آواز-CDS فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام ”خواتین زرعی کارکنوں کو بااختیار بنانے” کے لیے صوبائی ایڈووکیسی فورم کا انعقاد
بدقسمتی سے ملکی معیشت میں 40 فیصد حصہ ڈالنے والی کھیت مزدور خواتین کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ مقررین کا اظہار خیال
لاہور، پاکستان میں مرد مزدوروں کے ساتھ ساتھ کروڑوں خواتین بھی کھیتوں میں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں مگر کئی مقامات پر انہیں مرد مزدوروں سے آدھی مزدوری دی جاتی ہے حالانکہ خواتین مزدور کسی طرح بھی مرد مزدوروں سے کم نہیں ان خیالات کا اظہار لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں آواز-CDS فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام ”خواتین زرعی کارکنوں کو بااختیار بنانے” کے لیے صوبائی ایڈووکیسی فورم سے مقریرین نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ”آواز“ کے سی ای او ضیا الرحمن نے کہا کہ کھیتوں میں کام کرنے والی مزدور عورتیں ”محنت کش“ عورتیں ہیں وہ اپنے کاموں میں اس قدر گھری رہتی ہیں کہ انہیں اپنے آپ کو سنوارنے، بناو سنگھار کرنے تک کا موقع نہیں ملتا۔ دہری زندگی جینے کے باوجود یہ عورتیں اپنے ماتھے پر کوئی شکن نہیں لاتی نہ ہی زبان سے شکایت کرتی ہیں۔ ان کے کپڑے ملگجے ہوتے ہیں، بال بکھرے ہوئے پھر بھی ان کے چہرے سے بشاشت ٹپکتی نظر آتی ہے۔ وہ ہمت اور دلیری کی مثال ہے۔ غربت، مفلسی، رہنے کے لئے ڈھنگ سے گھر نہیں اور تن ڈھانکنے کے لئے صحیح سے کپڑے نہیں تب بھی وہ مسکراتی ہیں۔ زندگی کو پوری طرح نہ جیتے ہوئے بھی جیتی ہیں۔ مرد کی، زمانے کی پھٹکار سہہ کر بھی وہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کمر کس کر کھیت میں جٹ جاتی ہیں۔ گرمی اور سردی کے موسم ہو یا بارش یہ موسم کی سختی برداشت کر کے کام کرتی ہیں اور مہنگائی کا مقابلہ کرتی ہیں۔ انہیں مشکل ہی سے اتنا وقت ملتا ہے کہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ پھر بھی وہ اپنے ملک کی اور گھر کی معاشی حالت میں اضافہ کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ غریب خاندان میں عورت کے لئے زندگی بالخصوص دشوار ہوتی ہے۔ یہ وہ باہمت عورتیں ہیں جو معاشی صورتحال سے نبرد آزما ہوکر بھی معاشرے کی بنیادی تشکیل کرتی ہیں۔ جبکہ وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوتی ہیں دیہاتوں میں بہت کم تنخواہ پر خواتین مزدوروں سے دن رات کام لیا جاتاہے اور انکا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ حکومت کی کم از کم تنخواہ کے اعلانات اور آٹھ گھنٹے ڈیوتی کے قانون پر دیہی علاقوں میں بھی عمل درآمد کرائے۔ زرعی فارموں پرکروڑوں مزدور خواتین کام کرتی ہیں مگر کسی بھی زرعی فارم پر ان کو فیکٹری مزوروں کی طرح سوشل سیکورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ سکیم، پنشن، اور فری علاج معالجے، حادثات کی شکل میں معذور مزدوروں کو کمپن سیشن دینے کی سہوتیں میسر نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کھیت میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کو بھی فیکٹری مزدوروں کی طرح سہولتیں دینے کیلیے حکومت قانون سازی کرے اور زراعت کو صنعت کا درجہ دیکر یہاں کے مزوروں کو بھی صنعتی مزدوروں کی طرح تمام سہولیات فراہم کرے۔’زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے مسائل اور ان کا حل سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مقررین نے کہا کہ کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو لیبر ڈپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ کرکے قانونی تحفظ دیا جائے، زراعت کو صنعت کا درجہ دے کر کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو تعلیم، صحت، کم از کم اجرت و دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ نئے لوکل باڈیز ایکٹ میں کسان خواتین کی نشستیں بحال رکھی جائیں۔سماجی کارکن ام لیلی نے کہا کہ کھیت مزدور خاتون کو احتیاطی تدابیر و دیگر سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے، نچلی سطح پر کام کرنے والی کھیت مزدور خواتین کو آسان قرضے فراہم کیے جائیں۔