Breaking News
Home / Columns / چوہدری مقتدر قوتوں کا ماسٹر سٹروک تھا!

چوہدری مقتدر قوتوں کا ماسٹر سٹروک تھا!

Amaar kazmi

چوہدری مقتدر قوتوں کا ماسٹر سٹروک تھا!

عمار کاظمی

آج جب پیچھے مڑ کر وکلا تحریک کی طرف دیکھنے کے بعد  جب ملک کے معروضی حالات دیکھتا ہوں  تو ہمیشہ کیطرح  کسی کا دل رکھے بغیر  بنا کسی لگی لپٹی کےکہہ سکتا ہوں کہ ’’افتخار چوہدری کا ساتھ دینے والا ہر شخص احمق، مشکوک یا پھر مجرم تھا‘‘ اور’’افتخار چوہدری اسٹیبلشمنٹ کا ماسٹر سٹروک تھا‘‘۔ ایک بات جو ہمیشہ  سوال یا جواب کی شکل میں رقم کرتا چلا آیا وہ  نوے کی دھائی کی مدت پوری نہ کرنے والی  جمہوری حکومتوں  اور آئنی مدت پوری کرنے والی گزشتہ دو حکومتوں سے متعلق  کچھ اس طرح تھی کہ ’’نوے کی دھائی کی مُدت نہ پوری کر سکنے والی  جمہوریت زیادہ با اختیار تھی یا آج مدت پوری کرنے والی ؟میرا مؤقف ہمیشہ یہی رہا کہ نوے کی دھائی کی جمہوریت مفاہمت کی لولی لنگڑی اپاہج جمہوریت سے بہتر اور زیادہ با اختیار تھی۔اور یہ کہ حکومتوں کے جمہوری مدت پوری کرنے سے ہم  آگے نہیں بلکہ پیچھےگئے ہیں، اس سے جمہوریت مضبوط نہیں کمزور ہوئی ہے، مفاہمت کے نام پر جھکاؤ سےسولین بالا دستی  مضبوط ہونے کی بجائے کمپرومائزہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ  آج ہم مارشل لا ادوار سے بھی پیچھے جا چکے ہیں۔ اور سچ تو یہ بھی  ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ خاص طور پر مسلم لیگ نواز کی  کمزور دانش قیادت  اسٹیبلشمنٹ کے تھنک ٹینکس کے  ماسٹر سٹروک کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہی۔اور یہاں نا چاہتے ہوئے بھی آپکو زرداری کی سیاسی فہم کی داد دینی پڑ ہی جاتی ہے کہ صرف وہی تھا کہ جو افتخار چوہدری کی بحالی کے خلاف بات کر رہا تھا۔ بلا شبہ زرداری وہ نا پسندیدہ ترین(بطفیل میڈیا) شخصیت ہے کہ جس نے اپنے نا پسندیدہ ہونے کے باوجود کسی حد تک اپنی سیاسی فہم کوتاریخ میں رقم کروایا ۔البتہ اسکی مفاہمت کی سیاست اور پانچ برس پورے کرنے کی ڈاکٹرائن بہر حال پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری طرف یہ آدھی فہم بھی موجود نہیں تھی۔نواز لیگ نے جیسے روزے دار کی طرح عین آخری وقت تک حکومت نہیں چھوڑی اس سے یہی ثابت ہوا کہ وہ بھی مدت پوری کرنے کی زرداری ڈاکٹرائن پر یقین رکھتی تھی۔ایک پرانی مِتھ تھی جو ہمارے ہاں ہمیشہ سے چلی آ رہی تھی کہ ’’دو تین الیکشن ہو جائیں تو فوج کا کردار جمہوریت سے نکل جائے گا، جمہوریت مضبوط ہو جائے گی، زیادہ معیاری لیڈر شپ سامنے آنے لگے گی‘‘۔ معیاری لیڈر شپ کیبارے تو وقت سے پہلے کیا کہیں ممکن ہے  مشکل حالات میں کوئی ایک ایسا مضبوط لیڈر  پیدا ہو بھی جائے جو یہ بیک گئیر اور ساری لیٹ نکال دے۔ مگر پہلی دو باتوں کا کیا؟کیا آپ نے  فوج کا کردارکم کر لیا؟کیا جمہوریت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی؟ دونوں باتیں سو فیصد غلط ثابت ہوئیں۔اپنی آئنی مدت پوری نہ کرسکنے والی کمزور جمہوریت اپاہج جمہوریت بن چکی۔گویا عمر بڑھ گئی ساتھ سزا کے۔  بنا کسی وژنری قیادت اوردانشورانہ  مزاحمت کے گزرنے والے وقت نے آپ کو وہاں لا کھڑا کیا کہ جہاں آپ فوج پر الزام دھرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز بھی کھو بیٹھے۔ جی ہاں آج آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ قانونی طور پر کبھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ فوج نے نواز شریف کواقتدار سے الگ کیا۔ تھنک ٹینکس نے جو ماسٹر سٹروک کھیلا وہ آپ سمجھ ہی نہیں سکے۔ آپ میں اتنا شعور، اتنی فہم ،اتنی فراصت تھی ہی نہیں کہ آپ اس  کی گہرائی میں جھانک سکتے۔وہ آپ ہی کے ہاتھ سے آپ کی قبر کھدواتے رہے اور آپ عقل ، فہم فراصت،  دور اندیشی سے  عاری بےشعور لوگ  افتخار چوہدری، یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ایک معمولی مہرے کے نعرے مارتے رہے۔ آج جو بابا رحمتے کا مزاق بنا کر  دیوار پر ٹکریں مار کرغصہ نکال رہے ہیں اگر کل انھوں نے یہی مزاق افتخار چوہدری کا بنایا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ میاں محمد نواز شریف صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں کہیں کوئی ہمدردی کا پہلوتو نکل سکتا ہے مگراُنکے اقتدار یا لیڈرشپ کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں۔وکلا تحریک پاکستان کی سیاسی سماجی  تاریخ  کا وہ سیاہ باب تھا کہ جس میں نہ صرف قوم کی اکثریت نے خود کو بیوقوف ثابت کیا بلکہ  نام نہاد حریت پسند دانشور سمجھے جانے والے لوگ بھی اس کے طفیل کمال احمق ثابت ہوئے۔ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا کہ بہت سے لوگوں کی دانشوری اور منہ زور ی کا فرق واضع ہو گیا۔انتہائی ادب احترام مگر معذرت کے ساتھ مرحومہ مغفورہ محترمہ عاصمہ  جہانگیر صاحبہ سے لے کر،  چوہدری اعتزاز احسن ،علی احمد کرد اور وکلا کمیونٹی سے لیکرشاعر ادیب صحافی اورسول ساسائٹی تک سب کی دانش اور دور اندیشی عیاں ہوگئی۔جرنیل کو مار گرانے کا چارہ اکثریت نے بنا سوچے سمجھے کھایا اور پھر بابا رحمتا آیا (کیا خوب قافیہ ملا ہے کہ گویا رات کے اس پہر آمد ہو رہی ہے)۔بابا جی پر اعتراضات کیا اُٹھتے کہ مولوی مشتاق کی ابتر ساکھ والی ضیائی عدلیہ کی ساکھ کو جسٹس چوہدری  کو لانے اور مشرف اور پھر زرداری حکومت کو گرانے کی خاطر اکثریت کی نظر میں بہترین بنا دیا گیا۔ چیف تیرے جانثار کا نعرہ جسٹس چوہدری کے خلاف ہر جائز ناجائز بات پر ایسے لگا کہ معاز اللہ کسی برگزیدہ ہستی کی شان میں گستاخی ہو گئی۔’’جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا ہے، اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو‘‘ فراز نے بھی کیا زندہ شعر لکھ دیا تھا کہ ایسی یاداشتوں  پر ہمیشہ زخم ہرے کرنے کویاد آ جاتا ہے ۔بلا شبہ افتخار چوہدری  پاکستان کی حالیہ  جمہوری تاریخ کا کینسر تھا اور اسکے تمام حمایتی بلا تفریق اس کینسر کا سبب ۔’’ہم بھٹک کر جنوں کی راہوں میں، عقل سے انتقام لیتے ہیں۔۔۔ جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں‘‘۔یہ غزل بھی مزاج بن گئی  ہے ہماری قوم کا۔

کل جب پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کو جانوروں کی طرح  مارا پیٹا گیا  تو یہی ذہن میں آیا کہ ایسی جمہوریت بھی کیا مارشل لا سے بہتر ہوتی ہے؟تیس پینتیس ہزار کی قسطوں والی موٹر بائیک پر ہیلمٹ کی شرط، خلاف ورزی پر دو ہزار سے پچیس سو تک جرمانے، پینتیس ہزار کی بائیک کی رجسٹریشن فیس پینتیس سو سے بڑھا کر پانچ ہزار کرنا،  یوٹیلٹی سٹورز کی سستی عوامی سہولت کا قریب المرگ ہونا ،ہر دوسری شے کا مہنگا ہونا، کیا یہ سب کسی آمریت کے لیے آسان کام ہوتا؟  بلا شبہ یہ اسی ڈیزائن کا فیض ہے جو وکلا تحریک کی شکل میں قانون کی حکمرانی کے نام پر ہمارے سامنے آیا تھا۔آج صرف فوج ،  عدلیہ اور انکے حمایتیوں (جب تک  وہ رضا کاروں کی وردیوں میں انکے ساتھ ہیں) کو معصومین کا درجہ حاصل ہے۔ اور ان  کے علاوہ ہر ادارے اور سیاسی رہنماؤں پر گرفت کسی بھی آمریت سے زیادہ مضبوط ہے!

 

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *