حنیف انجم
نالج
کیا اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کامیاب ہو جائے گی؟
اسلام آباد میں ہونے والی آل پاکستان پارٹی کے انعقاد اور اختتام پر سامنے والی آراءمیں کہیں مایوسی کا اظہار سامنے آیا ہے تو کہیں اسے مستقبل کی سیاست کا نقشہ تبدیل ہوتے محسوس کیا گیا ہے اے پی سی پر رائے دینے یا بات کرنے سے پہلے ہم اس کے انعقاد کی وجوح پر بات کرتے ہوے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ کیا وجہ ہوئی کہ ابھی حکومت بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوے تھے کے تمام پارٹیاں حکومت کے خلاف صف آرا ءہو کر اسے ہٹانے کی باتیں کرنے لگیں، حالانکہ تمام جماعتوں کے سرکردہ لیڈران کرام اس پارلیمنٹ کے فلور پر بار ہا اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ہم اس حکومت کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ اسے پورا وقت دینا چاہتے ہیں ۔ لیکن اس حکومت کے دس ماہ بعد ہی ایسی کیا افتادآن پڑی کہ ساری کی ساری اپوزیشن شدید ترین مخالف بن کر حکومت کے سامنے آگئی اس کا جواب بڑا سیدھا ہے کہ کہ اپوزیشن کی جانب سے اعتماد دوستی اور اچھی فضا برقرار رکھنے کے لئے بڑھائے گئے تمام ہاتھوں کو حکومت نے نہ صرف بری طرح جھٹک دیا بلکہ اسے اپوزیشین کی کمزوری سمجھتے ہوئے اسے دبانا بھی شروع کر دیا گیا۔ بجٹ سیشن کے دوران، ملکی معشیت کی بدحالی پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے ”میثاق معشیت“ اور سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے صرف یہ کہنے پر کہ ’آو پرانی باتیں بھول کر ملکر ساتھ چلتے ہیں‘ پر حکومتی بنچوں کی جانب سے این آر او مانگنے کے کا اتنا شور اٹھا کہ بی بی مریم نواز کو اپنے چچا کے خلاف جاتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ یہ میثاق معشیت نہیں مذاق معیشت ہے۔ بس یہی وہ ٹرنگ پوائنٹ تھا جب مفاہمت کے” چراغوں میں روشنی نہ رہی“ اور حکومت مخالفت کی آندھی چل پڑی اب یہ آندھی کب طوفان بنتی ہے اور کیا کیا بہا لے جاتی ہے ابھی قبل از وقت ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ حکومت کے لے اب مشکلات بڑھتی جائیں گی۔
اے پی سی میںحزبِ اختلاف کی جماعتوں نے سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے پر اتفاق کیا تھا اور ایک گیارہ رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی جو حکومت کے خلاف تحریک کے لئے متفقہ ایجنڈا سامنے لائے گی جس نے حکومت کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں اور وہ جوڑ توڑ کی سیاست کی راہ پر چل پڑی کبھی بنی گالا میں رونقیں لگائی جارہی ہیں تو کبھی کوئی خفیہ مقام ڈھونڈا جاریا ہے لیکن بات بنتی نظر نہیں آرہی۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب کو اس احتجاجی تحریک کا مرکز بنا یا جائے گا اور پچیس جولائی کو یو م احتجاج منایا جائے گا۔ اس کانفرنس میں اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، مریم نواز اور آفتاب شیر پاو¿ سمیت اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنماوں نے شرکت کی۔حزبِ اختلاف کی جماعتیں پر امید ہیں کہ حکومت کے خلاف یہ تحر یک کامیاب ہوگی۔ شنید ہے کہ نواز شریف نے فضل الرحمن کو پورا مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں۔
اے پی سی کے حوالے سے کچھ تجزیہ نگاروں اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے حوالے سے حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ن لیگ میں شہباز شریف کا گروپ اور پی پی پی میں زرداری کا گروپ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں چاہتا اور نہ ہی حکومت کے خلاف کوئی سخت احتجاج کرنا چاہتا ہے۔ ناقدین کے خیال میں وہ اس مسئلے پر شدید اختلافات کا شکار ہیں۔ مریم نواز چاہتی ہیں کہ یہ حکومت فوری طور پر ختم ہو جائے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے، اس کی وہ بات نہیں کرتی لیکن شہباز شریف کے خیال میں اگر حکومت ختم ہوتی ہے تو اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ وہ دوبارہ ان حالات میں اتنی نشستیں حاصل بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ بالکل اسی طرح پی پی پی تو اس سسٹم کو ختم کرنا نہیں چاہے گی کیونکہ سندھ میں اس کی حکومت ہے۔ تو حکومت کو ہٹانے کے لئے صرف جے یو آئی ہی متحرک ہے بقیہ سیاسی جماعتوں میں حکومت کو ہٹانے کے حوالے سے اتفاق نہیں ہے اور وہ کسی حکومت مخالف تحریک میں سرگرمی سے حصہ بھی نہیں لیں گے۔
تجزیہ نگاروں کی باتیں ضروری نہیں کہ سب درست بھی ہوں کیونکہ اس وقت ملک میں کاروبار بند پڑئے ہیں مہنگائی کے طوفان میں کمزور طبقات کے ساتھ درمیانی کلاس کے لوگ بھی بہت پریشان ہیں کام دھندہ ہے نہیںا ور اخرجات ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اگر اپوزیشن صرف اور صرف عوامی مسائل کو ایک نکاتی ایجنڈے کے طور پر سامنے لیکر تحریک کو منظم کر لے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ تحریک عوامی طاقت کے بل بوتے پر زور پکڑ لے گی کیونکہ مہنگائی کے مارئے عوام صرف کوئی محرک چاہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں اپیکا نے بھی مہنگائی کے ایشو پر کافی لوگ اکٹھے کر لئے تھے جبکہ جماعت اسلامی نے تو اپنی طاقت کا اظہار بھی کیا ا ور اپنی طاقت کو منوا بھی لیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی ایسا بیانیہ سامنے لے کر آئے جو زبان زد عام ہو جیسے خان صاحب نے کرپشن کے بیانیے پر اپنی ساری الیکشن مہم چلائی ایسے ہی اپوزیشن کو کوئی جاندار بیانیہ اپنانا پڑئے گا اب اپنے اپنے اسیران کے لئے چلائی گئی کسی تحریک میں عوامی شمولیت کی امید نہ رکھی جائے بلکہ قومی مسائل ہی اجاگر کئے جائیں تو کامیابی کے چانسز بڑھ سکتے ہیں اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں بھی حکومت کے خلاف دباو بڑھانے سے اپوزشین کو تقویت ملے گی۔
Tags Column column anif anjum