اشعر سعید خان
برطانیہ سے
وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی
جب سے ارشد ندیم گولڈ میڈل جیت کر، یا یوں کہہ لیں، کہ جب سے اولمپک کا اعزاز انہوں نے اپنے نام کیاہے، میرے محبوب وطن کے میڈیا، سیاستدانوں، رہنماؤں، سبزی فروشوں، اور تمام مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اسے سراہا ہے۔ جب ارشد ندیم گن بانم تھے اور اپنی کامیاب سفر اور تیاریوں میں تھے،تو انہی لوگوں کے جو رویے اور سپورٹ تھی وہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ کم از کم میں تو یہ تنقید کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ بہرحال ایک کمزور انسان کی طرح ایک محاورے کے پیچھے چھپنا آتا ہے؛
” کامیابی کے سو باپ، ناکامی کا کوئی باپ نہیں ”
تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی سیاسی اور عوامی ذہنیت کو جانتے ہوئے میں یہ کہنے کی جرات کرنا چاہتا ہوں کہ سب نے کیا کیا بیان بازیاں کیں، کیا کیا ہمارے ہیرو کو وطن لوٹنے سے قبل اس کی ٹریننگ کی گئی ہو گی کہ کیا کہنا ہے کیا نہیں کہنا، نام کس کا لینا ہے(ٹریننگ کرا دی گئی تھی)، ہاں، میاں صاحب کو نہیں بھولنا۔
ویسے تو ارشد ندیم کو مولانا طارق جمیل نے مصافہ کر کے امر کر دیا۔ میں مولانا صاحب کے لیے خواب میں بھی جرات نہیں کر سکتاکہ کوئی بات کہوں، نہیں تو ان کے ہمائیتی فتوا لگانے میں دیر نہیں کریں گے۔ بہرحال مولانہ صاحب نے ہاتھ آگے کر دیا اب ست خیراں ہیں۔
ہمارے لیے بحیثت قوم یہ خبر بڑی نیک شگون ہے کہ ارشد ندیم نے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کو اکٹھا کر دیا۔ ہمارا بھی کمال رویہ ہے کہ کسی بھی ایسے موقع سے، چاہے وہ کھیل کے میدان میں ارشد ندیم کا گولڈ میڈل ہو یا پاکستان کے چند دیہاتوں میں زلزلے کی مہم؛ ہم فوراُ اکٹھے ہوتے نظر آتے ہیں۔مطلب یہ کہ اکٹھے ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی واقعہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن کیا کریں کیونکہ” ہم ایک پائندہ قوم ہیں ”
ہم لوگ بھی عجیب قوم ہیں، کہ جب کوئی کھیل کے میدان میں، جنگ کے میدان میں، فلمی دنیا میں، ڈراموں میں بارڈر کے اس پار یا اس پار جب ہمارے معاملات میں کوئی اس طرح کے دن آتے ہیں، تو ہم ان ہی سٹارز لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے امن کا پیغام دیتے ہیں۔ ا س بار بھی میڈیا نے سرحد کے اس پار بیٹھی ماں کی دعائیں ہم تک پہنچا دی۔ اور اپنا قومی فریضہ بخوبی انجام دیا۔ اس طرح کا منجن بیچنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ جبکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ عام لوگ پہلے سے ہی امن اور سلامتی کا پیغام لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اپنے بھائیوں کے ساتھ چاہے وہ ہندوستان سے ہوں، بنگلادیش سے ہوں، افریقا سے ہوں، جرمنی سے ہوں یاکسی بھی ملک سے ان کا تعلق ہو، وہ امن کے ساتھ ہی ایک دوسرے کو یہی پیغام دے رہے ہیں –
ہمارا بھی قومی رویہ بہت خوب ہے۔ ہم قومیت کو خاندانیت کی طرح ڈیل کرتے ہیں۔ جیسے خاندانوں میں جانبدارانہ رویوں کی بیس پرکبھی کسی کو بہت اوپر لے جاتے ہیں اور جب ان ہی سے ہماری ان بن ہو جائے تو اسے ایک دم سے زمین پر گرا دیتے ہیں۔ میانہ روی نہ ہم نے سیکھی ہے نہ ہی اسے سیکھنے کی طرف ہم کوئی رجحان رکھتے ہیں۔ یہ خبر بھی ایسی ہی ہے، وہ آیا، اس نے دیکھا اور ایک دن میں اس نے دو بار تاریخ رقم کر دی۔ ارشد ندیم اس سے پہلے ایک گمنام شخص تھا، لیکن اپنی انتھک محنت سے جب اس نے بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بلند کر لیا، تو ہم نے جولیئس سیزر کے ساتھ اسکا موازنہ کر دیا۔یہی ہمارے قومی اور خاندانی رویے ہیں۔ ”نا نو من تیل ہو گا، نا رادھا ناچے گی”۔