Breaking News
Home / Columns / 23 مارچ ، قومی تاریخ کا اہم دن

23 مارچ ، قومی تاریخ کا اہم دن

umar faroqui

عمر فاروقی
یوم پاکستان ہماری قومی   تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ 23 مارچ کوہر سال ہم یوم قرارداد پاکستان مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت ا یک تاریخی قرار داد سے ہے جو  1938  میں سندھ مسلم لیگ کے     کراچی میں ہونے والے اجلاس میں  پیش کی گئی تھی۔ اس  قرار داد کے متن میں پہلی بار مسلمانوں کے   علیحدہ وطن کی بات  کی گئی تھی ۔ اس قرارداد کی منظوری کیلئےآل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے 22,23,24 مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں سندھ مسلم لیگ کی اس  تاریخی اہمیت کی  قرار داد لاہور پیش  کیا گیا  جو بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی، 21 مارچ 1940 ء کا قائد اعظم  لاہور  پہنچے جہاں لوگوں کا بہت بڑا اجتماع ان کا   استقبال  کرنے کو موجود تھا، مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ کہاجاتا ہے کہ لوگوں کا اسقدر ہجوم تھا کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، گرد و نواح کے تمام علاقے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے   ۔قائد اعظم جب جلسہ گاہ پہنچے اور انہوں نے    جلسہ عام سے طویل خطاب کیا۔ ان کی  تقریر کا دورانیہ100 منٹ پر  مشتمل تھا۔سندھ مسلم لیگ کی اس قرار داد کو بعد ازاں 23 مارچ 1940  لاہور  میں مسلمانوں کے ایک  بڑے اجتماع میں منظور کرلیا گیا  ۔    قرار داد میں اگرچہ پاکستان کا نام استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔ لیکن قرار داد پاس ہوتے ہی ذرائع ابلاغ  میں اس کا چرچا قرارداد پاکستان کے نا م سے ہی ہوا۔ کانگریس کے حلقے اوران کےزیراثر اخبارات اور اس وقت کے ذرائع ابلاغ نے اس قراداد  کو پسند نہیں کیا   ،  انہوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑانے کیلئے قرار داد لاہو ر کو قرار داد پاکستان کہہ کر اس کیخلاف مہم شروع کردی ،جس کا مسلم لیگ کے حلقوں کی جانب سے نہ کوئی نوٹس    لیا گیا نہ ہی اس سے انکار کیا گیا بلکہ قائد اعظمؒ نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی سالانہ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان کے تصور کو جو مسلمانوں کیلئے ایک عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے ان کی حفاظت ،نجات اور تقدیر کا راز اس میں پوشیدہ ہے ۔ بعد ازاں انہوں نے 21 نومبر 1945ء کو فرنٹئیر مسلم لیگ پشاور کی کانفرنس میں تقریر میں اپنے موقف کو دہراتے  ہوئے کہا کہ مسلمان قیام پاکستان کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں کہ اسی میں ان کی بقاء ہے‘‘ ۔ اس طرح قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی وہ سات برس کی جدوجہدکے بعد قیام پاکستان کی صورت میں اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے نام سے ایک نیاآزاد ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جو ہندوستان کی مسلما ن آبادی  کیلئے آزادی کا ایک نیا تصور تھا۔
لیکن دلچسپی کی بات ہے کہ پاکستان کے قیام سے لیکر 1956   تک اس حوالے سے ایسا کوئی قومی دن نہیں منایا جاتا تھا۔ایک قومی دن کے طور پر اسے منانے کی روائت 1956 سے شروع ہوئی جب 23 مارچ کو پاکستان میں پہلے جمہوری آئین کا نفاذ ہوا۔اس آ ئین  کے تحت پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اور اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر پاکستان بن گئے۔ اس مناسبت سے1957 اور1958  کے دوران23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان کے طور منایا جا تا رہالیکن اکتوبر1958 میں مارشل لا لگ گیا اور جمہوریت کا خاتمہ ہوا ۔1959 میںجمہوری سیٹ اپ کی جگہ ملک میں مارشل لا نافذ تھا اورجس آئین کے نفاذ کے دن کے لیے منایا جاتا تھا  وہ آئین ہی موجود نہیں تھا،  اس لئے 23 مارچ کو  یوم جمہوریہ پاکستان کے طور پر منانے کا جواز بھی ختم ہوچکا تھا ۔ لہذا مارشل لا دور کے بعد سے  اس دن کو یوم قرارداد پاکستان کے طور منایا جانے لگا۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ آزادی کسی بھی قوم کیلئے بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور ہمیں آزادی کی یہ نعمت 14 اگست 1947ء کو نصیب ہوئی ۔ لیکن قوموں کیلئے صرف آزاد ہونا  ہی منزل مراد نہیں ہوتا۔ آزادی کے تقاضوں کے شعور سے بھی ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے اپنی قومی آزادی کے بارے میں ہمار ے ہاں  سنجیدہ شعوری رجحان پید ا نہیں ہوسکا۔ کہ ہم ایک تبدیل شدہ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جو ہر لمحے تبدیلی کے عمل سے دوچار رہتی ہے۔  نہ ہم نے کبھی غورکیاہے  کہ تیزی سے بدلتی اس دنیا میں پاکستان کا آئین، پاکستان کی معاشیات، معاشرتی اور سماجی اقدار، عسکری اور تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہئے۔ ہماری قومی بقا اور ارتقا کے تقاضے کیا ہونے چاہئیں۔ 23 مارچ کو قومی دن کے طور پر مناتے ہوئے جہاں ہم وطن عزیز کی  سلامتی اور استحکام کی دعائیں کر تے ہیں توہمیں قومی معیشت کو مستحکم کرنے والی اقتصادی پالیسوں کا از سر نو تعین کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ہندوؤں کی بالادستی سے تو ہم نے نجات حاصل کرکے اپنے لئے علیحدہ وطن بنا لیا۔ لیکن اقتصادی غلبے کے حوالے سے معاشی غلامی،مالیاتی محتاجی اور خارجی بالا دستی سے نجات حاصل نہیں کرسکے ۔ تقسیم سے قبل ہندوستان کی اقتصادی، تجارتی اور مالی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس پر ہندو کی اجارہ داری تھی۔ بڑے مقاصد میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اقتصادی اور کاروباری طور پر ہندو کی اجارہ داری اور تسلط سے نجات دلانا بھی تھا کہ اپنے ایک علیحدہ وطن میں آزادی کے ساتھ اپنی کاروباری، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوںکا آغاز کرسکیں لیکن جب ہم اپنی  قومی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے۔
ملک اسوقت شدید ترین اقتصادی اور مالیتی بحران کا شکار ہے ۔ جس کے ریاستی رٹ پر بھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں اور داخلی خارجی محاذ پر حکومت کیلئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں ۔ ریاستی بے بسی کی صورتحال نے کاروبار مملکت چلانے کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ قومی آمدنی کے تمام ذرائع کم و بیش غیر مؤثر ہوچکے ہیں۔قومی معیشت کو وسائل کی کمی نے بے حال کررکھا ہے اور ہر طرح کے مالیتی ڈسپلن ناکام ہورہے ہیں ، غیرملکی قرضوں کے حصول کو حکومتی عہدیداروں نے اپنے کارناموں اور کامیابیوں کا حصہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال نے ریاستی اداروں کے اعتماد کو بھی غیر مستحکم کر کے رکھ دیا۔ ہر ریاستی ادارے کو اس کی اپنی بقا کے مسائل درپیش ہیں۔ جس کے سبب  وطن عزیز قومی اداروں کی باہم ترجیحات اور مفادات کی چھینا جھپٹی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
ہماری قومی تاریخ کا بڑا المیہ یہ رہا کہ 1973 تک وطن عزیز آئین سے ہی محروم رہا۔ آئین بنا اور ریاست کی تمام اکائیوں کے حقوق کا تعین کر دیا گیا اور سمجھ لیا گیا کہ اس دستاویز کے قرارو نفاذ کے بعد سیاسی ادارے مستحکم ہوجائیں گے لیکن آئین کے نفاذ کے چار سال بعد ہی ایک منتخب، آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرکے نہ صرف اسے برطرف کر دیا گیا بلکہ منتخب وزیراعظم کو ایک مقدمہ میں پھانسی کے پھندے کے حوالے کر دیا گیا جس نے  قومی سیاسی  استحکام کیلئے مسائل پیدا کردئیے جن سے آج تک ہم نجات حاصل نہیں کرسکے۔ آمروں نے آئین کا حلیہ بگاڑنے کی روش اپنائی اور عام آدمی کی سیاسی اور شخصی آزادیوں کو غصب کرنے کیلئے اس میں ترامیم کیں۔ اقتدار پر تسلط کے جنون میں قومی اقتصادی اہداف اور قومی اقتصادی ارتقا کے عمل کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کے  نتیجے میں قومی پیداواری کلچر کی نمو کے امکانات ہی ختم ہوگئے۔ صنعتی فروغ کی بجائے کنزیومرازم کو فروغ حاصل ہو گیا۔ قومی پیداواری عمل کے خاتمے کے باعث ہمارا ملک ہمسایہ ملکوں کی منڈی بن گیا ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے غیر متوازن ہونے سے قومی آمدنی کا مکمل انحصار قرضوں کی معیشت پر چلا گیا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے باعث ہماری معیشت پر غلبے کے اثرات نے ہماری قومی پیداواری صلاحیت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
آزادی کے ان گزشتہ 73 سالوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان73 سالوں میں ایسی کسی بھی صلاحیت اور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس پر آج بھی فخر کرسکیں اور نہ ہی ہم وطن عزیز کو خوابوں کی اس تعبیر سے ہم آہنگ کرسکے جن کا خواب ہمارے اکابر نے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد  ابھی تک ہم استحکام پاکستان کی جانب قدم بڑھانے میں ابہام کا شکار ہیں۔
ہمارے اکابر کے ذہنوں میںپاکستان کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر لانے کا مقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام تھا لیکن ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔بلکہ ہم عصر قوموں کے مقابل ہم دن بدن پسماندگی کا شکار ہو رہے اور پاکستان کو ترقی کی اس معراج اور اقوام عالم میں سربلندی کے اس منصب تک پہنچنے کیلئے ابھی ہم پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکے جس کا ہدف ہم نے اپنی آزادی کے مقاصد سے مشروط کیا تھا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقتصادی پسماندگی اور قومی محتاجی، ایک طرح سے قومی غلامی کا دوسرا نام ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قوم کی سلامتی اس کی عسکری صلاحیتوں اور دفاع کی مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوتیں لیکن موجودہ دور علاقائی فتوحات کانہیں اقتصادی فتوحات اور بالادستی کا دور ہے۔  اقتصادی پسماندگی   اور  قومی محتاجی دراصل قومی غلامی ایک ہلاکت خیز عمل ہے۔ہمارے ہاں ڈنگ ٹپاؤ اور ایڈہاک پالیسیوں کے قومی رجحان نے ملک کو اقتصادی طور پر بحرانوں کا شکار کر دیا ہے او  ر ہم آزادی کے73 سا ل بعد بھی اس میں تبدیلی نہیں لا سکے۔    موجودہ دور میں اقتصادی قوت اور استحکام کے حصول کو قومی ترجیحات میں بالادستی دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے قومی پیداواری عمل اور صنعتی کلچر کے فروغ سے جڑا ہوا ہے۔صرف یہی ایک صورت ہے جس سے ہم  ایک فلاحی ریاست کے قیام کی شروعات کرسکتے ہیں ۔ علیحدہ ریاست کی جدوجہد کی کامیابی میں پاکستان کا قیام تو عمل میں آگیا قوم کو قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کی جدوجہد میں شامل ہونا ہے جو اقتصادی اور معاشی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔


 

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *