جب کوئی بات بگڑ جائے!
عمار شاہ
رات گئے تنہائی سے تنگ یوٹیوب پر گانے سن رہا تھا کہ ونود کھنہ کی انیس سو نوے کی فلم ’’جُرم‘‘ کا یہ گانا ’’جب کوئی بات بگڑ جائے‘‘ سامنے آ گیا۔ مجھےفلم کا نام معلوم نہ تھا مگر یہ گانا اپنے وقت میں اتنا مقبول ہوا تھا کہ سینکڑوں مرتبہ چائے خانوں ، پبلک ٹرانسپورٹ اور مخلتف گھروں میں سن رکھا تھا۔گانا اچھا ہونے کے باوجود مرضی سے بہت کم اس لیے سُنا کہ اسے ان دنوں ہر دوسرا بندہ اور بندی سن رہی تھی۔ آپ کوئی گانا زیادہ سن لیں یا وہ زیادہ عام ہو جائے تو وہ آپکی دلچسپی کا مرکز نہیں رہتا۔ یہ بھی ایک خاص طرح کی انسانی نفسیات ہے۔ چناچہ گانے کی مقبولیے کے باوجود اس زمانے میں یہ فلم بھی نہ دیکھی۔ رات جب ایک مدت کے بعد تنہائی میں یہ پلے کیا تو بہت بھلا لگا۔ نو عمری کے دن یاد آ گئے۔ ونود کھنہ میرا فیورٹ ہیرو ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں بہت ہی ہینڈسم اور خوبروانسان تھا۔ اس نے ایک عرصہ بالی ووڈ انڈسٹری کو خیرباد کیے رکھا ۔ شاید امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ اگر میں غلط نہیں تو یہ شاید اس کی بالی ووڈ میں (کم بیک) واپسی کے بعد پہلی فلم تھی۔ دوسری طرف فلم کی ہیروئین میناکشی میرا’’کرش‘‘ تھی۔ونود کھنہ کوتو شاید اگنور کر جاتا مگر میناکشی کی خوبصورتی اگنور نہ ہو سکی۔سو یوٹیوب سے گوگل پر گیا اور گانے کے بول لکھ کر فلم کا نام سرچ کیا اور جب نام سامنے آ گیا تو یوٹیوب پر ہی فلم کا نام اور فل مووی لکھ کر سرچ کیا توفلم سامنے آ گئی۔کس نے سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بنا وڈیو فلم لیے مفت میں فلم دیکھی جا سکے گی؟ خیر فراغت تھی اور جوانی کے احساس کو زندہ کرنے کے لیے اپنے نوعمری کے کرش کو پھر سے دیکھنے کی خواہش بھی تھی،چناچہ رات کی خاموشی میں پوری توجہ سےبھرپور مزہ لیکر فلم انجوائے کی ۔ کچھ روایتی کمرشل باتوں کے علاوہ یہ ایک بہترین فیملی ڈرامہ فلم تھی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک روایتی پولیس انسپکٹر جس نے محبت کی شادی کر رکھی ہوتی ہے وہ ایک ایسے کیس میں الجھ جاتا ہے کہ جس میں اسے امریکہ سے آئی ایک دلفریب حسینہ کی حفاظت اس لیے کرنی پڑتی جاتی ہے کہ وہ ایک ہائی پروفائل مرڈر کیس کی چشم دید گواہ ہے اور اسے کیس حل ہونے تک روک لیا گیا ہے۔ ایک دن حسینہ پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے اور وہ ڈر کے مارے اپنے ہوش کھو کر چلانا شروع کر دیتی ہے۔ انسپکٹر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اس وقت شدید ہیجان کا شکار ہوتی ہے ۔وہ اسے اس اچانک خوف اور پاگل پن کے دورے سے نکالنے کےلیے اس کے منہ پر زور کا تھپڑ مار دیتا ہے ۔اور پھر شاید اسی گلٹ میں کہ اس نے ایک مظلوم خوفزدہ عورت پر کہ جو صرف ایک واردات کی گواہ ہے اور پولیس کی مدد کی خاطر وہاں رُکی ہوئی ہے،اُسے گلے سے لگا لیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں کو ایک نیا دورہ پڑتا ہے اور وہ اپنا سیلف کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ اس واقعہ کے اگلی صبح ہی ہیرو کواپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ سائڈ ہیروئن یعنی حسینہ کو فون کر کے کہتا ہے کہ وہ ہیپی لی میرڈہے ۔اور رات جو کچھ بھی ہوا اسے وہ دونوں کی غلطی سمجھ کر بھول جائے۔مگر اسکے باوجود وہ اپنا گلٹ اپنی بیوی سے نہیں چھپا پاتا اور جب بیوی اس کو بدلا ،بدلا اور کنفیوز ڈپاتی ہے تو ایک عورت کی طرح یہ بھانپ لیتی ہے کہ کچھ اس سے غلطہ ہے جو یہاس کے سامنےنروس دِکھ رہا ہے۔ وہ اس سے پوچھتی ہے کہ تم نے کچھ غلط کیا ہے؟اورپھر مرد جھوٹ نہیں بول پاتا۔یقیناً ایک اچھا صاف ستھرا مرد جسےکوئی جنسی بیماری لاحق نہیں ہے وہ یہی کر سکتا ہے۔مگر بیوی بھی اسے فوری طور پر معاف نہیں کر پاتی کہ وہ محض اسکا شوہر ہی نہیں عاشق بھی تھا۔
نفسیات کے حوالے سے فلم اسقدر اعلی معیار کی ہے کہ اگر آپ اس میں سے بے وجہ طوالت کے حامل فائٹ سین، کچھ فالتو جملے اور کمزور ڈائریکشن پر مبنی لمبے بالوں والی پولیس مائنس کر دیں تو یہ شاید نسیر الدین شاہ کی فلم’’ اجازت‘‘ کے برابر ماسٹر پیس ثابت ہوتی اور اسے انڈین سیمی کمرشل سینیما کی کلاسک موویز میں شمار کیا جاتا۔ ٹائٹل سانگ خواتین اور مردوں (خاص طور پر انگیجڈ یا شادی شدہ)میں یکساں مقبول تھا اور آج بھی یہ گانا اکثر پاکستانی اور ہندی ٹی وی شوز اور ڈراموں میں بنا کاپی رائٹس استعمال کیا جاتا ہے۔ فلم کی کہانی میں سب سے زیادہ جو دو باتیں مرد اور عورت کی نفسیات کے حوالے سےقابل ِتوجہ ہیں وہ یہ ہیں کہ مرد اپنی بیوی سے کتنا بھی کمٹیٹد اور شریف کیوں نہ ہو اسے پھسلتے دیر نہیں لگتی اور محبت کرنے والی عورت مرد سے بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کرنا پسند کرتی ہے۔ بطور ایک روایتی مرد میرے لیے کم از کم یہ بڑی مثبت فکرتھی، مگر جانتا ہوںشاید میری فیمنسٹ خواتین ساتھیوں کو میری اس بات شدید اعتراض ہوگا۔ بہر حال یہ ایک اہم نقطہ ہے جس پر الگ سے طویل بحث ممکن ہے۔ سو ،توجہ فلم پر مرکوز رکھتے ہوئے محض مرد کی پھسلن والی نیچر کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی مرد جب پھسلتا ہے تو اسکے پیچھے دو طرح کے ہی محرکات ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر مرد ہوہی حُسن پرست فطرت کا تو اسکی آنکھ خوبصورتی سے ایک بار خیرہ ضرور ہوگی۔ اور اگر وہ کچھ مضبوط کردار کا حامل ہوگا اور خود پر قابو رکھنے کا اہل ہوگا تو ہی وہ اپنی اس فطری کمزوری کو کنٹرول کر پائے گا۔ لیکن اگر خاتون نے ہی دعوت دے ڈالی یا سڈیوس کرنے کی کوشش کی تو پھر بیچارہ کدھر جائے گا؟ ممکن ہے کوئی مرد سڈیوس نہ ہو مگر یہ نارمل رجحان نہ ہوگا اور ایسے رویوں پر ہم عمرانی یا نفسیاتی بحث نہیں کر سکتے جو انتہائی نایاب ہوں۔عمرانی رویوں سے پرسنل لائف کی تاویل ، ڈانسنگ کار اور مدینہ کی ریاست کا سیاسی نعرہ یاد آ گیا۔ ابھی سوچ رہا ہوں کہ کیا تحریکِ انصاف والے لبرل دوست ڈانسنگ کار پر پولس ریڈ کو بھی زاتی زندگی میں مداخلت قرار دے سکیں گے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ پرسنل لائف کا آرگیومینٹ بھی ہمارے پاس مغرب ہی سے آیا ہے کہ جس پر ہم اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے وغیرہ جیسی اضافی تاویلیں بھی حسبِ منشا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اور ایسے میں ہم نکاح نامے کے ایک سادہ کاغز ایگریمینٹ کو اخلاقیات کے آخری نمونے کے طور پر پیش کر کے خود کو مغرب کے آزاد معاشروں سے اوپرلے جاتےہیں۔مگر کسی کے گھر جانا اور اسکی بیوی پر نظر رکھنی؟ خیر چھوڑئیے اس پرانے قصے کو بھی کہ یہ بھی جمہوری طور پر ہمارے ہی معاشرے کی اکثریت کے نزدیک درست ثابت ہو چکا کہ یہ کوئی عیب نہیں۔ شاید قوم کی ایک کثیر تعداد اسے قطاً برا نہیں جانتی۔ یعنی برُا جانتی تو الیکشن کیوں جتواتی؟ہمارا معاشرہ در اصل ڈھیر سارے تضادات کے ساتھ زندہے اور اکثر جگہوں پر اپنے ہی معیاری ، مثالی، اخلاقی، سماجی مکالمے کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔مرد عورت کو، عورت مرد کو دھوکا دیتی ہے، ہمارے منافق معاشرے کی نظر میں اخلاقی اور قانونی جرم وہ جو نظر آ جائے، باقی سب آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل!
عمار شاہ