش نہیں کی جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں زیادہ ترآزادی اور نجی شعبے کے شہری ہیں۔
مدثرنظامی نے مزیدمطلع کیا کہ جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوسندھ دیہی پسماندہ علاقوں میں ایک ہزاریااس سے بھی زیادہ صحت کی سہولیات فراہم کررہی ہے ۔ صحت کی ابتدائی سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہین۔ ترقیاتی شعبے میں ہوتے ہوئے راقم الحروف نے سندھ میں بہت سی سہولیات کاجائزہ لیا اوراس بات کی تائید کرسکتا ہے کہ ایسی تنظیموں میں سے کچھ بہت شاندارکام کررہی ہیں۔
لیکن اس سب کاتعلق ابتدائی ہیلتھ کیئرسے ہے۔ جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوکے اچھے کام کی تعریف کرتے ہوئے اس بات کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ پرائمری ہیلتھ کیئر کے علاوہ بھی کام کیا جائے اور سندھ کے بڑے اضلاع میں بڑے آپریشن نہ کراسکنے کی طاقت نہ رکھنے والے مریضوں کی بھی مدد کی جائے۔ نسبتاً بہتراوربڑی ایمبولینسزکی ضرورت ہے۔ سوزوکی بولان اور اے پی وی کی ایمبولینس زیادہ زخمی اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلامریضوں کے لئے ٹھیک نہیں۔
علاوہ ازیں جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوکے پاس صرف چارلیبارٹریز ہیں جو حیدرآباد،لاڑکانہ،میرپورخاص اورسکھرمیں واقع ہیں۔ تشخیص کاساراکام چھوٹے پیمانے کی نجی لیبارٹریاں کرتی ہیں جن کااسٹاف اور مشینری اتناقابل نہیں ہوتا کہ ان کی رپورٹ کو قابل بھروسہ کہاجاسکے۔ اگرچہ جو پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹوایک اچھاماڈل ہے تاہم اسے بہتری اور نگرانی کی ضرورت ہے۔ اگرایسانہیں کیا جاتا توکئے اقدامات ضائع جاسکتے ہیں اوردیہی اور شہری سندھ میں طبی سہولیات کی فراہمی کے ذرائع بے کارجائیں گے۔ خاص طورپراس کا غریبوں اورحقداروں تک فائدہ نہیں پہنچے گا۔
ایمبولینس سروس کی طرف واپس آتے ہیں راولپنڈی چیمبر کے سابق صدرڈاکٹرشامل داؤد نے تجویز دی کہ ملک بھرمیں اوبرایمبولینس سروس شروع کی جانی چاہئے۔ ڈاکٹرداؤد کے مطابق دیگرممالک میں ایسی ایمبولینس سروسزموجود ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی۔ ایک گوگل سرچ میں راقم کوپتہ چلا کہ بھارت کے کچھ شہروں خاص طورپرجنوبی بھارت میں کیرالہ میں اوبرماڈل کی ایمبولینس کارواج ہے۔ ڈاکٹرداؤد کی تجویزپرعمل کرتے ہوئے پاکستان کے بڑے شہروں میں اوبرایمبولینس سروس شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہم بے یقینی کی کیفیت میں سوچتے ہیں کیا ایسی سروس ہمارے ملک میں کامیاب ہوگی جہاں آدھی آبادی جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے اورغربت کایہ عالم ہے کہ عوام کوتین وقت کا کھانا بھی میسرنہیں۔
انتہائی مفصل اورموثر ای میل خاقان سکندرنے کہ کی جو امن فاؤنڈیشن میں سٹریٹجک آپریشن کے سربراہ ہیں۔ میری فیڈبیک اورمثبت انداز میں لینے کے علاوہ انہوں نے وعدہ کیا کہ ایمبولینس کے عملے کی تربیت کی بھی جائے گی اورسروس میں بہتری لائی جائے گی خاص طورپرکال رسپانس میں بہتری لانے کے لئے۔
ان کے مطابق کراچی میں کام کرنے والی زندگی بچانے والی ایمبولینسز کی تعدادضرورت کے مقابلے میں صرف30فیصد ہے۔ بہترین خبریہ ہے کہ یہ قلت پوری کرنے کے لئے امن فاؤنڈیشن کا سندھ حکومت کے ساتھ معاہدہ آخری مراحل میں ہے۔ حوصلہ افزابات یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی ایسی کوششوں کامثبت جواب دے رہی ہے۔ امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز دیگرسروس کے مقابلے میں سہولیات سے زیادہ مزید ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ دیگرایمبولنس سروسز بھی اس ماڈل کی پیروی کریں۔ اچھی ایمبولینس سروس میں زندگی بچانے کی سہولیات ہونی چاہئیں،اس میں تربیت یافتہ سٹاف ہونا چاہئے اور فوری طورپر ابتدائی طبی امداد فراہم کرسکے۔
ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صحت اور تعلیم کی معیاری سہولیات مفت مہیاکرے۔ اگرایسانہیں کیا جاسکتاتواس سلسلے میں ملک بھرمیں کام کرنے والے ٹرسٹس اورفاؤنڈیشنز کی مدد کی جائے۔ اگر فاؤنڈیشن اورٹرسٹ اس امداد سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیں تو حکومت کو مداخلت کرنی چاہئے اوراس بات کویقینی بناناچاہئے کہ خیراتی کام کی آڑ میں ذاتی کاروبارنہ چمکائے جائیں۔ مارکیٹ فورسز دیگرکئی شعبوں میں مؤثررہی ہیں۔ لیکن اگروہ اپنے طورپر صحت اور تعلیم کے شعبے میں کام کریں اور شہریوں کوصاف پانی مہیاکریں تو ان کو ریگولیٹ کیا جاناچاہئے۔
بہت سے ترقیاتی اور ویلفیئرپروجیکٹس بین الاقوامی ڈونرز کی مدد کے باوجود اس لئے ناکام ہوجاتے ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرناچاہتے ہیں۔ ترقیاتی اور فلاح کے کام کے لئے بہت ارتکاز چاہئے۔ اگر یہ حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی تومنصوبے ناکام ہوجاتے ہیں اورلوگوں کی آزمائشیں ختم نہیں ہوتیں۔ امن فاؤنڈیشن،چھیپا،ایدھی اوردیگرتنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئےاورساتھی ہیں مستقل بنیادوں پر ان کی کارگزاری پربھی نظررکھی جانی چاہئے۔
بشکریہ:دی نیوز
ترجمہ : محمد فاروق سپرا