ہوم نیٹ پاکستان کا گارمنٹس اور ٹیکسٹائل سیکٹر سے تعلق رکھنے والے غیر رسمی کارکنوں کے انسانی حقوق اجاگر کرنے کے حوالے سے میڈیا بریفنگ
لاہور، پاکستان میں غیر حتمی اندازوں کیمطابق ملک بھر میں گھروں میں خام مال لا کر کام کرنے والے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد دو کروڑ اے زائد ہے جس میں آدھی سے خواتین شامل ہیں۔تاہم غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے اِن مزدوروں کو 77 سال بعد بھی نہ ہی مزدور کا درجہ مل سکا اور نہ ہی ان کے حقوق اور زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی قانون موجود ہے۔
غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کو شکوہ ہے کہ اس کام میں محنت زیادہ ہے اور اجرت کم ہے۔‘گھروں میں کام کرنے والے ان ورکرز کی عام مزدور جیسی شناخت اور مراعات کے لیے مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک طویل عرصے سے کوشاں ہیں۔پاکستان میں ایک طرف وفاقی حکومت ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مزدور ’آئی ایل او‘ کے کنونشن C-177 کی توثیق کرنے سے گریزاں ہے دوسری جانب سندھ سمیت چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں ایسے مزدوروں کی شناخت اور مراعات سے متعلق بل التوا کا شکار ہیں۔پاکستان میں مزدوروں کے برعکس صعنت کار ایک مؤثر آواز ہیں جن کی ایوانوں میں بھی نمائندگی موجود ہے۔ مزدوروں کے لیے اٹھنے والی آواز محدود اور کمزور ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حق میں بہت کم قانون سازی نظر آتی ہے۔
اسی اہم مسلے کو اجاگر کرنے کے لئے ہوم نیٹ پاکستان نے ایک پریس بریفنگ کا ہتمام کیا اس موقع پر ہوم نیٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ ام لیلیٰ اظہر نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوے کہا کہ غیر رسمی ماحول سے خواتین کارکنوں کی نمایاں شراکت کے باوجود، ان غیر رسمی کارکنوں کو اکثر استحصال، قانونی تحفظ کی کمی اور کام کے خراب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، جامع انسانی حقوق کے لیے مستعدی کے طریقہ کار اور غیر رسمی کارکنوں کی حفاظت کرنے والے قوانین، جیسے کہ ہوم بیسڈ ورکرز (HBWs) قانون کے مؤثر نفاذ کی فوری ضرورت ہے۔ ہوم بیسڈ ورکر پاکستان ی ایک موثر افرادی قوت ہے جس کی موجودہ منظر نامے، HBWs قانون، مجوزہ ترامیم، کاروباری قواعد اور PESSI (پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن) جیسے سماجی تحفظ کے طریقہ کار کے کارکنوں کے تحفظ میں کردار پر آواز اٹھانے کے لیے انسانی حقوق کی وجہ سے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہئے۔ جبکہ غیر رسمی کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی سماجی تحفظ کو یقینی بنانے میں PESSI کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
محترمہ اُم لیلیٰ نے ILO کے کنونشنز 190 (تشدد اور ہراساں کرنے) اور 187 (پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کے لیے پروموشنل فریم ورک) کی توثیق کے لیے کی جانے والی جد و جہد اور اس سلسلے میں ہوم نیٹ پاکستان کی کوششوں کا بھی بھی زکر کیا۔ ہوم نیٹ نے غیر رسمی کارکنوں کی مدد اور رجسٹریشن کے لیے ہوم نیٹ آگہی مراکز اور ہیلپ لائن (04211164711) کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے آپ ہم سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔۔ جبکہ اس موقع پر محترمہ حمیرا اسلم نے ہوم بیسڈ ورکر کے مسائل کواجاگر کرتی ایک دستاویزی فلم دکھائی