اچھالیڈر۔۔۔۔
مریم چودھری
اب ایسا وقت آچکا ہے کہ ایساخلاپیداہوگیاہے جولیڈرسے پوراکرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ خلاہمیشہ لیڈرکے خونی رشتہ داروں کو لگاکرپوراکیا جاتاہے۔ تاہم صرف ڈی این اے ہی ایسا کرسکتاہے،کچھ لوگ پیدائشی طورپرفطری لیڈرنہیں ہوتے۔
شہبازشریف کی مثال لی جاسکتی ہےجومسلم لیگ ن کی ناکامی اور نقصان کی وجہ سے نظرانتخاب میں آئے کہ ان کااس پارٹی کے ساتھ تعلق تھااوران کے آنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
پی ٹی آئی کے عمران خان کے ووٹ سے اقتدارمیں آنے کے بعد فری اینڈ فیئرالیکشن کے لئے گیارہ پارٹیوں نے ہاتھ جوڑے تھے۔ میڈیا پر برقی انداز میں مباحثے ہوئے جن میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا اب گیارہ پارٹیوں کے دھرنے کاوقت آچکاہے؟ فضل الرحمان جیسا امیدوارضائع کرکے پیپلزپارٹی نے ہاتھ ملائے اور ہرکوئی اس اتحاد کے لیڈرکاانتظارکرتارہا جونظرنہیں آیا۔
ان دنوں اگرچہ شہبازشریف قومی اسمبلی میں میں بحث اور ٹی وی پرمباحثوں میں بہت آگے آگے نظرآتے ہیں۔ شایدانہوں نے وہ غبارنکال لیا ہے جسے روکنے کی ضرورت تھی یاشایدان کے بھائی کی جیل سے رہائی ہوئی ہے تووہ ایکشن میں آئے ہیں۔ جب نوازشریف اور مریم نواز جیل میں تھے تو افواہیں بھی تھیں اورہرکوئی نوازشریف کے چھوٹے بھائی کی پرفارمنس سے ناخوش تھا۔
کیا وجہ تھی کی شہبازشریف ناکام ہوئے؟ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان میں وہ کرشمہ نہیں جوان کے بھائی میں ہے۔ شہباز شریف ایک منتظم،ایک مینجر اورایک عمل درآمدکروانے والے کردارتوہیں مگرایسے لیڈرنہیں جیسی توقع تھی۔ پارلیمنٹ میں ان کی پہلی تقریروہ تقریرنہیں تھی کہ جواسمبلی میں پہلی تقریرہونے کاکوئی اہم تاثرچھوڑتی، ان کی بجائے بلاول بھٹوزرداری جوایک ناراض اورنئے وزیراعظم کے مخالف تھے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کراگئے۔ شہبازشریف کی تقریربھلائے جانے کے قابل تھی اوران کوبھلادیاگیا۔
تاہم ایک اچھا نظریہ ہے جو انہیں نجات دلاسکتاہے۔ اس نظریئے کے مطابق شہبازشریف نے نیچااورخاموش رہنے کا فیصلہ کرلیاہے اور اس بات کویقینی بنانے اورواضح کرنے کافیصلہ کرلیاہے کہ شریف فیملی نیچے بچھ بھی سکتی ہے۔ جیل میں اورجیل کے باہرخاموشی شریف فیملی کے آخری سیاسی دورکی صاف واپسی میں مدددے سکتی ہے۔ اوریہ نظریہ ثبوت کے بغیرنہیں۔ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ پارٹی ارکان کوکہاگیاتھا کہ ایسے وقت میں جبکہ وہ غیرمستحکم اور مشکلات کاشکارہیں خاموش اورمحتاط رہیں۔ بڑے لیڈرکے برے رویئے نے کوئی بہت بڑانتیجہ نہیں دیااورکچھ لوگ محسوس کرتے ہیں یہ بہترین حکمت عملی ہوسکتی ہے اور ان کی دوسری سیاسی زندگی کی وجہ بن سکتی ہے۔
تاہم یہ انتہائی ممکنات میں شامل ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور میڈیا پارٹی کی نئی قیادت کامنتظرہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف نے ایسا کیاوہ قربانی دینے پرتیارہیں کہ ایک سچے لیڈرکے قیادت سنبھالنے کاوقت منٹوں کاگھنٹوں میں آنے والانہیں۔ شہبازشریف کو ان کے قدسے بڑی کھڑی میں آنے کاموقع دیاگیا مگروہ موقع سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ سیاست میں مفاہمانہ رویہ اپنانے کے باوجودایک مضبوط لیڈرکاسارویہ اپنایاجاسکتاہے۔ لیکن شہبازشریف کا رویہ اتناتذبذب والارہا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ان میں اتناکچھ کرنے ہی کی گنجائش ہے۔ ذمہ داری لینے اور ذمہ داری نہ لینے کے درمیان سی سا اُن کے قومی سطح کے کردار پرغالب آگیاہے۔
ایسے میں تمام نظریں نوازشریف اورمریم نواز پرہوں گی کہ ایک باروہ اپنی خاموشی کوتوڑیں اورایسا ممکنہ طورپر بیگم کلثوم نواز کے چہلم کے بعد ہوسکتاہے۔ عین ممکن ہے کہ نوازشریف کے ذہن میں مستقبل کاکوئی منصوبہ ہو۔ یہ جارحیت ہوسکتی ہے سمججھوتہ بھی ہوسکتاہے مگران کارویہ جوبھی ہوتذبذب والامؤقف نہیں ہوگا۔
چنددن پہلے شہبازشریف نے انتباہ کیا تھا کہ پارلیمنٹ کسی کوبھی بناسکتی ہے اورتوڑبھی سکتی ہے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کی اپوزیشن موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لاسکتی ہے اوراس میں اس بات کا بھی اضافہ کیا تھا اگریہ ایساممکن ہے تاہم اپوزیشن قومی استحکام کے لئے کام کرے گی۔ تضادات اورتذبذب نے شہبازشریف کے اختیارپربھی سوال کھڑے کردیئے ہیں اوراس حقیقت کوتسلیم کرلینا چاہئے کہ قیادت کرنے والا خون بھی بعض اوقات لیڈنہیں کرسکتا۔