Breaking News
Home / City News / لاہور پریس کلب ,وائز کے زیر اہتمام چائیلڈ لیبر کے خاتمے کا دن منایا گیا

لاہور پریس کلب ,وائز کے زیر اہتمام چائیلڈ لیبر کے خاتمے کا دن منایا گیا

لاہور پریس کلب ,وائز کے زیر اہتمام چائیلڈ لیبر کے خاتمے کا دن منایا گیا
اس دن کو منانے کا کا مقصد چائلڈ لیبر سے متعلق شعور اجاگر کرنا اور اس کے خاتمے کیلیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے
حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ قوانین کے نفاذ کو بہتر بنا کر اور خلاف ورزی کرنے والوں کیلیے مزید سخت سزائیں متعارف کروا کر قانون کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے، مقریرین

لاہو(ر اپنے رپورٹر سے)چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن ہر سال 12 جون کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد چائلڈ لیبر سے متعلق شعور اجاگر کرنا اور اس کے خاتمے کیلیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن 2002 میں منایا گیا۔آئین کے آرٹیکل گیارہ کے تحت 14 سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے، کان یا دیگرخطرناک مقام پرملازمت کے لیے نہیں رکھا جاسکتا ہے جبکہ بچوں سے مشقت نہ لینے کا دن منانے کا آغاز 1974 سے ہوا تھا۔ اس دن سے عوام میں بچوں کے حقوق کے متعلق شعور بیدار کیا جاتا ہے۔ یہ دن بچوں کی مزدوری کا مقابلہ کرنے میں تعلیم اور سماجی تحفظ کے نظام کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اسی مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا۔ اس سال عالمی دن کا موضوع ہے”آئیے اپنے وعدوں پر عمل کریں بچوں کی مشقت کو ختم کریں“۔ بچہ مزدوری کے خاتمے اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لئے لاہور پریس کلب میں – WISE(Women In)Struggle for Empowerment) کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرس کا اہتما م کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس کے مقررین جن میں وائز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشری خالق، سی آر ایم کے فوکل پرسن نذیر غازی، سرچ فار جسٹس کے سی ای اور افتخار مبارک، تنویر جہاں اور مقداد علی سید نے بچوں کی زندگیوں میں مشقت سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کے اثرات بارے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مؤثر قانون سازی اور کارروائی نہ ہونے کی بنا پر ملک بھر میں بچہ مزدوروں کی تعداد 2 کروڑ سے تجاوز کر گئی، پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح 14 فیصد کے قریب ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہر حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کا اعلان تو کرتی ہے مگر کوئی سیریس اقدامات نہیں اٹھاتی جس کی وجہ سے بچہ مزدوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مقریرین کے مطابق حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے لانگ ٹرم پالیسی بنائے، پنجاب میں ایک کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر اور اکثر مزدوری پر مجبور ہیں۔چائلڈ لیبر سے نمنٹے کے لیے پاکستان میں کئی قوانین بنائے گئے ہیں جن میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991، ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995، مائنز ایکٹ 1923 اور فیکٹریز ایکٹ 1934 شامل ہیں۔ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے پر 20 ہزار روپے جرمانہ اور قانون کی خلاف ورزی پر ایک سال قید بھگتنا پڑ سکتی ہے۔
پاکستان دنیا میں چائلڈ لیبرکی فہرست والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے جہاں ایک کروڑ سے زائد بچے محنت و مشقت کی چکی میں پسنے پر مجبور ہیں۔آج بھی چائلڈ لیبر ڈے سے بے خبر دنیا کے کروڑوں معصوم بچے انتہائی خطرناک ماحول میں فیکٹریوں میں مزدوری کرتے، گاڑیاں دھوتے، بھٹہ پہ اینٹیں بناتے، چاقو چھری تیز کرتے، جوتے پالش کرتے، کھیتوں میں مزدوری کرتے اور کوڑے کے ڈھیر سے خوراک چنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
پنجاب کی مصروف گلیوں، اینٹوں کے بھٹوں، فیکٹریوں اور زرعی کھیتوں میں پانچ سال تک کی عمر کے بچے کم اجرت پر لمبے وقت تک کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ بچے اکثر خطرناک حالات کا سامنا کرتے ہیں، خطرناک مشینری، زہریلے کیمیکلز کو سنبھالتے ہیں، اور بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کے اہل خانہ کو درپیش معاشی مشکلات اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں شعور کی کمی ان کمسن بچوں کو مزدوری کی طرف راغب کرتی ہے۔
مقررین نے یہ بھی کہا کہ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بچوں کی دیکھ بھال کی بنیادی اور لازمی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ غربت کی وجہ سے بچوں کو کام پر رکھنا ان کی صحت اور بچپن پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ جس سے انہیں جنسی تشدد، جسمانی تشدد، ذہنی تناؤ اور طاقت کے زیادہ استعمال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ صورت حال بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس کا آغاز ان کے والدین کی محبت سے محرومی سے ہوتا ہے اور تعلیم اور کھیل کے حقوق تک پھیل جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کام کی جگہ کے بجائے اسکول بھیجیں کیونکہ تعلیم بچوں کا بنیادی حق اور والدین کی ذمہ داری ہے۔بچوں کی پیدائش کے حوالے سے منصوبہ بندی کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔
مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ قوانین کے نفاذ کو بہتر بنا کر اور خلاف ورزی کرنے والوں کیلیے مزید سخت سزائیں متعارف کروا کر قانون کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے۔ مزید برآں، ضرورت مند خاندانوں کی مدد کیلیے سماجی تحفظ کے

پروگراموں کو وسعت دینے سے بچوں کی مزدوری پر ان کا انحصار کم ہوسکتا ہے۔ کمیونٹی کی شمولیت وکالت کے ذریعے چائلڈ لیبر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے اور ثقافتی رویوں کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جامع اور پائیدار حل تخلیق کرنے کیلیے سرکاری اداروں، این جی اوز، بین الاقوامی تنظیموں اور نجی شعبے کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ضروری ہے۔پنجاب اور پاکستان بھر میں چائلڈ لیبر کی سماجی و اقتصادی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کیلیے کثیرالجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں غربت کے خاتمے، معیاری تعلیم تک رسائی، سماجی تحفظ، کمیونٹی کی شمولیت، قانونی اصلاحات اور معاشی ترقی کو یکجا کیا جائے۔ جامع اور پائیدار حکمت عملی پر عمل درآمد کے ذریعے پاکستان ایک ایسا ماحول تشکیل دے سکتا ہے جہاں بچے سیکھنے، کھیلنے اور بڑھنے کیلیے آزاد ہوں اور بالآخر چائلڈ لیبر کے چکر کو توڑ کر روشن مستقبل کی راہ ہموار کریں۔

About Daily City Press

Check Also

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر عزم ہیں :سفیر ثقلین سیدہ

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *