آسام 20: لاکھ افراد ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار
عمر فاروقی
حالیہ ہفتے کے روزریاست آسام میں بھارتی شہریوں کی تصدیق شدہ حتمی فہرست جاری کر دی گئی۔ جس کے مطابق کئی دہائیوں سے آسام میں مقیم کم وبیش بیس لاکھ افراد کو ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار دے دیا گیا جن میں اکثریت مسلمان شہریوں کی ہے۔ قومی شہری رجسٹریشن یا این آر سی ایسے افراد کی فہرست ہے جو یہ ثابت کر پائے ہیں کہ وہ 24 مارچ 1971 سے پہلے ریاست میں آباد تھے۔
شہریوں کے قومی رجسٹریشن‘ یا این آر سی کے نام سے پکاری جانے والی اس کی تازہ فہرست جاری کیے جانے سے قبل سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ اس فہرست میں 1.9 ملین افراد کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔بھارت میں غیر قانونی اور غیر ملکی قرار دیے جانے والے بیس لاکھ افراد عملی طور پر اب بے وطن ہو چکے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی اپنے دعووں اور اعتراضات پر کیے گئے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے، وہ غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبیونل میں اپیل کر سکتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو شہریت کا حق ثابت کرنے کے لیے مناسب موقع فراہم کیا جائے گا۔آسام کے حکام کے مطابق شہریوں کے رجسٹر میں جگہ نہ بنا پانے والوں کو تمام قانونی آپشنز ختم ہو جانے تک غیر ملکی قرار نہیں دیا جائے گا۔ فہرست میں شامل نہ کیے جانے والے افراد کو 120 دن کے اندر اندر ٹریبیونل کے سامنے اپنی شہریت ثابت کرنا ہو گی اور اس کے بعد وہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی اپیلیں کر سکیں گے۔ حکام کے مطابق ان مراحل کی تکمیل کے بعد غیر ملکی قرار دیے جانے والے افراد کو حراستی مراکز میں مقید کر دیا جائے گا اور بعد ازاں انہیں ملک بدر کر کے بنگلہ دیش بھیج دیا جائے گا۔ بنگلہ دیش تاہم ان الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ آسام میں بنگلہ دیشی شہری مقیم ہیں۔
شہریوں کے قومی رجسٹر یشن کو اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے شروع کیا تھا۔ 2014 میں بی جے پی کے ایک رکن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے تازہ فہرست تیار کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ شہریوں کے کوائف جمع کرنے کے بعد ابتدائی فہرست گزشتہ برس جاری کی گئی تھی جن میں چالیس لاکھ سے زائد افراد کو ہندوستانی شہری تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ناقدین کے مطابق بی جے پی کا مقصد ہندوستان میں کئی دہائیوں سے مقیم آسامی مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا جنہیں یہ قوم پرست جماعت بنگلہ دیشی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔این آر سی نے آج جاری کردہ اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ عبوری فہرست کے بعد دائر کردہ اپیلوں پر نظر ثانی کے بعد مجموعی طور پر 31.1 ملین افراد کو ہندوستانی شہریت کا اہل قرار دیا گیا جب کہ 1.9 ملین افراد اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے۔
آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نژاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب اور ناخواندہ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد کھیتوں پر کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی پہلی فہرست جسے باضابطہ طور پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا این آر سی کے نام سے جانا جاتا ہے تقسیم ہند کے محض چار سال بعد 1951 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب لاکھوں افراد مشرقی بنگال کے پاکستان کا حصہ بننے کے بعد انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔اس فہرست کو آسام میں قوم پرست گروہوں کے مطالبات کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ریاست میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان سے خوفزدہ تھے۔لیکن یہ مسئلہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ سامنے آیا جب بنگلہ دیش نے اپنا آزادی کا اعلان کیا۔ اور جنگ کے دوران لاکھوں افراد بھارت نقل مکانی کر گئے جن میں سے متعدد پناہ گزین آسام میں جا کر آباد ہو گئے۔ 1979 میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کی زیرِ قیادت غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف تحریک چلائی گئی۔1983 میں یہ احتجاجی تحریک اس وقت پرتشدد ہو گئی جب مختلف مقامات پر ہجوم نے دو ہزار سے زیادہ مشتبہ تارکینِ وطن کو ہلاک کر دیا ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اے اے ایس یو اور کچھ دیگر علاقائی گروپوں نے بالاخر 1985 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ہر شخص کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ 24 مارچ 1971 سےآسام میں آباد ہے ،دوسری صورت میں اسے غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔لیکن اس معاہدے پر کبھی عمل نہیں ہوا۔1985 کے بعد سے ایک سو خصوصی عدالتوں نے 85 ہزار کے قریب لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔لیکن بی جے پی اور بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آبادکاروں کی ہے ۔تخمینوں کے مطابق ریاست میں 40 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ غیرقانونی طور پر مقیم افراد موجود ہیں۔