Breaking News
Home / Blog / یہ دھواں موت کا دھواں ہے۔۔!

یہ دھواں موت کا دھواں ہے۔۔!

Khizar Ahmad

خضر احمد
یہ دھواں موت کا دھواں ہے۔۔!
ویسے تو ہم کئی طرح کے مسائل میں الجھے ہوئے اور کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں کسی بیماری کا نام لے لیں مجموعی طور پر معاشرہ اس کا شکار نظر آئے گا اس کی ایک وجہ تو ہمارے ہاں تعلیم کی کمی اور دوسری بڑی وجہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی نہ گزرانے کے ساتھ غیر معیاری اشیا کا استعمال ہے تو یہ حکومت کی زمہ داری کہ وہ شہریوں کو معیاری اشیاءکی فراہمی کو یقنی بنائے لیکن حکومتی کاوشیں اس ضمن میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ بیماریاں ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے معدے اور پھیپڑوں میں اتارتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سگریٹ کا ستعمال کئی طرح کی بیماریوں کا باعث ہے مگر ہم پھر بھی اس کا استعمال ترک نہیں کرتے ادھر،سگریٹ نوشی کے نقصانات کی پوری دنیا میں تشہیر کی جاتی ہے اس کے باوجود لوگ اس عادت بد کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہوتے، بےشمار کتب اور مضامین لکھے گئے، طبی ماہرین کی تحقیقات شائع ہوئیں اور حکومتوں نے بھاری ٹیکس عائد کیے لیکن ’ لوگ پھر بھی اس بری عادت سے چھٹکارا نہیں پاتے سگریٹ نوشی کرنے والوں کے بارے شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں ،دنیا کے ایک تہائی بالغ مرد سگریٹ پیتے ہیں یعنی دنیا میں 33 فیصد بالغ مرد اس عادت کا شکار ہیں، اگرچہ کم عمر لڑکے بھی سگریٹ پیتے ہیں لیکن ان کے بارے میں مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں، اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو سگریٹ نوشی کے عادی مردوں کی تعداد ایک تہائی سے بہت بڑھ جائےگی۔ کہا جاتا ہے کہ سگریٹ نوشی کی ابتدا کے حوالے سے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ امریکہ میں تمباکو نوشی کا آغاز مذہبی رسومات کے تحت ہوا اور اس کا دھواں صحت میں بہتری لانے اور بری روحوں کا بھگانے کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ ابتدا میں صرف مذہبی رہنماو¿ں کو سگریٹ نوشی کی اجازت تھی تاہم بعد میں یہ عوام میں پھیل گئی۔ بعد ازاں اسے دلکش اور ذائقہ دار بنانے پر کام شروع کیا گیا اس کا ذائقہ بہتر بنانے اور اسے عادی افراد کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے گئے۔ اس کے لیے ہزاروں قسم کے اضافی اجزا شامل کیے جاتے ہیں جن میں چینی اور کوکوا شامل ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے اشرافیہ عام آدمی کی سگریٹ نوشی کے خلاف تھی،15ویں صدی میں ایک چینی حکمران نے حکم دیا تھا کہ سگریٹ پینے والے عام لوگوں کے ساتھ باغیوں جیسا سلوک کیا جائے گا، اسی صدی میں ماسکو کے مذہبی رہنما نے عام آدمیوں کے سگریٹ پینے کے خلاف فتویٰ صادر کیا کہ ان کے نتھنے چیر دیے جائیں اور انہیں پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سگریٹ کی پوری دنیا میں سب سے زیادہ طلب ہے ۔یہ دنیا میں سے سے زیادہ مقبول شے ہے، امریکی جیلوں میں اسے کرنسی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور غالباً دنیا کی زیادہ تر جیلوں میں یہی رسم موجود ہے۔تمباکو نوشی کے تمام تر خطرات اور اس کے خلاف حکومتوں کی اشتہاری مہم کے باوصف ہر سال دنیا میں 60 کھرب سگریٹ تیار ہوتے ہیں۔ البتہ حکومتیں اس کے خلاف بھرپور مہم نہیں چلاتیں کیونکہ اس سے اربوں کے محصولات حاصل ہوتے ہیں۔سگریٹ کا ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس میں بہت سے اضافی اجزا شامل کیے جاتے ہیں، سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے کم از کم 50 اجزا ایسے ہیں جو کینسر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔انسان چاہے کئی دہائیوں سے سگریٹ نوشی کا شکار ہو، اسے ترک کرنا ہمیشہ صحت کے لیے مفید ہے۔ سگریٹ چھوڑنے کے صرف 20 منٹ کے اندر بلڈ پریشر نارمل ہو جاتا ہے جبکہ ایک سال بعد دل کے دورے کے امکانات پچاس فیصد کم ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نامور لوگ سگریٹ نوشی کے خلاف رہے ہیں، مشہور کھرب پتی ہنری فورڈ اور نامور سائنسدان تھامس ایڈیسن سگریٹ نوشی کے سخت خلاف تھے اور دونوں کسی بھی ایسے شخص کو ملازمت میں نہیں رکھتے تھے جو اس عادت کا شکار ہو۔
لیکن جدید تحقیق نے بھی یہ بات ثابت کی ہے کہ سگریٹ نوشی کے بہت نقصانات ہیں۔ایک تازہ ترین ریسرچ سے سگریٹ نوشی کے ان نقصانات کا بھی پتہ چلا ہے، جو پہلے معلوم نہیں تھے۔ اس سے صرف پھیپھڑوں کا کینسر ہی نہیں بلکہ اندھا پن، ذیابیطس، جگر اور بڑی آنت کے کینسر جسیی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔
ایک تازہ ترین ریسرچ پر مبنی ’سرجن جنرلز رپورٹ‘ کے نتائج پیش کرنے کے لیے صحت کے شعبے سے منسلک تمام اعلیٰ امریکی عہدیدار وائٹ ہاو¿س میں موجود تھے۔ امریکی حکومت کی طرف سے اس نوعیت کی ایک رپورٹ پچاس برس پہلے پیش کی گئی تھی۔ سن 1964ء میں تمباکو نوشی کے نقصانات پر پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہو سکتا ہے۔امریکا میں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے ادارے (سی ڈی سی) کے ڈائریکٹر تھامس فریڈن کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی امریکا میں قبل از موت کا سبب بننے والی سب سے بڑی بیماری ہے۔ ان کے مطابق آج بھی نصف ملین امریکیوں کی موت کا سبب تمباکو نوشی بنتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی اس سے بھی بدتر ہے،جتنا ہم اسے پہلے خیال کرتے تھے۔اس تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ تیرہ اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔امریکا میں قائم مقام سرجن جنرل بورس لوشنیک کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا آج کے دورِ جدید میں سگریٹ ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ڈاکٹر لوشنیک کہتے ہیں، “سگریٹ بنانے کا طریقہ اور اس کے اندر کے کیمیکل وقت کے ساتھ کافی حد تک بدل گئے ہیں۔ کچھ کیمکل ایسے بھی ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ تیز کرتے ہیں۔“امریکی حکومت نے سن 2020 تک تمباکو نوشی کرنے والوں کی شرح میں 12 فیصد تک کمی کا ہدف قائم کر رکھا ہے ، لیکن ماہرین کے مطابق اسے پورا کرنا مشکل ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ، حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کے دفاعی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر تمباکو نوشی کی شرح کم نہیں ہوئی تو امریکا میں ہر 13بچوں میں سے ایک بچہ آگے چل کر اس سے جڑی کسی بیماری کی وجہ سے جان گنوا دے گا۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ نوجوانوں میں تمباکو کے استعمال کا طریقہ ئ کار تبدیل ہو رہا ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والے بہت سے لوگ زیادہ نیکوٹین والے ای سگریٹ، مختلف ذائقوں والے سگار اور شیشہ پینے لگے ہیں۔گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک دوسری امریکی تحقیق کے مطابق دنیا میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں سگریٹ نوشوں کی تعداد 72 کروڑ سے بڑھ کر تقریبا 97 کروڑ ہو گئی ہے۔ اور سگریٹ نوشی ہے کی عادت دیگر کئی بد عادات میں مبتلا کر دیتی ہے اس سے بچاو کے لئے حکومت کے ساتھ معاشرے کو بھر پور کمپین چلانی چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس کی پیدا کردہ قباہتوں اور بیماریوں سے محفوط رہ سکے۔

About Daily City Press

Check Also

وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی

اشعر سعید خان برطانیہ سے وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *