ٹائم بم کی ٹِک ٹِک۔۔۔۔
عمارعلی جان
راقم الحروف ایف سی کالج لاہورمیں اسسٹنٹ پروفیسر اور حقوق خلق موومنٹ کے رکن ہیں
Email: ammarjan86@gmail.com
پیر25ستمبر کو یونیورسٹی آف سرگودھا(لاہورکیمپس) کے سینکڑوں طلبہ نے ڈگریاں جاری نہ کئے جانے پراحتجا کرتے ہوئے کینال روڈ کو بلاک کردیا۔ احتجاج کی وجہ سے شہرمیں گھنٹوں تک ٹریفک جام رہا۔ صرف طلبہ کے ساتھ ہونے والی بے انصاف کی وجہ سے تمام زندگیاں جامد ہوکررہ گئیں۔ کیا براہے کہ ان اداروں کے بارے میں حیران کن ردعمل سامنے آرہے ہیں جن کے بارے میں خیال ظاہرکیا جاتاہے کہ طلبہ کوپراعتماد اور تخلیقی شہربناتے ہیں۔
یونیورسٹی آف سرگودھا نےتعلیم کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حواصلہ افزائی کے لئے2000سے ایک پرائیویٹ گروپ کواجازت دے رکھی ہے کہ وہ لاہورمیں اپناکیمپس کھول لیں۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہواجب مین کیمپس اور اورسب کیمپس کے درمیان پیسے کے معاملے پراس وقت تنازع شروع ہواجب سب کیمپس کی جانب سے مین کیمپس کو خط لکھاگیا۔ تاہم جواباً مین کیمپس نے تمام واجب الادا واجبات کی ادائیگی کئے جانے تک طلبہ کو ڈگریاں جاری کرنے سے انکارکردیا۔ اس جواب سے طلبہ میں بے چینی پھیل گئی کیونکہ ان کاکیریئرڈگری حاصل کئے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتا۔ بالفاظ دیگراس معاشی جنگ کی قیمت طلبہ پرڈال دی گئی جوان کی اپنی وجہ سے نہیں تھی۔
سرگودھا یونیورسٹی کا کیس ایک مخصوص کیس ہے لیکن یہ ہائرایجوکیش سسٹ میں بڑے ڈھانچہ جاتی بحران کی نشاندہی کرتاہے۔ تعلیم کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ انویسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی کی پالیسی نے سب کیمپسز اور ڈگری کالجز کاپھیلاؤبڑھا دیا ہے تاکہ تعلیم کی طلب کوپوراکیا جاسکے۔ جبکہ پالیسیاں بنانے والوں نے نجی شعبے کی اہلیت پراندھااعتماد کیا ہےجس کی وجہ سے یہاں فیسوں کو معیارتوبہت زیادہ ہے لیکن دی جانے والی تعلیم اُس معیار کی نہیں کہ مقابلہ بازی کے لئے طالب علم پیداکرسکے۔ یونیورسٹی کے حکام اور اور ہائرایجوکیشن کمیشن کے حکام کی اقرباپروری،کرپشن اور جہالت کی وجہ سے ان کیمپسز کی پیداواری صلاحیت معیار سے کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی پالیسی سازی ہے جوگاہے بگاہےکیمپسز پرکریک ڈاؤن کرکے ان کے شعبے بند کردیتاہے۔
دوسال پہلے ہائرایجوکیشن کمیشن نے 79شعبے بند کردیئے تھے جن صرف پنجاب میں اب تعداد168تک جاپہنچی ہے۔ لیکن جس سنجیدہ انداز میں اداروں کو لائسنس دیئے جاتے ہیں اورپھرمنسوخ کئے جاتے ہیں(اکثرہائرایجوکیشن کمیشن کے غیرملکی ڈونرزکے دباؤ کے تحت) اس سے ہزاروں طلبہ کی زندگیاں بدنظمی کاشکارہوجاتی ہیں۔ جنہوں نے اپنی ڈگریاں مکمل کرلی ہیں انہیں صرف یہ کہاجاتاہے کہ ان کی سرکاری تصدیق کرائی جائے گی جس کی وجہ سے ان کی جاری پڑھائی میں تعطل آجاتاہے۔ ڈگری کی تصدیق ہونے تک وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ ہزاروں طلبہ کے وقت کایہ انجمادانہیں سڑکوں پرلے آتاہےکیونکہ ان کے پاس اپنے ردعمل کے اظہارکاصرف یہی ایک طریقہ رہ جاتاہے۔
ہائرایجوکیشن کمیشن کے حکام کاجواب ہوتاہے کہ وہ والدین کوباقاعدگی سے بلیک لسٹ ہونے والے شعبوں کے بارے میں الرٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان کو ان کے غلط اور غیرمستندہونے کے بارے میں بھی لکھتے رہتے ہیں۔ جیساکہ اوپروضاحت کی گئی ہے کہ ان میں سے بہت سے ادارے بہت برس تک کام کرتے رہے تب ان کو بلیک لسٹ کیاگیا۔ اس فیصلے میں دیرکی وجہ سے ہزاروں طلبہ کامستقبل خراب ہوا۔ ثانیاً یہ کہ یہ ادارے لگاتاراشتہاردیتے رہے اوربھرتیاں کرتے رہے اور اس بات پرتوجہ مرکوزرکھی کہ دیہی پسن منظروالے اورچھوٹے علاقوں سے آنے والے طلبہ کاکس طرح استحصال کیا جائے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کے الرٹس ان والدین تک کیوں نہیں پہنچ پاتے رہے جوعلم کے پیاسے ہوتے ہیں۔ اس جواب کا سب سے انوکھاپہلو یہ تھا کہ آبادی میں تعلیم کی ضرورت تک رسائی کیسے ممکن بنائے جائے اس کے لئے کوئی تجویز نہیں تھی۔
عام پس منظروالے ہزاروں طلبہ آج اس بات کے قائل ہیں کہ ہائرایجوکیشن کمیشن انہیں اوران کے خاندانوں کو معاشرتی تحریک کاموقع دے سکتاہے۔ بجائے اس کے کہ اس بات پرتوجہ مرکوزکی جائے کہ نوجوان شہریوں کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں ہائرایجوکیشن کمیشن کی توجہ اس بات پرمرکوز ہے کہ موجودہ اداروں پرشکنجہ کیسے کساجائے۔ جعلی اداروں کے خلاف لڑائی معیاری متبادل فراہم کئے بغیر نہیں جیتی جاسکتی بالکل ایسے ہی جیسے عطائیوں کے خلاف جنگ کوصحت کی بہترسہولیات فراہم کئے بغیرنہیں جیتی جاسکتی۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کاکوئی اقدام اس وقت تک بارآورثابت نہیں ہوسکتاجب تک بہترمتبادل کابندوبست نہیں کیا جاتا۔
آج کی نوجوان نسل کودرپیش چیلنج یہیں ختم نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ اگران کو معیاری تعلیم نہیں دی جاتی تویہ سوال ہمیشہ اپنی جگہ رہے گا کہ ان طالب علموں کو روزگارکے مواقع کہاں ملیں گے۔ ان میں سے بہت سے طالب علموں کی اپنے والدین کے نزدیک مشتہرکی گئی نوکریوں سے قابلیت زیادہ ہوتی ہے مگراصل میں وہ اس نوکری کی تعلیمی قابلیت کے حامل ہی نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں یہ مفلوج کردینے جانے کی کیفیت ہے جس میں مایوسی،شرم اور غصہ بھی شامل ہوجاتاہے اوریہ کیفیت نوجوانوں کی بہت بڑی کیفیت پرطاری ہورہی ہے۔ مسئلہ طالبات کے لئے زیادہ پیچیدہ ہےکیونکہ ان پر خاندان کی عزت کا زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتاہے اور انہیں لوگوں کی گھورتی نطروں کاسامنا کرناپڑتاہے۔
ہمارے سامنے متعددتضادات رکھے جاتے ہیں جن کے بارے میں فیصلے سے پہلے سوچناپڑتاہے کہ وہ کیسے باہم مربوط ہیں۔ بہت زیادہ طلب کافی تعداد میں تعلیمی اداروں کی فراہمی کے بغیرپوری نہیں ہوسکتی۔ جواب میں ان کی معیار ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیراورتعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کے بغیرپورانہیں کیاجاسکتا۔ اورطلبہ کو نوکریوں کے امکانات فراہم کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کو نمائشی نہیں جنگی بنیادوں پراستوارکیا جائے تاکہ معقول نوکریوں کابندوبست کیا جاسکے۔ بالفاظ دیگرنہ صرف تعلیمی اداروں کامعیار بہترکرنے کی ضرورت ہے بلکہ معاشی معاشرتی ڈھانچے اور نظریات کو بھی بہترکرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تضادات کاسامناہے۔
لیکن ہمارے ملک میں جولوگ ملکی معاملات کی کشتی کے ناخداہیں ان کے پاس ایسی پیچیدگیوں کے لئے وقت ہیں۔ بجائے اس کے کہ معیارتعلیم کوبہترکیا جائےوہ سوچتے ہیں کہ تعلیم اداروں میں پڑھنے والوں کے مزاج درست کئے جائیں۔ اختیارات کے اس استعمال کی تازہ ترین مثال یونیورسٹی آف پشاورمیں فیسوں میں350فیصد تک اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پرتشددہے۔ پولیس کی جانب سے طلبہ پرتشدداور پھرپانچ طلبہ کازخمی ہوکراسپتال پہنچ جانا اوربہت سوں کوگرفتارکرلیاجانا ریاست کے الجھاؤکی علامت ہے۔ صرف اس ایک واقعے پرریاست کاردعمل ظاہرکرتاہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پرمہنگائی بڑھنے سے لوگ سڑکوں پرآئے توان کے ساتھ ایساسلوک ہوسکتاہے۔
اس سلسلے میں شائدسب سے اذیت ناک واقعہ فیصلہ آباد میں پیش آیا جہاں ایک تعلیمی ادارے کے دروازکے سامنے ایک طالب علم نے انتظامیہ کے رویئے کے خلاف خود کشی کرلی۔ یہ سانحہ شرم اور دل شکنی کے احساس کی ایک علامت ہے جسے طلبہ کی بڑی تعداد محسوس کرتی ہے۔ خود کشی ناامیدی اور تنہائی کے احساس کی صورت میں کی جاتی ہے۔ لیکن نوجوانوں میں پایاجانے والا یہ غصہ زیادل ابل سکتاہے جیساکہ عرب سپرنگ کے دوران ہواجس کے نتیجے یں ایک غیر متوقع معاشرتی سیاسی انقلاب آیا۔
ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اپنے مستبقبل سے ناامید ہونے والا طالب علم ٹِک ٹِک کرتابم ہوتاہے جوکسی بھی معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتاہے۔ اور یہ فکرمندی کے لئےجواز ہے۔
بشکریہ: دی نیوز
ترجمہ: محمدفاروق سپرا