رانا فاروق
ہمت،جدو جہد اور استقامت
مشہور کہاوت،” جب تک انسان خود ہار نہیں مانتا،دنیا کی کوئی طاقت اُسے ہرا نہیں سکتی”۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے یہ بات سچ ثابت کر کے جیتی جاگتی مثال قائم کردی ہے۔عمران خان، قابل تقلید شخصیت ہے۔ اُس نے جوکرنے کی ٹھانی، اُسے پورے حوصلے،انتھک محنت اور لگن سے پایا تکمیل تک پہنچایا۔ کسی کام کا ارادہ کر نا اور شروع کرنا بہت آسان، لیکن اُس راہ میں درپیش مشکلات کا سامنا کر کے کامیابی حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کپتان نے ثابت کردیا کہ کوئی بھی کام نا ممکن نہیں۔صرف لگن، ہمت،جدوجہد اور استقامت جیسے جذبوں کو دامن کے ساتھ مضبوطی سے باندھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے کا ارادہ کیا، اسے پورا کرکے دم لیا۔ کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی، مختلف حلقوں سے طنز وتنقید کے تیروں کا سامنا کرنے کے باوجود ہسپتال مہیا کر کے دم لیا ۔ بانیِ پاکستان قائداعظم کے خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا اورقوم کو اس نا سور سے نجات دلانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں ملک کے نام کر دیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراًبعدبانیِ پاکستان نے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ ”Corruption is a poison and horrible disease for any nation”۔ جبکہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کے تاریخی الفاظ؛ ”Corruption is like a snow which melts from the top” بھی قائداعظم کے الفاظ کی تائید کرتے ہیں۔عمران خان نے قائد اعظم کے وژن کو مدِنظر رکھ کر احتساب کا نعرہ لگایا۔ آج پاکستان جس کی بنیادوں کو کرپشن نے دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا،اب کرپشن سے پاک ہونے کے لیے قدم بڑھا رہا ہے۔لیکن اس میں مکمل کامیابی تب ہی ممکن، جب ہم حصہ بقدر جثہ ڈالیں گے۔ اس بات سے انکار ناممکن، اگر عمران خان نہ ہوتا تو پاکستان کرپشن کی دلد ل میں پھنس کر اپنی شناخت کھو دیتا۔عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس نے قوم کو شعور دیا۔عمران خان کے روپ میں پاکستانی عوام کو اندھیرے میں روشنی نظر آئی۔ سیاست میں آنے سے قبل،عمران خان کے کیرئر کا جائزہ لیا جائے تو اس با ت میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کی طلسماتی شخصیت نہ صرف کرکٹ کے میدان میں چھائی نظر آتی ہے بلکہ نوجوانوں کے دلوں پر حکومت کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔اور آج 22 سال بعد وہ نوجوانوں کے دلوں پر اسی شدت کے ساتھ راج کر رہا ہے۔ عمران خان نے 1992 میں پاکستان کے سر پر ورلڈ کپ کا سہرا سجا یا اور کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔لیکن آج بھی ایک کامیاب کپتان کے طور پرجانا جاتا ہے اور نئی نسل کے لئے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔عمران خان نے اپنے کرکٹ کیرئیر میں خوب شہرت،دولت اور عزت سمیٹ لی تھی اگر وہ چاہتا تو بقیہ زندگی آرام وسکون سے کہیں بھی گزار لیتا۔ اس کی واضح مثال خان صاحب کی سابقہ برطانوی نژاد بیوی جمائما گولڈزسمتھ ہے جوبرطانیہ کے مشہور ارب پتی تاجر جیمز گولڈزسمتھ کی بیٹی ہیں اور وہ عمران خاں کو دنیا کی ہر سہولت مہیا کر سکتی تھیں۔ لیکن نہیں، اپنی ذاتی خواہشات کو پسِ پشت رکھ کر آرام و سکون تہج کے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔ سیاست میں قدم رکھنے کا مقصد ذاتی مفادنہیں تھا بلکہ بانیِ پا کستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنا تھا۔اس عظیم مقصد کی خاطر،ازدواجی زندگی تک
قربان کر دی۔اس قربانی سے عمران خان کی پاکستان سے محبت،وفاداری اور خلوص کسی اور مثال کامحتاج نہیں۔ سیاست کپتان کے لئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ خارزار راستہ تھا جسے عبور کرنے کے لئے 22 سال صوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ جو کہ ہمت،جدوجہد اور استقامت کا کام تھا۔اگر ایک لمحہ کے لئے عمران خان کی 22 سالہ دور کی مشکلات کے بارے میں سوچیں تو اس مرد میدان کو داد دینے کا جی کرتا ہے۔جو تن تنہا قوم کی زندگیاں بدلنے کے لئے وقت سے جنگ کرتا رہا۔ اس سارے عرصے میں اس کا پرعزم رہنا قابلِ دید اور قابلِ تقلید بھی ہے۔عمران خان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے نام سے جس پا رٹی کی بنیاد رکھی شروع میں اس میں گنتی کے چند لوگ شامل تھے۔ لوگ اس کی پا رٹی کا مذاق بناتے۔ کوئی منجھا ہوا سیاستدان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ 1996میں قائم ہونے والی پارٹی(جسے شیخ رشید نے تانگہ پارٹی کہا تھا) 2018 میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن جائے گی۔ مشہور قول ہے ”خدا بھی صرف اسی کی مدد کرتا جو اپنی مدد آپ کرتا ہے“۔کپتان نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت کرکٹ کے میدان کی طرح سیاست کے میدان میں بھی ہمت نہ ہاری اور سیاست میں لڑکھڑاتی زمین پر اپنے قدموں کو مضبوطی سے جما ئے رکھا۔عمران خان نے چاروں اطراف سے اپنے مخالفین کا مقابلہ جراَتمندی اور بہادری سے کیا۔جنہوں نے نہ صرف عمران خان کی سیاسی زندگی کو نشانہ بنایا بلکہ اسکی ذاتی زندگی کو بھی نہ بخشا۔اسکے اپنی ذاتی زند گی سے متعلق فیصلوں کو سیاسی زندگی سے جوڑ کر خوب بڑھا چڑھا کر خبروں کی زینت بنایا گیا۔ پہلے شادی،پھر شادی میں ناکامی،پھر بابا فرید کے مزار والا واقعہ، کبھی یہودی ایجنٹ،حتی کا کینسر ہسپتال کو بھی نہ بخشا۔الغرض اس کی ذاتی زندگی کے افعال کو سیاست میں ناکامی سے مشروط کیا گیا۔
یہاں سر سید جیسی عظیم شخصت کا ذکر مناسب بھی اور ضروری بھی، سر سید نے مسلمانوں کی حالت بہتر بنا نے کے لئے انگر یزی تعلیم پر زور دیا۔تعمیرو ترقی کے لئے انگریزی تعلیم کو اپناناناگزیر قرار دیا،تو انہیں نام نہاد اسلامی شخصیات نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا،انہیں کافراور مشرک قراردیا۔لیکن آج سر سید کی خدمات کو سراہنے اور انکی تقلید کرنے میں سب فخر محسوس کرتے ہیں۔آج سر سید کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ عمران خان کی شخصیت کو بھی با لکل اسی طرح کے حا لات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سلام ہے عمران خان کی غیرمتزلزل شخصیت کو،جس نے تمام سازشی حملوں کو اپنے پرعزم حوصلوں سے ناکام بنا دیا۔ 2018کے الیکشن میں عمران خان کی جیت نے مایوس انسانوں کو سکھلایا کہ انسان کو اپنا مقصد حاصل کرنے تک ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔عمران خان نے 22سال جدوجہد کے بعدجو کامیابی حاصل کی تو اسکی وجہ صرف اس کی ہمت و استقامت ہے۔اگر عمران خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا راِہ فرار اختیار کرلیتا۔ کل جو عمران خان پر تنقید کے تیر نچھاور کرتے، مذاق بناتے، جنونی اور پاگل کہتے تھے، آج وہ اپنے کہے الفاظ واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں،وزارتِ عظمی کی کرسی عمران خان کے لئے بہت سارے چیلنجز لے کر آئی ہے لیکن ان چیلنجز سے نپٹنے کے لئے کپتان جیسی ہی شخصیت کی اشد ضرورت تھی۔ یہ کہنا بجا، عمران خان عوام کی زبان بن چکے۔عمرا ن خان کے روپ میں عوام کو ایک مسیحا مل گیا۔ آخر میں صرف اتنا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے پاکستا نی عوام کی جو امیدیں وابستہ ہیں وہ تمام امیدیں پوری کرنے کی توفیق دے اور ان کی مدد فرمائے۔مگر عمران خان اکیلے کچھ نہیں کرسکتے پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے پوری عوام کی حمایت اور مدد درکار ہے۔