Breaking News
Home / Columns / محبِ وطن شہریوں کو دیوار سے مت لگائیں!

محبِ وطن شہریوں کو دیوار سے مت لگائیں!

Amaar kazmi

محبِ وطن شہریوں کو دیوار سے مت لگائیں!

عمار شاہ پنجابی

انصافی حکومت عوام کے لیے ایک عام فہم سا تقابل یہ چھوڑ رہی ہے کہ ایک ’’مہنگائی کا طوفان اور ریاستی جبر لانی والی حکومت کی نسبت مہنگائی نہ کرنے اور لا قانونیت میں ہلکی پھلکی چھوٹ دینے والی کرپٹ حکومت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے‘‘۔ سمجھ نہیں آتی ہم پر کونسی ایسی ایٹمی جنگ مسلط ہونے جا رہی تھی جو نواز لیگ کی طرف سے دو سال سے معطل اضافہ آتی ہی کرنا پڑا۔ یہ ڈجیٹل ایج اور پچپن نیوز چینلز کا پاکستان ہے۔  آج نہیں تو کل کوئی نہ کوئی پہلے دو ہزار آٹھ سے تیرہ تک کی قیمتوں اور پھر تیرہ سے اٹھارہ تک کی قیمتوں میں اضافے کا تقابل نکال کر سامنے رکھ دے گا اور پھر کسی عام شہری کو نقصانات سمجھانا یا کرپشن کا راگ بیچنا نا ممکن ہو جائے گا۔ کامن سینس سے اتنا عاری تو کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ جس کے ذہن میں یہ سوال نہ اٹھ سکے کہ ’’کرپشن والی حکومت کا زمانہ سستا اور اور کرپشن فری حکومت کا دور مہنگا کیوں ہے؟‘‘ میرا دوست رؤف کلاسرا میری اس سٹیٹمنٹ سے جتنا مرضی اختلاف کر لے مگر زمینی حقیقت اور عوامی مائنڈ سیٹ آئندہ آنے والے انتخابات میں انہی باتوں کی ترجمانی کرے گا۔ اور کرپشن سکینڈلز پر پروگرام کرنے والے میڈیا کی ساکھ بھی اس سے خراب ہوگی ہرچند کہ وہ اسکینڈلز سچے ہی کیوں نہ ہوں۔ برسوں سے معاشی بدحالی میں پسی غریب عوام نہ چند دن میں ٹریفک قوانین کی پابندی کر سکتی ہے نہ مہنگائی اور اپنی مردہ قوتِ خرید کے سامنے اخلاقیات کا درس سن سکتی ہے۔ جو کچھ ہو رہا اس سب کے نتائج کیا برامد ہونگے دوست اس پر توجہ غیر ضروری سمجھ رہے ہیں۔ ایک طرح سے تحریک انصاف کی حکمتِ عملی سے لوگوں کو لاقانونیت اور کرپشن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انکے اینگرو کے چیمپئین معاشی ماہر کی قابلیت تو ہم نے دیکھ لی مگر اُمید ہے اتنی بڑی جماعت میں کوئی ڈھنگ کا ماہرِ نفسیات اور سماجیات ضرور ہوگا جو انکو یہ سب سمجھا سکے کہ انکے اقدامات سے کس طرح کی ذہن سازی ہونے جا رہیے ہے۔

ایک اور اہم بات جو اس وقت تحریکِ انصاف کے سپورٹرز اور فوج عدلیہ سمیت ہر کسی کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو اسکا سیدھا اور باقاعدہ مطلب ریاست کی ناکامی شمار ہو گا جو اس سے پہلے یہ معنی اس لیے بھی نہیں رکھتا تھا کہ سب قصور جمہوری حکومت اور سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈل جاتا۔ جبکہ یہاں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں تقریباً ہر ریاستی ادارے کے خلاف معروف بیانیہ پہلے سے موجود ہے کہ عمران کو حکومت ریاستی اداروں کی حمایت کی وجہ سے ملی۔اور اسکا نتیجہ کیا نکلے گا، ردِعمل کیا ہوگا؟ وہی جو لاہور کی سڑکوں پر آجکل نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کو سمجھ آئے گا کہ شہباز شریف تو محض سیاسی مخالفت کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن آپریشن پر ملزم بنا مگر یہ ہر خاص و عام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔اور لاٹھی کونسی؟ بدنامِ زمانہ پنجاب پولیس کی۔ یعنی ’’چھاننی وی اوہ جندے وچ سو چھید‘‘۔جن سے قانون کی پاسداری کروا رہے ہو کیا تم نے انکی کرپشن کا حساب کر لیا؟ کیا تم نے پولیس کے محکمے میں مطلوبہ ریفارمز کر لیں؟ کیا وہ محض تمھارے قدمِ مبارک رکھنے سے ہی پاکیزہ ہو گیا؟ احمق ہو تم، بڑی غلط فہمی کا شکا ہو۔تم جو کر رہے ہوخاص طور پر لاہوریوں کے ساتھ اس کے نتائج کا تمھیں قطعی اندازہ نہیں۔ لاہوری وہ قوم ہے جو جنیونیوں کی طرح منہ پر، موٹر سائیکلوں پر ، گاڑیوں پر سبز جھنڈے  پرچم  لگائے اور بنائے چودہ اگست کو فیملیز کے ساتھ شاہراہوں پر ہوتی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں سٹریٹ کرائمز یا ڈکیتی چوری کی وارداتیں تو ضرور ہوتی ہیں مگر کبھی یہاں منظم قسم کی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی، یہ بھی درست ہے کہ یہاں کبھی کوئی کراچی جیسا آپریشن نہیں ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور نے کبھی ایسا موقعہ بھی نہیں دیا کہ لاہور جناح پور یا سندھو دیش کیطرح یہاں گریٹر پنجاب ا نعرہ لگائے۔ لاہوریوں کی پاکستان سے محبت کا یقیناً ناجائز فائدہ اور غلط مطلب نکالا جا رہا ہے ۔ ایسا کرنے والے لاہوریوں کو بہت زیادہ انڈر اسٹیمیٹ بھی کر رہے ہیں اور بس یہی ایک خطرناک پہلو بھی ہے۔مانا کہ لاہوریوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد اپنے شہر کے لیڈر نواز شریف کے لیے بھی کوئی بڑی مزاحمت شو نہیں کی  مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں پر بسنے والی قوم بزدل یاریاست اور ریاستی اداروں سے خوفزدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اپنے مزاج میں دنیا کی عجیب و غریب قوم ہے۔ یہ گزار دے تو ہاتھی گزار دے اور روکنے پر آئے تو دم سے پکڑ کر پورا ہاتھی واپس لے آئے۔ ابھی جو تماشہ لاہور کی سڑکوں پر شروع ہو چکا ہے اس سے عمران خان کو ایک ہی پیغام جائے گا کہ اسکی سول نافرمانی کی تحریک توبری طرح ناکام ہو گئی تھی مگر ہیلمٹ پر جرمانوں  پر سول نافرمانی بغیر کسی لیڈر شپ کے بھی کامیاب ہونے جا رہی ہے۔ یہ جتنا مرضی زور لگا لیں معروضی  معاشی سماجی حالات ایسے ہیں ہی نہیں کہ اس وقت میں ایسے سخت فیصلے عوام کی اتنی بڑی تعداد سے قبول کروائے جا سکیں۔ دو سو روپے قسط پر خریدی بائیک جسے اکثر نوجوان  اور بعض بڑے بھی لٹا کر پیٹرول پمپ تک لیجاتے نظر آتے ہیں وہ مہنگائی کے طوفان کے ساتھ جرمانے ادا کرنے کو آسانی سے تیار نہیں ہونگے۔ زبردستی کی جائے گی تو لاقانونیت میں اضافہ ہوگا۔ سٹریٹ کرائمز بڑھیں گے۔ پولیس سے لڑائی معمول بنے گی۔اور اگر اس میں نوجوانوں کے ساتھ مڈل کلاس کے پختہ عمر کے لاہورئیے بھی شامل ہو گئے (ہم لاہورئیے پختہ عمر کے ہو بھی جائیں توکھلنڈرے نوجوانوں کیطرح ہی رہتے ہیں) تو صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہو جائے گی۔ وردی والوں کو بھی شکر کرنا چاہیے کہ لاہورئیے اپنے لیڈر کیساتھ کھڑے نہیں ہوئے ، ہو جاتے تو صرف لاہور کے شہری ہی  سب کو دن میں تارے دکھانے کے لیے کافی ثابت ہوتے۔تحریکِ انصاف اور خاص طور پر عمران خان ہوش کے ناخن لے اور لاہور سے بچے۔ لاہورئیے لوگوں کو  جتنی عزت  محبت اور پیار دیتے ہیں اس سے دس گنا زیادہ ذلیل کرنا بھی جانتے ہیں۔خان صاحب اب بھی وقت ہے سدھر، جاؤ نہ چھیڑوانھاں  ملنگاں نو۔ کل لاہور میں عمران خان مردہ باد کے نعرے لگے اور اسے سوچنا چاہیے کہ ابھی دو مہینے پہلے ہی وہ اس شہر سے قومی اسمبلی کی چار سیٹیں جیت کر نکلا ہے۔ اسے احسان فراموشی  نہیں کرنی چاہیے۔ اسے نہ صرف لاہور اور وسطی پنجاب کے متوسط طبقات کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ ملک کے ہر شہر ہر گاؤں کے پسماندہ لوگوں پر مہنگائی اور اچانک سخت قوانین کا بوجھ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عمران خان محبِ وطن شہریوں کو ایسے دیوار سے مت لگائیں کہ ان میں بغاوت کے جزبات ابھرنے لگیں!

 

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *