پرانی اینٹوں سے نئے پاکستان کی تعمیر
افتخار بھٹہ
پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ VIPکی پکڑ دھکڑ تو ہو رہی ہے لےکن پیسہ نہیں مل رہا ہے اب کمیشن بن رہا ہے جو کہ زرداری اور نواز شریف کے عہد حکومت میں لےے گئے قرضوں کے استعمال اور کرپشن کے بارے میں تحقیقات کرے گا اس سے قبل کئی کمیشن بنے ہیں حمود الرحمان کمیشن ، میمو گیٹ کمیشن مگر کیا فائدہ ہوا ۔احتساب کی بات درست ہے جس کا بنیادی مقصد کرپشن کے پیسے کی وصولی ہے کیونکہ قومی خزانے میں اس کی ضرورت ہے کہ کچھ ریکوری کی جائے مزید خرچوں کے بوجھ میں کمی کی جائے سادگی کی دعوئے دار حکومت کے آخراجات سب کے سامنے ہے حکومت کے کئی سو تر جمان ہیں بالخصوص پنجاب میں لوگوں کی توجہ کاموں کے حوالے سے مسلم لیگ کی مقامی لیڈر شپ سے ہٹانا ہے اور ان کے کام کروانا ہے ہر ضلع میں تحریک انصاف کے پنجاب کے ہر ضلع میں تحریک انصاف کے منتخب اراکین نہیں موجود ہیں اگر ہیں تو ان سے رابطہ کرنا خاصہ مشکل ہے دوسرا ضلعی حکومتوں کی عدم موجودگی میں مقامی مسائل کے حل کے حوالہ سے عوام سے رابطے میں راہنا ہے بجٹ نے بھی خسارے بڑھا دیئے ہیں بیچاری قوم کے پاس ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد بنیادی ضروریات زندگی کی خرید کےلئے کچھ نہیں بچے گا اور وہ آئندہ بجٹ تک پیٹ پر پتھر باندھنے ہونگے معیشت کے امور سنجیدہ اور اعداد و شمار خاصے پچیدہ ہوتے ہیں ملک کی اقتصادی بحالی کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں سنا رہے ہیں ان کے تبصرے بجٹ خساروں میں اضافے کی طرف لے جاتے ہیں معاشی مشکلات محض احتساب کے نعروں اور جذباتی لفاظی سے حل نہیں ہوتے ہیں اداسی ہمارے شہروں کے مکانوں اور دیواروں پر بال بکھیرے سو رہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے کئی محاذ ایک ساتھ کھول دیئے ہیں کیا حکومت اتنی مقبول ہے کہ تمام کھلواڑ کو سمینٹ لے گئے حکومتی پالیسیوں نے اس کی کارکردگی کا بھرم کھول دیا ہے ۔ بجٹ کے حوالے سے تمام طبقات پریشان ہیں صرف حکومت میں شامل لوگ اس بجٹ کو انقلابی قرار دے رہے ہیں اور نئے پاکستان کا بجٹ قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومتی تجاویز سے ریاستی آمدنی میں اضافہ ہوگا صورتحال یوں لگتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے جبکہ ہمارے وزےر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام آ گیا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت کہیں ٹکتی ہوئی دیکھائی نہیں دیتی ہے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین منڈی کی قوتوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کی قیمت کے حوالے مرکزی بینک کو اقدامات کرنے ہونگے ۔
دوسرا محاذ سیاستدانوں کے احتساب کی وجہ سے کھل گیا ہے میاں نواز شریف پہلے سے جیل میں ہیں اب آصف علی زرداری کے ساتھ ان کی بہن فریال تالپور کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے حمزہ شہباز حراست میں ہے احتساب بیورو کی طرف سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ایف بی آر بھی حرکت میں آ چکا ہے اور لوگوں کو نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں ایک حکومتی عہدیدارکے بقول 5ہزار افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس احتساب کو سیاسی انتقام قرار دے رہی ہے حالانکہ یہ مقدمات ان کے اقتدار کے دوران قائم ہوئے تھے دیگر جماعتیں بھی اپوزیشن کے موقف کی حامی ہو رہی ہیں گزشتہ روز رائے ونڈ میں مریم نواز کے ساتھ بلاول کی ہونے والی ملاقات سے اپوزیشن کے نئے اتحاد بنانے کا تاثر ابھرا ہے اور وہ جلد ہی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں شائد اس کا اعلان آل پاکستان پارٹی کی کانفرنس کے بعد ہوگا جس کا اہتمام مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں اور اس ضمن میں تمام سیاست دانوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں مگر اس کے لئے عوام اور سیاسی کارکنوں کا متحرک کرنا ضروری ہوتا ہے سیاسی کارکنوں کے متحرک ہونے سے ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اگر یہ جانثار نہ ہوتے تو پاکستان وجود میں نہ آتا ان کے بغیر سیاسی جلسے بے کیف رہتے ہیں ۔ پاکستان میں جب سیاسی تحریک چلتی ہیں تو سیاسی کارکان دیوانگی کے ساتھ جلسے جلسوں میں شریک ہوتے تھے لیڈر پیدل چل کر جلوسوں کی قیادت کرتے تھے ، کارکنوں کی اپنے لیڈروں کے ساتھ نظریاتی اور شخصی وابستگی ہوتی تھی اور انہیں یقین ہوتا تھا یہ ان کے مسائل کا حل نہیں کرے گا مگر آج کل جلسے جلوس ہوتے ہیں لیڈر ائیر کنڈیشن گاڑیوں میں بیٹے رہتے ہیں ان کی حفاظت کی بجائے کارکن کی بجائے سیکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں جلسوں میں مختلف جگہوں سے معاوضہ دے کر لوگوں کو جلسہ گاہ میں لایا جاتا ہے، ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کے جلسے جلوسوںمیں افراد میلوں پیدل چل کر آیا کرتے تھے مگر اب یہ کلچر بدل گیا ہے سیاست دانوں اور پارٹیوں کے پاس کوئی نظریات اور پاکستان میں مستقل کی سماجی معاشی اور فلاحی پالیسیوں کےلئے کوئی روڈ میپ موجود نہیں ہے اب وہی الےکشن میں حصہ لے سکتا ہے جس کے پاس کروڑوں روپے خرچ کر نے کےلئے ہوتے ہیں نیا سیاسی کلچر ل کے فروغ میں جنرل ضیاءالحق کا سب سے زیادہ کردار ہے جس نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ذات ، نسل ، برادری اور فرقہ وارنہ تضادات کو ابھارا تھا کہیں پر کراچی میں سیاسی جماعتوںکو دبانے کےلئے ایم کیو ایم بنائی یہ بد قسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ نے بھی کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی اور انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ انتخابات میں منانے کی کوشش کی جاتی ہے کئی لیڈر تو سالوں اپنے حلقوں سے غائب رہتے ہیں اور صرف انتخابات پر ہی منہ دیکھاتے ہیں ۔
ٹیلی ویژن پر مختلف جماعتیں اپنے لیڈروں اور نمائندوں کو ٹی وی ٹالکس میں شرکت کےلئے بھجواتی ہیں جن کا تعلق بالخصوص مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے ہوتا ہے جبکہ کبھی کبھار سیاست ، معیشت ، سماجیت اور سوشل سائنسز کے ماہرین کو ان میں شرکت کےلئے دعوت دی جاتی ہے سیاسی شعراءکا حسب معمول ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے جس سے ان کی فکری بصارت کا بر ملا اظہار ہوتا ہے جبکہ کچھ پاریوں کے پاس ایسے بھی نمائندے ہیں جو کہ پوری تیاری کے ساتھ ان پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں گزشتہ دنوں جب بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز سے ملاقات کرنے کےلئے آئے تو ان کے ساتھ قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور احمدوغیرہ موجود تھے،ایک نجی چینل پر مذاکرے میں ایک سیاسی شخصیت نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ اس کے پاس کوئی قد آور شخصیت نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور کو ہر ملاقات میں اور میٹنگ میں لے جایا جاتا ہے یاد رہے ان دونوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہے یہ کسی مراعات یافتہ طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں انہوں نے سیاست میں یہ مقام طالب علمی سے لےکر آج تک اپنی نظریاتی جدو جہد کے حوالے سے بنایا ہے وہ ترقی یافتہ نظریات کی حامل شخصیات ہیں اور ملک میں محنت کش طبقات کےلئے بنیادی تبدیلیوں کےلئے جدو جہد کر رہے ہیں وہ ملکی مسائل کے حوالے سے عملیت پسند نظریاتی فہم رکھتے ہیں وہ یقینا بلاول کی سیاست کو ذوالفقار علی بھٹو کی انقلابی نظریاتی سیاست کی راہ پر چلانے کی کوشش کرینگے جس سے یہاں پر عوامی فلاحی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ان دونوں میں اسٹیٹ مین شپ نظر آتی ہے جبکہ باقی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے محض ہوا میں فرضی باتیں کرتے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے دیکھائی دیتے ہیں ، پارٹی کو متحرک کرنے کےلئے روٹھے ہوئے کارکنوں کو منانا ضروری ہے کیونکہ اس پارٹی کے مخلص کارکن اپنے لےے کچھ نہیں چاہتے بلکہ وہ عوام کے حقوق چاہتے ہیں تا کہ ان کے حالات تبدیل ہو جائیں یہی کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی خصوصیت پی ٹی آئی میں موجود ہے جس نے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور قیادت کو پیچھے دھکیل کر ان مفاد پرست طبقات اور غیر منتخب افراد کو سامنے کیا ہے جو کہ اس کے نظریات کے بنیادی طور پر مخالف ہیں تحریک انصاف پرانی اینٹوں کے ساتھ نئے پاکستان کی تعمیر کرنے چلی ہے جس میں ایسے گھرانوں کے لوگ شامل ہیں جو کہ تسلسل کے ساتھ اقتدار میں موجود رہے ہیں اور ملک کے معاشی اور سیاسی بگاڑ میں خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف نے نئے پاکستان کی تعمیر کےلئے احتساب کے نام پر ووٹ لےے تھے آج اقتدار میں آنے کے دس سال بعد بھی معاشی اور سیاسی ترقی کا کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام ہے وہ اب تک دو ضمنی اور ایک سالانہ بجٹ پیش کر چکی ہے اس نے اپنی معاشی ٹیم کو باہر نکال دیا ہے جبکہ غیر منتخب مشیروں اور عالمی اداروں کے عہدیداروں کی مدد حاصل کی ہے اس کا مقصد آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا ہے یہ بات یاد رہے کہ تحریک انصاف مڈل کلاس کے ووٹوں کے ذریعے انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے اس لےے وہ انہیں ہی ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرے گی س کا ملک کے غریب طبقات کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ معاشی اصلاحات کی بجائے احتساب کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتی ہے جس کے تحت شریف برادران اور زرداری خاندان کا احتساب ہی ملک و ملت اور جمہوریت کےلئے کافی ہے جبکہ عوام چاہتے ہیں ملک کے تمام طبقات جنہوں نے بد عنوانی کے ذریعے لوٹ مار کی اپنے اثاثے بنائے ، کالا دھن کمایا ان کا احتساب کرنا چاہیے تا کہ غیر جانبدارانہ احتساب کا تصور اجاگر ہو سکے، محض سیاست کو بد نام نہیں کرنا چاہیے دیگر خارجی ، داخلی اور معاشی معاملات بھی قابل توجہ ہیں ، ایک وقت میں محب وطب اور غدار وطن کے شور مچائے گئے جس کی تان فاطمہ جناح پر ٹوٹی، پھر ایشیا سرخ کی ہوا چلی قائد عوام بنا اس کا کیا حشر ہوا پھر سیکیورٹی رسک اور میڈاِن پاکستان کے نعرے وجود میں آئے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا دوسری قسط میں نواز شریف خاندان کا احتساب ہوا زرداری د س سال تک جیل میں رہا آج بھی جیل میں بھی سیاست کی تان اس پر ٹوٹتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے ملک میں ہر سطح پر انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے معیشت سنبھالی نہیں جا رہی آصف علی زرداری اور نواز شریف سے سیاسی اختلاف رکھنے کے قطع نظر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے میں ان کا اہم کردار ہے جس میں سی پیک کے تحت سڑکوں اور بجلی گھروں کی تعمیر ، اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کے مسائل کو حل کرنا مگر اب ہمیں سی پیک کی پیش رفت میں کچھ نہیں بتایا جاتا ، اس افرا تفری کے منظر میں نئے پاکستان والے پرانی اینٹوں سے نئی تعمیر کرنے جا رہے ہیں ، ان کے اقدامات سے صنعت کاری اور تجارتی عمل رک گیا ہے محض خیالی پلاﺅ پکانے سے پیٹ نہیں بھرا جا سکتا ، آج عمران خان کو اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اپنی کارکردگی کا لوہا منوانا ہوگا ، ملک کی معاشی ترقی کےلئے سٹرکچرل اقتصادی معاشی اور انتظامی اصلاحات کریں انصاف اداروں پر چھوڑ دیں خود کام کریں محض سیاسی مخالف کی بنا پر دوسروں کی تذلیل نہ کریں یوں محسوس ہوتا ہے یہ سب ڈرامہ زرداری اور نواز شریف سے شروع ہو کر محض افسانے اور قصے کہانیاں نہ بن جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Tags Column column iftikhar bhutt