آئی ایم ایف سے؟۔۔۔۔۔ ڈاکٹرفرخ سلیم
اقتصادی سرگرمی اوربے یقینی باہم مربوط ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کارغیریقینی ہیں۔ ہمارے غیرملکی ادھاردینے والے جنہوں نے ہمیں 100ارب ڈالرکے پاس رقم دی،غیریقینی ہیں۔ غیریقینی وہ صورتحال ہے جس میں نامکمل یا انجانی معلومات ہوتی ہیں۔ کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یانہیں؟ غیریقینی محدودمعلومات کی کیفیت ہے۔ غیریقینی وہ کیفیت ہے جہاں موجودہ حالت اور مستقبل کے نتیجے کے بارے میں حتمی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں؟ کیاہمارے پاس کوئی متبادل حکمت عملی ہے؟
غیریقینی کی کیفیت بالکل خطرے جیسی کیفیت نہیں۔ خطرہ وہ مقام ہے جہاں ہرنتیجے کے ساتھ ایک مخصوص امکان ہوتاہے۔ غیریقینی کی حدکااندازہ نہیں جبکہ خطرے کی حدکااندازہ کیا جاسکتاہے۔ کاروباری فیصلہ سازی میں غیریقینی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور بے یقینی معیشت میں مخصوص حقیقت ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار خطرے سے نمٹ سکتے ہیں لیکن غیریقینی کی کیفیت کاروبارکے لئے انتہاکی خطرناک ہے۔ غیرملکی ساہوکار خطرات کاانتظام کرتے ہیں مگربے یقینی بری پالیسی ہےجوپاکستان کے لئے ٹھیک نہیں۔
ریڈالرٹ: آنے والے بارہ مہینوں میں ہماری بنیادی خارجی معیشت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے26ارب ڈالردرکارہیں۔ 2022تک ہماری خارجی معاشی ضروریات45ارب ڈالرہوجائیں گی۔ کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یانہی پاس کوئی متبادل حکمت عملی ہے یانہیں؟ غیریقینی کی کیفیت پاکستان میں معیشت سے متعلق فیصلہ سازی پرمنفی اثرات ڈال رہی ہے۔ غیریقینی کی کیفیتپاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی رفتارمیں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ غیریقینی پاکستان کو معاشی سرمایہ کاری کی بجائے پیسوں کے ڈھیرکی طرف لے کرجارہی ہے۔یادکیجئے! پی ٹی آئی نے50لاکھ گھر بنانے اور ایک کروڑ اضافی نوکریاں پیدا کرنے کادعویٰ کیاتھا۔ پاکستانی اور غیرملکی سرمایہ کارغیریقینی کی کیفیت ختم ہونے کاانتظار کررہے ہیں۔ کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یانہیں؟کیاہمارے پاس کوئی متبادل حکمت عملی ہے یانہیں؟ یقین کی فضا پیدا ہونے تک سرمایہ کاری کی قیمت کے مواقع میں رائے کی اہمیت کاانتظارکرناہوگا۔ سرمایہ کارانتظارکرواوردیکھوکی کیفیت میں جاچکے ہیں۔
ملکی سرمایہ کارپیچھے رہ کر سرمایہ کاری کرنے سے متعلق سوچ رہے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کاراس وقت تک پیسہ نہیں لگائیں گے جب تک معاشی بے یقینی کی سطح نیچے نہیں آتی۔ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران غیرملکی سرمایہ کاروں نے پاکستانی اسٹاک ایکسچینج میں 300ملین ڈالر نکال لئے ہیں۔ غیریقینی کی کیفیت پاکستان کوزخمی کررہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو سیاسی اپوزیشن کابہت کم سامناہے۔ نوازشریف کوعدالتی کیسز کاسامناہے(وہ صرف ضمانت پرباہرہیں)۔ شہبازشریف کوبھی بدعنوانی کے الزامات کاسامناہے۔ آصف زرداری منی لانڈرنگ کے انتہائی سنگین الزامات میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس اقتصادی محاذپرکارکردگی دکھانے کابہترین موقع ہے تاہم بے یقینی اس محاذ پرسب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے۔ ہم موجودہ اکاؤنٹ خسارے کوکس طرح ختم کریں گے؟ ہم بیرونی خسارے سے کیسے نمٹیں گے؟ روپے ڈالرکی مساوات کیسے ہوگی؟ مالیاتی تنگی اورکسی کوترغیب دلانے کی شرح کیاہوگی؟ کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یانہیں؟ اگرہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جارہے توایسے میں ہماری متبادل پالیسی کیاہے؟
یہ بات تویقینی ہے کہ لوٹی گئی دولت کی واپسی معاشی حکمت عملی کامتبادل نہیں ہوسکتی۔ کرپشن کے خلاف چلائی گئی مہم اور معاشی حکمت عملی برابری کی سطح پراورہرایک کے لئے ہونی چاہئے۔
اس وقت سیاسی بے یقینی مسئلہ نہیں۔ اس وقت مسئلہ اقتصادی پالیسی کی بے یقینی ہے۔ معاشی بے یقینی ختم کرنے کے لئے وزارت خزانہ کیا کرے گی؟کیاہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یانہیں؟کیاہمارے پاس کوئی متبادل حکمت عملی ہے؟