Breaking News
Home / City News / لاہور بڑا شہر ہے اس کے مسائل اور چیلینجز بھی بڑئے ہیں ان سے عہدابرا ہونا ہی میرا مشن ہے ،ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد

لاہور بڑا شہر ہے اس کے مسائل اور چیلینجز بھی بڑئے ہیں ان سے عہدابرا ہونا ہی میرا مشن ہے ،ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد

Graphic145:

ضمیرآفاقی
معاونت: کامران ابرار
عکاسی:فیصل
لاہور بڑا شہر ہے اس کے مسائل اور چیلینجز بھی بڑئے ہیں ان سے عہدابرا ہونا ہی میرا مشن ہے ،ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد
انتہائی متحرک زیرک باصلاحیت اور جوان ولولوں کے حامل ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد سے بات چیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرائم میں کمی کے لئے ہمیں ہر ہونے والے جرم یا واقعے کی کھوج اور وجوہات کا پتہ ہر صورت لگانا چاہے کیونکہ ہم مرض کا علاج اسی وقت کر سکتے ہیں جب اس کی درست تشخیص ہو

جن علاقوں اور ایریا میں جرائم کی سطع زیادہ ہو وہاں خصوصی نگرانی کی جاتی ہے وہاں پٹرولنگ میں اضافہ کرنے کے ساتھ نظر رکھی جاتی ہے تاکہ شہری محفوط اور ہر طرح کے خوف سے پاک ہو کر پرسکون نیند سو سکیں
جرائم میں اضافہ کرنے والے میں عوامل میںتین چیزین ہوتی ہیں اگر ان پر نظر رکھی جائے تو جرائم میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے ان میں پہلے نمبر پر ان افراد پر نظر رکھی جائے جو بار بار جرائم کرتے ہیں جیلوں میں جاتے رہتے ہیں یعنی عادی مجرم دوسرے نمبر پر دوسرے شہروں کے عادی مجرم جن پر ان کے شہر میں گھیرا تنگ ہوتا ہے تو وہ دوسرے شہروں میں جابستے ہیں اور وارداتیں شروع کر دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
شہریوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے تھانوں کا ماحول بہتر بنا رہے ہیں گاہے بگاہے پولیس کے جوانوں کی تربیت کے لئے مختلف سیمینار کرائے جاتے ہیں جہاں گیسٹ سپیکر بلائے جاتے ہیں جو ان کی ذہنی تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت اور انسانی جان کی حرمت و تکریم پر لیکچر دیتے ہیں۔

76

ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ سے ہے انہوں نے 1999 کیڈٹ کالج جوائن کیا،2005 میں آرمی جوائن کی 2013 تک آرمی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختلف محاذوں پر فرائض سر انجام دئے جن میں وزیرستان بھی شامل ہے بعد ازاں 2013 میں سول سروس میں انڈکشن ہوئی زریعے اور یوں یہ پولیس میں آگئے، 2015 میں ان کی پہلی پوسٹنگ بطور ایس ڈی پی او احمد پور شرقیہ میں ہوئی ،دوسری پوسٹنگ وزیر آباد میں بھی بطور ایس ڈی پی او ہوئی، اس کے بعد فیصل آباد میں رہے وہاں سے آن پرموشن پوٹھار راولپنڈی میں فروری 2019 میں تعیناتی ہوئی جہاں تین مہینے رہنے کے بعد لاہور آگئے ایس پی سول لائن کیپٹن (ر) دوست محمد ایک متحرک زیرک اور باصلاحیت آفیسر ہیں بڑئے کم عرصے میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس وقت لاہور میںایس پی سول لائن کے عہدے پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔لاہور میں ان کی تعیناتی کو ابھی ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن ان کو جوش اور ولولہ قابل دید ہے ان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ جوان ہے ایسے ہی باصلا حیت پولیس آفیسرز کی محکمے کو اس وقت ضرورت ہے جو ایک طرف شہریوں کو امن اور تحفظ فرام کر سکیں تو دوسری جانب انہیں شر پسندوں کے شر سے محفوط رکھنے کے ساتھ ان کے ساتھ دوستانہ ماحول کو فروغ دے سکیں ۔
گزشتہ دنوں ان کے آفس میں ان سے مختصر مگر جامع گفتگو ہوئی جس میں ان کے کام کرنے کے طریقہ کار اور لاہور کو کرائم فری کرنے یا کم کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی جس کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرم اور پولیس لازم و ملزوم ہیں بلکہ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں جرم ہو گا وہاں پولیس ہوگی تاکہ شہریوں کو پر امن پر سکون ماحول مہیا کرنے کے ساتھ ان کی تحفظ یقنی بنایا جا سکے ۔ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے دوست محمد نے بتایا کہ پولیس بھی اسی معاشرے کا عکس ہوتی ہے یہ کوئی باہر سے وارد نہیں ہوتی اسی معاشرے کا حصہ ہوتی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ پولیس اور عوام ایک پیج پر آ جائیں اور معاشرہ جرائم پیشہ افراد کے لئے دن بدن تنگ ہوتا جائے جس کا جواب دیتے ہوئے ا نہوں نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے اس کے لئے عوام ا ور پولیس کے درمیاں رابطوں میں اضافے کے ساتھ دوستانہ ماحول کو فروغ دینا ہو گا عوام کے اندر سے پولیس کا خوف ختم کرنا ہوگا باہمی یگانت اور بھائی چارئے سے ہی پولیس اور عوام ایک پیج پر آسکتے ہیں۔
ایس پی دوست محمد سے پوچھا گیا کہ لاہور جیسے ملٹی کلچرل بڑئے شہر آکر آپ کیسامحسوس کرتے ہیں، اپنے فرائض کی بجا آواری اور شہریوں کو کرجرائم پیشہ عناصر سے سے بچانے کے لئے کیا پلان رکھتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ ہر پی ایس آفیسر لاہور میں تعیناتی کو اپنے لئے خو ش قسمتی سمجھتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک بڑا شہر اور صوبائی دار الحکومت ہے جہاں آپ کو سئنیرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے یہاں سہولیات زیادہ ہیں ایک مکمل سسٹم ہے یہاں پولیس آرڈر کے مطابق کام ہوتا دکھتا ہے تفتیشی نظام الگ ہے واچ اینڈ وارڈ الگ ہے ہر شعبہ بہترین حالات میں فعال اور کام کرتا ہوا نظر آتا ہے یہاں ایک مکمل پولیسنگ موجود ہے۔ جس سے سیکھنے سکھانے کے وافر مواقع میسر آتے ہیں اور اس کے کیرئیر کوآگے لے جانے میںمدو و معاون ہوتا ہے جو آفیسر جہاں کچھ عرصہ گزار جاتا ہے اس کے بارئے سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہر شہر کے لئے فٹ ہے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرئے گا ۔آپ کو یہاں بے شمار پریشرز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل بھی آپ کو سیکھنے برداشت کرنے اور تحمل پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے ہر پولیس آفیسر کا خواب ہوتا ہے کہ وہ لاہور جیسے شہر میں کام کرئے۔
اس شہر کے مسائل اور چیلینجز بھی بڑئے ہیں میں بھی اس شہر کو بطور چیلنجز لیتا ہوں اور ہر ممکن کوشش ہو گی کی ان چینلنجز سے عہدہ برا ہو سکوں جو میری ذمہ داری اور فرائض ہیں انہیں احسن طریقے سے پورا کر کے اپنے افسران کی امیدوں پر پورا اترنے کے ساتھ عوام کی خدمت کر سکوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بڑئے شہر میں بڑئے لوگوں کے پریشر بھی بڑئے ہوتے ہیں کوئی ایسا پریشر آئے تو کیا کرتے ہیں کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ اگر بندہ اپنا کام ٹھیک طرح قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا کام پورا کرتا ہو تو پھر اسے کسی پریشر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ پریشر آتے ہیں ایک اچھا پولیس آفیسر پریشر میں گریس منٹین کرتا ہے پینک نہیں۔
جرائم میں کمی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں ہر ہونے والے جرم یا واقعے کی کھوج اور وجوہات کا پتہ ہر صورت لگانا چاہے کیونکہ ہم مرض کا علاج اسی وقت کر سکتے ہیں جب اس کی درست تشخیص ہو ،دوسرا جن علاقوں اور ایریا میں جرائم کی ریشو زیادہ ہو ان کی خصوصی نگرانی کی جاتی ہے وہاں پٹرولنگ میں اضافہ کرنے کے ساتھ نظر رکھی جاتی ہے جرائم سے پاک کوئی بھی معاشرہ نہیں ہوتا مگر اس میں بہترین اقدمات سے کمی لائی سکتی جس کے لئے ہماری کوششیں جاری رہتی ہیں کوئی بھی آفیسر اپنے علاقے میں جرائم کو بڑھنے سے روکنے کے لئے ہر طرح کے اقدمات اٹھاتا ہے تا کہ اس کے علاقے کے شہری پر سکوں رہنے کے ساتھ تحفظ محسوس کریں۔۔
جرائم میں اضافہ کرنے والے میں عوامل میںتین چیزین ہوتی ہیں اگر ان پر نظر رکھی جائے تو جرائم میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے ان میں پہلے نمبر پر ان افراد پر نظر رکھی جائے جو بار بار جرائم کرتے ہیں جیلوں میں جاتے رہتے ہیں یعنی عادی مجرم دوسرے نمبر پر دوسرے شہروں کے عادی مجرم جن پر ان کے شہر میں گھیرا تنگ ہوتا ہے تو وہ دوسرے شہروں میں جابستے ہیں اور وارداتیں شروع کر دیتے ہیں اس کے لئے شہریوں کا تعاون بھی ضروری ہے کہ وہ انہیں ملازمت اور مکان کرائے پر دیتے وقت پولیس سے تعاون کرئے اس کے ساتھ کیونکہ جرائم میں زیادہ تر موٹر سائکل استعمال ہوتے ہیں جس کے لئے سنیپ چینکنگ وغیرہ کرتے رہنا چاہئے۔
ان سے ڈالفن فورس کی کارکردگی بارئے پوچھا گیا تو اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈالفن فورس سٹریٹ کرائم کو روکنے کے لئے بنائی گئی ہے جس کا کام فوری رسپانڈ کرنا ہے اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس فورس کی کارکردگی کافی بہتر بھی ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
تھانوں کی عمارتیں خوشنما بنانے یا اچھی گاڑیاں ،موٹرسائکلیں، وردیوں کا رنگ بدلنا شائد اچھا عمل ہو لیکن کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جب تک ہم پولیس کے روئیوں میں بہتری نہیں لاتے اس وقت تک شائد ہم معاشرے کو بہتر پولیس نہیں دے سکتے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے دوست محمد نے کہا کہ یس بلکل آپ نے درست فرمایا اس کے لئے ہم کوششیں کر رہے ہیں تھانوں کا ماحول بہتر بنا رہے ہیں گاہے بگاہے پولیس کے جوانوں کی تربیت کے لئے مختلف سیمینار کرائے جاتے ہیں جہاں گیسٹ سپیکر بلائے جاتے ہیں جو ان کی ذہنی تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت اور انسانی جان کی حرمت و تکریم پر لیکچر دیتے ہیں اس کے ساتھ انہیں بھی عزت و احترام چاہیے ہوتا ہے اس کے لے پولیس کے اعلی افسران ان سے عزت و احترام سے پیش آتے اس طرح کے عوامل کے مستقل عمل سے امید ہے پولیس کے روئیوں میں تدریجاً بہتری آتی جائے گی۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر تنخواہ بڑھا دی جائے تو پولیس کے روئے بہتر ہوسکتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے دوست محمد نے بڑی پتے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر فورس میں دس فیصد ناقابل اصلاح ہو تے ہیں جبکہ دس فیصد قابل اصلاح جبکہ اسی فیصد ٹھیک ہوتے ہیں آپ اگر تنخواہ بڑھا بھی دیں تو جو ناقابل اصلاح ہیں وہ شائد درست نہ ہوں اور جو قابل اصلاح ہیں وہ درست ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں ان اسی فیصد کو ڈیل کرنا ہے اس لئے تنخواہوں میں اضافے سے اسی فیصد کے روئیوں میں بہتری آ سکتی ہے اس کے ساتھ ہی ان کے ڈیوٹی ٹائم کو بھی کم کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سزا اور جزا کا عمل بھی پولیس فورس کے روئیوں کو درست کرنے میں معاون ہو سکتا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ سزا اور جزا کے بغیر کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا پولیس کا اپنا سزا و جزا کا نظام ہے جس کے تحت پولیس فورس کے تمام افعال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ سزا اور جزا بہت ضروری ہے جو اچھا کام کرئے اسے تعریف و توصیف اور نعام کا حقدار ٹھرائے جانا چاہیے جبکہ برا کام کرنے والے کو قانون کے مطابق سزا سے فورس میں بہتری آسکتی ہے ۔
آئیڈل معاشرہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس بات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے لئے ہر فرد کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جو اس کی ذمہ داری ہے اور فرائض ہیں انہیں انتہائی ایمانداری، نیک نیتی سے اپنی صلاحتیوں کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو بہتر کرنے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے رحم کے جذبوں کو فروغ دینے اور مدد کرنے سے ہم توقع کر سکتے ہیں کہ معاشرہ آئیڈیل نہ سہی مگر تمام انسانوں کے رہنے کے لئے ساز گار اور بہتر ہو سکتا ہے۔
تھانہ انصاف فراہم کرنے کی بنیادی اینٹ ہے اس اینٹ کو درست اور تھانوں کے اندر خوف کی فضا کو کیسے دور کر کے عوام کو پولیس کے قریب کیسے لایا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے دوست محمد نے کہا کہ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو چیز ضابطے سے درست نہیں ہو سکتی وہ رابطوں سے درست ہو سکتی ہے رابطے اگر آپ کے ٹھیک ہوں لوگوں کے ساتھ آپ اچھے روئے اور ماحول میں بات چیت کریں انہیں عزت دیں وہ آپ کو عزت دیں کھلی کہچریاں اس کا ایک بہترین راستہ ہے جبکہ معاشرئے کے سٹیک ہولڈر ، میڈیا، تاجر عمائدین شہر علما ¾ کرام ان سب سے رابطوں کو بڑھاتے ہوے ہم پولیس اور عوام کو قریب لاسکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ ضروری بھی ہے کیونکہ معاشرہ بہتر بنانے میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ رہ گئی خوف دور کرنے کی بات تو محکمہ پولیس میں اس ضمن میں اصلاحات کا عمل جاری ہے فرنٹ ڈیسک پر سویلن کو بٹھایا گیا ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اپنا مدعا بیان کر سکین اس کے علاوہ شکایت سیل بنائے گئے ہیں اب تو آن لائن شکایات درج کرائی جاسکتی ہے غرض ہم دن بدن بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ عوام اب ماضی کی نسبتاً زیادہ محفوظ اور عزت دار ہے اور انہیں کسی قسم کو کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے وہ محفوظ بھی ہیں مامون بھی۔

About Daily City Press

Check Also

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر عزم ہیں :سفیر ثقلین سیدہ

حکومت اور سفارت خانہ دونوں ہی” پاکستان” کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لیے پر …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *