وسیم بٹ
ہائیڈل برگ
کلائمٹ چینج کے شکار یورپ میں بڑھتی ہوئی گرمی
یورپ کو ٹھندنے ملکوں کا بر اعظم کہا اور سمجھا جاتا تھا شائد یہی وجہ تھی کہ یہاں کے لوگوں کا مزاج بھی ٹھنڈا دھیما اور پر امن تھا لیکن انسانی ہوس نے جہاں دیگر شعبوں میں تباہ کاریاں مچائی ہیں وہیں ماحول کو بھی اتنا آلودہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے گرمی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جو شائد یورپی اقوام کے رہن سہن کے ساتھ ان کے مزاج پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے دنیا بھر کے ماحول پر نظر رکھنے والوں کے انتباہ پر کان نہ دھرے گئے اور کلائمٹ چینج کے اثرات کو روکنے کے لئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں زندگی بہت مشکل ہوتی جائے گی جس کا اندازہ حالیہ گرمی کے موسم سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند ہی دنوں میں درجہ حرارت میں کس قدر اضافہ ہوا ہے جس سے یورپین عوام بہت پریشان ہیں ۔
میڈیا میں آنے والے خبروں تجزیوں اور رپورٹوں کے مطابق یورپ میں شدید گرمی سے دو افراد ہلاک جبکہ ہیٹ اسٹروک سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے،اسپین اور جنوبی فرانس میں خشک موسم کی وجہ سے پھیلنے والی آگ کی گزشتہ 20 برسوں کے عرصہ میں نظیر نہیں ملتی،یورپ میں جہاں درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے وہیں لوگوں کی توشویش میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں تارکین وطن صحرا میںقیام کو ہی ترجیح دے رہے ہیں، متمول پاکستانی جو عموماً موسم گرما کی شدت سے بچنے کے لئے نسبتاً ٹھنڈے یورپ میں دن گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں یہ سن کر مایوسی ہوئی ہوگی کہ پورا براعظم یورپ گزشتہ سال جون کی طرح اس بار بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ شدید گرمی سے متاثرہ ممالک میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا وغیرہ شامل ہیں۔ پوری د±نیا پر موسمی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ بے دردی سے جنگلات کا خاتمہ، بلاروک ٹوک گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج، ایندھن کا جلنا اور گلیشیئرز کا پگھلنا شامل ہے۔ یہ عوامل یورپ پر بدتر ین اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ برطانیہ جہاں جاری آئی سی سی ورلڈکپ کے کچھ میچز بارش کی نذر ہوئے، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرگیا۔ یہ صورتحال گزشتہ سال اسی عرصہ سے متضاد ہے۔ تاہم رواں سال موسم سائنسدانوں کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے کہ درجہ حرارت بڑھے گا، گرمی کی لہر میں اضافہ ہوگا، طویل خشک سالی اور کچھ علاقوں میں سیلاب آئیں گے۔۔ شمالی اسپین اور جنوبی فرانس میں تو درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ یورپی ممالک میں انفرا اسٹرکچر موسم کی غیرمعمولی شدت کو مدنظر رکھ کر مرتب نہیں کیا گیا جیسا کہ جرمنی میں سڑکیں پگھل گئیں۔ ایئرکنڈیشنرز کا استعمال شدت اختیار کرگیا ہے۔ ایک اطالوی تارک وطن کے مطابق روم شدت کی گرمی کو مدنظر رکھ کر تعمیر نہیں کیا گیا۔ روم میں درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو دبئی سے صرف دو درجے کم ہے۔
شدید گرمی اور سورج کی تپش نے متعدد یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فرانس، اسپین، جرمنی، سوئزرلینڈ اور بیلجئیم میں شدید گرمی کی لہر نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔فرانس کے مختلف علاقوں کا درجہ حرارت 45 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا جبکہ گارڈ کے جنگلات میں لگی آگ تاحال بے قابو ہے۔جنگلات میں آگ لگنے سے 9 گھر اور 150 ایکڑ رقبہ جل گیا جبکہ دو افراد جھلس کر زخمی بھی ہوئے۔ انتظامیہ نے 4 ہزار اسکول بند کر دیئے۔حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ دنوں میں گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اگر آپ کلائمٹ چینج پر یقین نہیں رکھتے، اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ صرف ایک وہم ہے تو پھر سائنس میگزین کی یہ رپورٹ آپ کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ آج سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل دیکھا گیا تھا . میگزین میں شائع ہونے والے تحقیقاتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ زمین اور سمندروں کے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ اب سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل دیکھا گیا تھا، اس کے بعد کبھی اتنا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ۔.
ماہرین کے مطابق زمین کے درجہ حرارت کے ساتھ سمندروں کا درجہ حرارت بھی اہمیت رکھتا ہے جو اس وقت بہت بڑھ چکا ہے . انہوں نے واضح کیا کہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سال قبل کے اس دور کو زمین کا گرم ترین دور مانا جاتا ہے . ماہرین نے واضح کیا کہ یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ہے جو بہت تیزی سے رونما ہو رہا ہے . واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا کہ سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال تھا . اس سے قبل سنہ 2014 اور 2015 میں بھی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا تھا . نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے . سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016 . ماہرین کے مطابق گو کہ یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔ ہمیں ماحولیات کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنا اپنا کردار کرنا چاہئے اور ان ملکوں پر کردار ادا کرنے کے لئے زور دینا چاہیے جو کلائمٹ چینج کا سبب بن رہے ہیں ہمارا دوسرا چیلنج آبادی میں اضافے کا ہے کیونکہ ہر سال آبادی میں ہونے والا اضافہ بھی کلائمٹ چینج کی ایک وجہ ہے اس لئے ہمیں ہر محاذ پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا درخت لگانے ہوں گے، ورنہ سورج کی گ سب کچھ جھلسا دے گی
Tags Blog blog waseem butt