وسیم بٹ(ہائڈل برگ)
خواتین کے حقوق اور ملکی ترقی میں کردار
کسی شاعر نے کہا تھا کہ وجود زن سے ہے کائنات میں بہار یہ سچ بھی ہے ۔کیونکہ اسی کے دم قدم سے سارے رنگ اور رنگینیاں ہیں ،لیکن خود اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے یہ ایک ایسا دلخراش واقعہ ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے اور اس وقت تک لکھ جاتا رہے گا جب تک خواتین کو مردوں کے معاشرے میں مساوئی حقوق میسر نہیں آتے۔ کہا جاتا ہے جو تقریباً درست بھی ہے کہ انسانی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر خاتون کو صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے( لیکن اب کچھ تبدیلیاں آتی جارہی ہیں اب خواتیں ہر جگہ فعال کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں)۔گھر کی زینت سمجھی جانے والی عورت کے لیے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یہ چار دیواری کے اندر ہی اچھی لگتی ہے۔قدامت پسند معاشروں میں ایک عورت کا کام سجنا، سنورنا، بچے پیدا کرنا اور تمام عمر گھر کے کام کاج میں مصروف رہنا سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں زندگی کے سنجیدہ، سماجی، معاشی اور معاشرتی معاملات سے بھی اسے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خواتین کے حقوق اور فرائض کے حوالے سے لکھنے والے کہتے ہیں کہ۔ پاکستان جیسے ملک میں گھریلو حالات، غربت، تنگ دستی، محرومیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عورت، جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا رہتا ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں۔اول تو ملازمت کے حصول کے لیے بھی سو طرح کے پاپڑ بلینے پڑتے ہیں اور فرض کیجیے کہ ملازمت مل بھی جائے تو بھی سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث اسے ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کے گھر سے نکل کر نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے یہاں تک ڈاکٹری کاا متحان پاس کرنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا، جبکہ اگر یہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر غریب اور متوسط گھرانوں کے لیے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتے جا رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ گھریلو ماحول کا مجموعی طور پر تناو¿ ہے جبکہ سماجی رشتے بھی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ طلاقوں اور خودکشیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔غریب گھرانوں کو اگر اپنے حالات بدلنے ہیں تو انہیں اپنے گھر کی بچیوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اعلیٰ تعلیم دلانی ہو گی ۔
دوسری جانب خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اجتماعی زیادتی جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پہلے کم نظر آنے والے یہ واقعات اب معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اس میں میڈیا کی فعالیت کا کا بھی کمال ہے۔ اس درندگی سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔یک رپورٹ کی مطابق سن 2017 میں بچوں سے زیادتی کے نو کیسز فی دن ریکارڈ ہوئے جبکہ موجودہ صورت حال میں یہ تعداد بڑھ کر 12 کیسز فی دن سے زائد ہوچکی ہے۔ہمارے معاشرے میں ایک عورت پر اگر تشدد کیا جاتا ہے تو ان میں سے اکثر خواتین صرف ظلم سہتی ہیں یا پھر آخری حد تک پر جاتے ہوئے خودکشی کر لیتی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اس کی کہیں شنوائی نہیں ہو گی۔ آج بھی ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اگر پرچہ درج ہو بھی جائے تو جس انداز میں تحقیقات ہوتی ہیں، وہ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے۔ ایک رپورٹ کی مطابق پاکستان کی 93 فیصد خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں صرف 10 فیصد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں کاروکاری، وٹہ سٹہ اور ونی جیسی جاہلانہ رسومات عروج پر ہیں۔ راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تضحیک کرنا، انہیں بلیک میل کرنا اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یعنی آج بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں، کسی کی بہن کے ساتھ اگر جنسی زیادتی ہو جائے تو بھائی اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے، بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے۔
یہاں خواتین کے عالمی دن منائے جاتے ہیں لیکن ہم سجھتے ہیں ان دنوں کے منانے کے موقع پر صرف مذمتی الفاظ، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اور کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہو گا۔ ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا، جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا، جن سے ناصرف نظام عدل پر انگلی اٹھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس حوالے سے مزید قانونی سازی کرنا ہو گی اور خواتین کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا۔
ادھر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتحال افسوسناک ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات بہت کم ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے 18 سے 49 سال عمر کی خواتین کا سروے ڈیٹا 13-2012ء جمع کیا گیا، ڈیٹا کہتا ہے کہ 12 فیصد خواتین معیاری تعلیم سے محروم ہیں، 49 لاکھ خواتین کم عمر شادی، خرابی صحت اور بیروزگاری کے مسائل سے دوچار ہیں، محروم خواتین کا 79.8 فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سندھی، سرائیکی اور پشتون خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں، پشتون خواتین تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں، بات صرف دیہی اور غریب خاندانوں تک محدود نہیں، امیر گھرانوں میں بھی خواتین کی کم عمری میں شادی کی شرح 24 فیصد ہے جبکہ غریب ترین گھرانوں میں کم عمری میں شادی کی شرح 63 فیصد ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امیر گھرانوں میں 13.4 فیصد خواتین صحت کی سہولیات سے محروم ہیں، انتہائی غریب خواتین کا 70.2 فیصد صحت کے مسائل سے دوچار ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں خواتین کی 70 فیصد شہری آبادی بھی کچی بستیوں میں رہتی ہے۔
یہ رپورٹیں گزشتہ برسوں کی ہیں لیکن کوئی تبدیلی اب بھی نہیں آئی اب بھی خواتین کے حوالے سے حالات جوں کے توں ہیں خواتین کو معاشرئے میں باعزت مقام دلانے اسے خود مختار بناے اور ظلم و تشدد سے بچانے کے لئے جہاں حکومتی سطع پر قانون سازی کے ساتھ شعوری آگاہی بہت ضروری ہے۔ وہیں افراد معاشرہ کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوے خواتین کے احترام پر مبن روئیوں کو فروغ دینا ہو گا جبکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لئے ملازمت کوٹہ میں مذید اضافہ کرے تاکہ خواتین تمام محکموں میں برابری کی سطع پر کام کریں جس سے معاشرے میں توازن پیدا اور محکمانہ کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
Tags blog waseem butt خواتین کے حقوق اور ملکی ترقی میں کردار
Check Also
وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی
اشعر سعید خان برطانیہ سے وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم …