تعلیم کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عنایت علی
دنیانئی دنیاؤں کی تلاش میں ہے۔ زمین جیسے دیگرسیارے تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں جیسے کہ کیپلر10بی۔ ہرنئے دن نئی پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے۔ تعلیم یافتہ ممالک نئی دنیاؤں،نئی دریافتوں کی تلاش میں ہیں۔ تاہم ہم اب بھی خوراک اور امداد کی تلاش میں ہیں۔ وہ سوچنے کے لیے محرکانہ طورپر خوراک کے متلاشی ہیں اور ہم پوری تحریک کے ساتھ خوراک کی تلاش میں ہیں جبکہ ہماری30فیصد آبادی ابھی تک زندگی کے امکانات کےلیے ہاتھ پیرماررہی ہے۔ خوراک کے لیے جدوجہد اور خوراک اکٹھی کرنا ہمارے معاشرے میں ابھی تک ایک بڑاکام ہے۔ جس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ثقافتی،معاشرتی،ماحولیاتی،معاشی اور سیاسی وجوہات شامل ہیں۔ تاہم مؤخرالذکردوبڑی وجوہات ہیں۔ ہم یہ سلسلہ کیسے ختم کرسکتے ہیں جس میں ہماری زندگی خوراک کے ہاتھ پاؤں مارنے میں گزررہی ہو اور ہم اس تلاش سے آگے سوچ سکیں؟ اس کے لیے تعلیم آخری امید اور مستقل حل ہے۔ تاہم ہمارے ملک کی تاریخ پرنظردوڑائی جائے توتعلیم حکومتوں کی بنیادی ترجیح کبھی بھی نہیں رہی۔ تعلیم کواکثرحکومتوں نے نظرانداز کیا ہے ایسا کرنے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن میں فتح کے لئے تعلیم کوترجیح بنانے کانعرہ لگایا۔ عملی طورپر اس جماعت نے مؤقف اپنایا کہ جی ڈی پی کی شرح2.1سے بڑھ کر5فیصدتک پہنچے تو تعلیم کے نظام میں ڈرامائی بہتری آئے گی۔ عملاً دیکھنے میں آیا ہے کہ پی ٹی آئی نے جی ڈی پی کا بمشکل تین فیصد ہی مختص کیا۔ اس سال کا بجٹ جی ڈی پی کا 2.4ہے۔ ایک اخباری رپورٹ میں صباسرورنے جائزہ لیا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ بجٹ میں ڈھانچہ جاتی ساخت میں1.76فیصد کمی کی۔مسلم لیگ ن کے سابقہ دورمیں اس کمی کی شرح0.87فیصدتھی۔ اعدادوشمارصفرسے شروع ہوتے ہیں مگریہ روپوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اسی طرح یہ ایڈجسٹمنٹ موجودہ حکومت کی ایڈجسٹمنٹ کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔ اس طرح کی ڈھانچہ جاتی ایڈجسٹمنٹ منفی اثرات اور تعلیم کی صورتحال کے مخدوش مستقبل کاپتہ دیتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے اعدادوشمارپہلے ہی خوفناک ہیں۔ لیبرفورس کے 2017اور2018کے سروے کے مطابق موجودہ قومی شرح خواندگی60فیصدہے۔ یواین ڈی پی کے 2018کاسروے بتاتا ہے کہ پاکستان189ممالک میں سے 150ویں نمبرپرہے۔ علاقائی صورتحال کاجائزہ لیا جائے توصرف افغانستان پاکستان سے پیچھے کھڑانظرآتاہے۔ یہ اعدادوشمار بنیادی طورپر علاقے میں جنسی معاملے میں مختلف ہیں۔ یہ اعدادوشمارت اندازے سے بہت کم ہیں جبکہ خواندگی کی تعریف انفرادی طورپر لکھائی اورپڑھائی سے زیادہ نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کاایک سال پوراہونے پر بہت سی حدود اور اورعوامل کے درمیان فرق موجود ہے۔ بجٹ پی ٹی آئی کے دعوؤں اورعمل کے درمیان فرق کاپتہ دیتاہے جوبہت بڑے دعوے کرتی ہے۔ شاندارآئیڈیاز اور حکمت عمل کے اعدوشماربہت پیش کیے گئے اور نعرے توبہت لگائے گئے مگرعملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ مخصوص افراد(یعنی شہری جوسیاستدانوں کاانتخاب کرتے ہیں)نے ملک کی مساوات میں بہت بڑی تبدیلیوں کی توقع کی تھی۔ تاہم یہ مقصد ابھی تک توحاصل نہیں کیا جاسکا۔ ملک کودرپیش چیلنجز سے نمٹاایک بہت بڑاکام ہے۔ تحریک انصاف نے جب اقتدارسنبھالاتوملک بہت نازک حالات سے گزررہاتھا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کوالیکشن سے پہلے اورالیکشن کے دوران اس ملک کی صورتحال کاعلم تھا۔ مگرپی ٹی آئی بہت زیادہ خوش فہمی کاشکارہوگئی۔ پارٹی نے ایسے مقاصد ظاہرکئے جس سے سیاسی طورپرزخمی لوگوں نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیں اور عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ لیا۔ پی ٹی آئی کاسابقہ حکومتوں سے تقابل بے وقوفی ہوگی کیونکہ اس نے باقی سب جماعتوں کو انتہائی کرپٹ قراردے کر اپنی حیثیت ہی الگ کرلی تھی۔ جس کی وجہ یہ ہے یہ انصاف نہیں ہوگا کہ ایسے موازنے کئے جائیں بلکہ پارٹی نے جودعوے کیے ان کے مطابق اس کاموازنہ دنیا کی بہترین حکومتوں سے بنتاہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کاایک سال مکمل ہونے پر اس کے قول وفعل میں بہت بڑافرق نظرآرہاہے۔ کیے گئے بہت بڑے دعوے کسی حدتک تحریک انصاف کی حکومت کو تنگ کرتے نظرآتے ہیں۔ ان کے وعدوں اور دعوؤں کودیکھتے ہوئے کسی نے بجاکہا کہ سوچنے کاوقت گزرگیا اور عمل کرنے کاوقت آگیا۔ حکومت کے سامنے ابھی چارسال پڑے ہیں اسے چاہئے کہ حقیق اہداف کاتعین کرے اور جہاں تک ہوسکے ان کاحصول ممکن بنائے۔ ایک عظیم تبدیلی ہوگی اگرخاص طورپرقراردیا جاسکے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے 80فیصدوعدے بھی پورے کرنے میں کامیاب ہوجائےخاص طورپر چھ نکالی تعلیمی منصوبہ،یکساں نظام تعلیم،گورننس کی تجدیدنو،فنڈز میں ڈرامائی اضافہ، جی ڈی پی2.1فیصد سے بڑھا کراسے5فیصدتک کرنے کاوعدہ،تعلیم بالغاں ،اساتذہ کی تربیت اور انفارمیشن اینڈٹیکنالوجی میں ربط کے وعدے پورے کرلے تو۔ پارٹی اچھی طرح جانتی ہے ہے کہ کمزورگورننس غریبوں کومتاثرکرتی اورغریبوں پراثراندازہوتی ہے۔ مستقبل میں ہمارے معاشرے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مشکلات شدید ہوجائیں گی ان کے لئے جوغربت کی زندگی بسرکررہے ہیں۔ اشرافیہ،سیاستدان ابھی تک عیاشی کررہے ہیں۔ سیاسی عزائم اور بصیرت میں تبدیلی ہمارے تعلیمی نظام اور ملک کوتبدیل کرسکتاہے۔ تاہم پی ٹی آئی کوآخرکاراپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے؟ہمیں اس حکومت کوبرداشت کرنا ہوگا اورہمیں اس کاتجربہ کرناہوگا۔
مصنف یونیورسٹی آف ورجینیا آسٹریامیں پی ایچ سکالرہیں۔
ترجمہ: محمدفاروق سپرا