مارکسزم کاپیروجس سے کمامریڈدوررہے۔
۔۔ڈاکٹرناظرمحمود
1984میں ایک بارمیری ایک بارسومناتھ چترجی سے دوگھنٹے کے لئے ملاقات ہوئی۔ کامریڈ سومناتھ چترجی(سومجی)جولوک سبھاکے واحد کمیونسٹ سپیکرتھے گزشتہ ماہ کولکتہ میں ابدی نیندسوگئے۔
1984کاموسم گرماتھا۔ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاکے اجوئے بھاون آفس میں تھا۔ اجوئے بھاون اجوئے کمارگھوش سے موسوم تھا جو1951سے1962تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سیکرٹری جنرل رہے۔ میں عمرکے بیسویں سال میں تھا اورمیرے میزبان نورظہیر(ساجدظہیرکی صاحبزادی)اور منظورسعید(دستک کے بانی منصورسعیدجواداکارہ ثانیہ سعیدکے انکل)تھے۔
منظورسعید نے میراتعارف صفدرہاشمی سے کرایاجوسیاسی کارکن،اداکار اور پلے رائٹرتھے۔ پاکستان سے ایک نوجوان کارکن کے طورپر میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے کامریڈز سے ملناچاہتاتاکہ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے باہمی اختلافات کے بارے میں جان سکوں اوریہ جان سکوں کہ ان دونوں کاانضمام کیوں نہ ہوا جبکہ دونوں کا ایک جیسا بائیں بازوکاایجنڈاتھا۔ صفدرہاشمی مجھے سٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر سیتارام ییچوری کے پاس لے گئے،انہوں نے لوک سبھامیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کےرکن سومناتھ چترجی سے بھی ملاقات کرائی۔پانچ سال بعد1989میں صفدرہاشمی پربدترین حملہ کیاگیا اورانہیں اس وقت قتل کردیاگیاجب وہ اور اب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری سیتارام دہلی میں ایک سٹریٹ پلے کررہے تھے۔
سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کاونگ تھی اور سیتارام اپنی عمرکے تیسویں سال میں تھے۔ زیادہ تربحث طلبہ سیاست پرہوتی رہی لیکن وہ سومناتھ چترجی تھے جو بھاری آوازکیساتھ ٹوٹی پھوٹی ہندی میں بات کرتےتھے جسے میں آج تک نہیں بھلاسکا۔ ان کی آوازکے علاوہ ان کی پاکستان کی سیاست میں بے پناہ دلچسپی نے مجھے بہت متاثرکیا۔ وہ پاکستان میں اُس وقت کے حالات وواقعات سے پوری طرح آگاہ تھے اور انہوں نے ضیاالحق کے نام نہاد اسلامائزیشن پروگرام پرتحفظات کااظہارکیا۔ مجھے اُس وقت جھٹکالگاجب چترجی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کاتعلق ایک بنیاد پرست تنظیم مہاسبھاسے جوڑلیاہے۔ سومجی کے والد مہاسبھاکے کارکن تھے لیکن جوئتی باسو(1914-2010)کے زیراثرہونے کی وجہ سے کمیونسٹ اورسیکولرسیاست کی طرف مائل ہوگئے۔ سومجی ایک متجسس شخصیت تھے اوروہ پاکستان کے بارے میں مجھ سے جاننے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے بجائے اس کے کہ میں ان سے انڈیا کے بارے میں پوچھتا۔ لیکن بات چیت سے پہلے سومجی نے بلاتمہیدانڈیا میں کمیونسٹ سیاست کے بارے میں بتایا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا1925میں قائم ہوئی۔ پارٹی کے پہلے جنرل سیکرٹری پوران چندجوشی تھے جنہوں نے1947تک پارٹی کی قیادت کی۔
ان کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے لئے مسلم لیگ کے مطالبے کی سرگرمی سے حمایت کی۔ آزادی کے بعد کیونسٹ پارٹی آف انڈیا انڈین نیشنل کانگرس کی مخالفت اور حمایت کے معاملے پرنظریاتی بحران میں گھرگئی ۔ کانگرس پارٹی کے حامیوں نے پوران چندجوشی کو پارٹی کی قیادت سے ہٹادیا اور1948میں بی ٹی رندیوکوکمیونسٹ پارٹی کانیا جنرل سیکرٹری مقررکردیا۔ 1951تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے شدت پسندی اورمسلح جدوجہدکاراستہ چن لیا اور بھارت کے مختلف علاقوں جن میں کیرالہ،تلنگہ اور تری پوری شامل میں اپنی پالیسی کے تحت جدوجہدکی۔ مبینہ طورپراس پالیسی کی منظوری سوویت کمیونسٹ پارٹی پارٹی کے زہدانوف نے دی۔
جس کے نتیجے میں نہروکی حکومت نے کمیونسٹوں اور بائیں بازوکے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا یہاں تک کہ لکھاری بھی گرفتارکرلئے گئے۔ اُس وقت میرے والد بمبئے میں نوجوان کمیونسٹ رہنما تھے اورانہوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ شایدواحد موقع تھاجب جب ہندومہاسبھانے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حمایت کی اور مطالبہ کیا کہ تمام کمیونسٹ رہنماؤں کررہاکردیاجائے۔ اس مختصرتعاون نے سومجی کے والد کو جیوتی باسوکے قریب کردیا جوایک معززبنگالی کمیونسٹ تھے جوبعد میں23سال تک مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ رہے۔ زہادانوف کی موت کے بعد سوویت پالیسی کانگرس پارٹی اور نہرو کی جانب مائل ہوگئی۔
1951میں زہادانوف کی موت کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیانے طریقہ کارتبدیل کرلیا جوبظاہرسوویٹ کمیونسٹ پارٹی کے مشورے پرہوا۔ 1951سے 1962تک اجے کمارگھوش نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو زیادہ معتدل،آئینی اور مصالحتی طریقہ کارپرچلایا۔ 1957میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کیرالہ میں پہلی ریاستی حکومت بنائی جس کاصرف دوسال میں1959میں خاتمہ ہوگیا۔ 1960سے دنیا میں کمیونسٹ سیاستدانوں کو ایک اوربحران کاسامنا ہواجوچین اوروس کے اختلاف کی وجہ سے تھا۔ کامریڈگھوش کی موت کے بعد چیئرمین کاعہدہ تخلیق کیاگیا اور بمبئی سے ایسے اے ڈینگی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نئے چیئرمین بنے جبکہ کیرالہ سے تعلق رکھنے والے نمبودی ریپاڈنئے جنزل سیکرٹری مقررہوئے۔
1964میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دوحصوں میں بٹ گئی ماؤنوازحصہ خود کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کہتا تھا اور منتخب کامریڈسندارایااس کے جنرل سیکرٹری رہے اور اس پوزیشن پر1978تک رہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پہلے منتخب سی راجیشواراہ راؤسیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ اب دونوں پارٹی کی قیادت تلنگانہ پیزنٹ موومنٹ کے سابق رہنما کررہے تھے۔ جب جیوتی باسوکمیونٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)سے الگ ہوئے سومناتھ چترجی بھی 1968 میں ساتھ جاملے۔ سومجی نےلوک سبھا کا پہلا الیکشن1971میں لڑا اور بعدازاں وہ 10 بارمنتخب ہوئے۔ 1970کی ہدائی میں کمیونسٹ آف انڈیا نے اندراگاندھی کی حمایت کی جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم) اندراگاندھی کی مخالف ہوگئی۔
جب میر سومجی سے ملاقات ہوئی وہ اس وقت تک تیسری بار1971،1977اور1980میں لوک سبھا کاالیکشن جیت چکے تھے۔ اس وقت وہ 1985کاالیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ حادثاتی طورپر جب وہ دہلی سے روانہ ہوئے اس سے بالکل ہی اگلے دن اندراگاندھی کواپنے ہی سکھ گروؤں نے قتل کردیا۔ جس کے بعد فسادات شروع ہوئے اور سکھوں کودہلی میں قتل کیا جانے لگا۔ اگلے الیکشن میں کانگرس پارٹی کو ہمدردی کاووٹ ملااوروہ اکثریت سے جیت گئی اوریہاں تک کہ سومجی کو نوجوان کانگرسی امیدوارمامتابینرجی ن ہرادیا جو1985میں مشکل سے30سال کی تھیں۔
اس سے اگلے ہی سال انہوں نے ایک اورحلقے سے ضمنی الیکشن لڑا اوربتدریج بھارتی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوکربہت عزت کمائی۔ نمبدری پاڈ جو1978سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری تھے نے استعفیٰ دے دیا اور ہرکشن سنگھ سرجیت پارٹی کے نئے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ اسی سال کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سی راجیشواراراؤ نے استعفیٰ دے دیا اور اندرجیت گپتا اس کے لیڈربن گئے۔ 1996میں انڈیا کے عام انتخابات میں جب بی جے پی نے لوک سبھامیں سب سے زیادہ نشستیں جیت لیں لیکن اسے اکثریت نہ مل سکی تو اپوزیشن یونائیٹڈفرنٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے لیڈرجیوتی باسوں کو وزیراعظم نامزدہ کرنے پر متفق ہوگئی۔
تاریخ کی ایک بہت بڑی غلطی اس وقت دیکھنے میں آئی جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم) نے ایج ایس سرجیت کی قیادت میں حکومت کی قیادت نہ کرنے کافیصلہ کیا اور یونائیٹڈفرنٹ کی باہر سے حمایت کی۔ جب واحد موقع تھا کہ کوئی کمیونسٹ بھارت کاوزیراعظم بن سکتاتھااسے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)سے شکست ہوگئی۔ سومناتھ چترجی اورجیوتی باسونے اس فیصلے پرتنقید کی لیکن دونوں نے پارٹی پالیسی کی پیروی کی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے حکومت میں شامل ہونے کافیصلہ کیا اوراس کے لیڈراندرجیت گپتا پہلے کمیونسٹ یونین وزیرداخلہ بنے۔ ان کا عرصہ1996سے1998تک رہا۔ جب گپتا وزیرداخلہ بنے تو اے بی بردھان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نئے سیکرٹری بن گئے اور اس پوزیشن پر2012تک براجمان رہے۔
سومناتھ چترجی2004میں لوک سبھامیں پہلے کمیونسٹ اسپیکرمنتخب ہوئے جن کی حمایت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور یونائیٹڈپروگریسوالائنس کے43رکان نے کی۔ کانگرس کی قیادت میں یونائیٹڈپروگریسوالائنس کی حکومت نے سومجی کو بہت عزت دی لیکن پھرکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم) نے ایک اورغلط بینی کرڈالی۔ اس نے 2008 میں سومجی کو سپیکرکے عہدے سے استعفیٰ دینے کوکہہ دیا کیونکہ پارٹی نے یونائیٹڈ پروگریسوالائنس کی حمایت کافیصلہ واپس لے لیاتھا۔ سومجی نے استعفیٰ دینے سے انکارکردیا جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ سپیکرشپ پارٹی کی سیاست سے بالاترعہدہ ہے۔ پرکاش کارات کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم) نے چالیس سالہ خدمات کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے سومجی کو نکال دیا۔ 2009میں اسپیکرکے عہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی انہوں نے سیاست بھی چھوڑدی۔
پچھلے ماہ جب ان کی موت واقع ہوئی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)ان کوپارٹی پرچم میں لپیٹ کر آخری رسومات اداکرنا چاہتی تھی لیکن ان کے خاندان نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ ان کی آخری رسومات کے تمام اخراجات ممتابینرجی نے اداکئے جو مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ تھیں اورجنہوں نے1985میں سومجی کوشکست دی تھی۔ یہ جمہوریت کاحسن ہے۔