وفاقی بجٹ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی ضرورت ہے
تحریر: افتخار بھٹہ
موجودہ بجٹ جس سیاسی محاذ آرائی اور معاشی تنزلی کی بحرانی کیفیات میں پیش کیاگیا ہے جہاں پر تمام سیکٹرز نے معاشی گرﺅتھ انتہائی سست روئی کا شکار ہے سب سے بڑا مسئلہ حکومت کو چلانا ، یوٹیلٹی اداروں کو سبسڈی دینا، قرضوں پر سود کی ادائیگی، ترقیاتی کاموں کو مکمل کروانا اس کے ساتھ صحت تعلیم اور پینے کے پانی کا فراہم کرنا انصاف کی فراہمی یو یقینی بنانا بڑھتا تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اور سب سے بڑ کر روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو روکنا شامل ہے حکومت کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے کےلئے موصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا بھی اہم ہے حکومتی اداروں کی نا اہلیت اور کرپشن کی وجہ سے سابق حکومتوں نے کبھی ٹیکس ریکوری ٹارگٹ پورے نہیں کےے ہیں جس کی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد سے خسارے کے بجٹ پیش کےے گئے ۔آخراجات کو پورا کرنے کےلئے قرضہ جات حاصل کےے گئے جن میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہونے کے ساتھ سود کی ادائیگوں کا بوجھ بھی بڑھتا رہا روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بارے میں وزےر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کےلئے کمیشن قائم کریں گے مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں روپے کی قیمت 2008سے2019کے دوران کتنی گری ہے اس لےے چھ ہزار ارب روپے کے قرضہ جات سود کی ادائیگی کےلئے لئے گئے قرضہ جات اور نئے قرضوں کے اضافہ ہونے سے 30ہزار ارب تک پہنچ گئے ہیں ، پچھلے ادوار میں عبدالحفیظ شیخ وزیر خزانہ رہے ہیں اب انہی سے ہی ان قرضوں کے استعمال کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے اس کے علاوہ حکومتی دستاویزات موجود ہیں جن میں آمدنی آخراجات اور قرضہ جات کے استعمال کے حوالے سے تفصیلات موجود ہیں وزےر اعظم کمیشن بنانے میں با اختیار ہیں اور اس میں اپنی مرضی کے اداروں سے افراد کو شامل کر سکتے ہیں یاد رہے کہ بجٹ سازی اور معاشی پالیسیاں تکنیکی نویت کی ہوتی ہیں جس کےلئے معاشی اور اکاﺅنٹس کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کو سمجھنا حاصہ پچیدہ کام ہے لہذا ان تحقیقات کا مقصد محض لوگوں کو ہراساں اور قومی خزانہ ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا پہلے ہی ہمارے ادارے خوف و ہراس کی ہیجانی کیفیات کی وجہ سے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں عوام حکومت اور اس کے اداروں میں ٹیکس ریکوری اور حکومتی پالیسی کے حوالے سے بد اعتمادی کی فضا موجود ہے
بجٹ کسی حکومت کی آئندہ سال کےلئے معاشی ترجیحات کا تعین ہوتا ہے جس سے سرمایہ کاروں ، تاجروں صنعت کاروں اور عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی ترجیحات کیا ہونگی یاد رہے قیام پاکستان کے بعد پیش ہونے والے بجٹ کبھی انقلابی یا نظام میں تبدیلی میں معاون ثابت نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے مارکیٹ میں اصلاحات کاروبار میں فروغ اور شہریوں کی سہولیات میں اضافہ ہونے کی بجائے ٹیکس کے نام پر لوٹ کھسوٹ شہریوں کو ٹیکس کے نام پر دھمکانا اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہے ۔ موجودہ بجٹ سابق بجٹوں سے زیادہ بے سمت زیادہ جابرانہ اور استحصالانہ ہے جس میں اشیائے خوردنی سے لیکر تمام اشیائے ضروریات جو کہ ملک کے 90%غریب عوام طبقات استعمال کرتے ہیں ان پر بلاواسطہ ٹیکس عائد کر دیئے ہیں جس میں آٹے تیل ، گوشت ، گھی کے علاوہ دیگر تمام چیزیں شامل ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 5%سے10%اضافہ کر کے ان پر ٹیکس لگا کر واپس لے لیا گیا ہے جس سے ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی کا حدشہ ہے دوسری طرف انہیں مہنگائی کی وجہ سے یوٹیلٹی بلز کے بڑھنے ، مکان کا کرایہ ، صحت اور تعلیم کے اضافی آخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا اس طرح پچاس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والوں کو سالانہ 41ہزار روپے زائد خرچ کرنا پڑے گا وہ ان آخراجات کا انتظام کہاں سے کرے گا یہ بڑا سوال ہے، پاکستان میں محدود آمدنی والے طبقات کےلئے بہت بڑا عذاب ہے جو کہ لوئر مڈل کلاس کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے جبکہ دوسرے شعبوں ، کاروباروں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے اپنے اجرتوں اور منافعوں میں اضافہ کر کے اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں حالیہ مہنگائی کی لہر کی وجہ سے ملک کے مزید 50لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائینگے ، عوام حکومت کو اس لےے ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیتیں فراہم کرے اور اس کے ساتھ اپنے آخراجات بھی پورے کرے ، اگر کوئی پروائیوٹ ادارہ خدمات فراہم نہیں کرتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ لین دین بند کر لیتے ہیں جس سے اس کی آمدنی میں کمی ہوتی ہے ، اسی طرح حکومت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، شہریوں کی جان کی حفاظت ، انہیں صحت و صفائی اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا ، پراپرٹی رائٹس کی حفاظت وغیرہ شامل ہیںاور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والی مقامی حکومتیں ہی موجود نہیں ہیں جو کہ مقامی مسائل کے بارے میں حاصہ علم رکھتی ہیں اور مقامی سطح پر حل کر سکتی ہیںاگر کوئی حکومت درست طریقے سے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہی تو اس کو عوام شوق سے ٹیکس نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس درست مندرجات پر خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس کو ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے کرپشن کی نظر کر دیا جائے گا یہاں پر عوام خود ٹیکس کےلئے تیار نہیں ہوتے تو ان سے بلاوسطہ ٹیکسوں کے ذریعے وصولی کی جاتی ہے جس کو بلا تفریق ہر شہری سے وصول کیا جاتا ہے اس کے تحت غریب عوام اپنی آمدنیوں کے تناسب سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ آمیر طبقات اپنی آمدنیوں کی مالیت سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں کئی تو کروڑوں ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے ہیں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے بقول امیر طبقات ٹیکس نہیں دینا چاہتے تو ایسی صورت میں حکومت کے آخراجات اس طرح سے پورے کےے جاسکتے ہیں ہماری قومی پیدا وار میں زراعت کا 28%حصہ ہے ، باغوں اور فصلوں سے زمیندار کروڑوں کی آمدنی حاصل کرتے ہیں مگر زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتے ، وفاقی حکومت اس کی ریکوری کی ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دے کر نظر انداز کرتی ہے آج کل کے زمینداروں نے زرعی صنعت کاری کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے شہروں میں محالات تعمیر کر رہی ہیں اور کروڑوں کی گاڑیوں کے مالک ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے ہیں ایسی صورتحال ہر شہر میں چھوٹے بڑے منافع بحش کاروباروں اور پروفیشنل کے بارے میں ہے، جنہوں نے کہیں پر پرائیویٹ کلینک ، ہسپتال، بیوٹ بارلرز، ہوٹلز اور دیگر چھوٹے بڑے کاروبار شروع کر رکھے ہیں ، جہاں لاکھوں کی کمائی ہے مگر ٹیکس مد میں کچھ نہیں ادا کیا جاتا یہ لوگ نہ ہی پراپر بل جاری کرتے ہیں جس میں سیل ٹیکس کی ریکوری دیکھائی گئی ہو فرضی بلوں میں انہیں دیکھا کر انہیں اپنی جیل میں ڈال لیا جاتا ہے ، ریاست کا زور صرف غریب تنخواہ دار ملازمین پر ہی چلتا ہے یا کارپوریشن والے غریب ریڑی والے کا سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں بازاروں میں دکانداروں نے تھڑوں کو کرایہ پر دے دیا گیا ہے تو اندر لاکھوں کی سیل ہے مگر ٹیکس دینے کا کوئی تصور نہیں ہے اگر کوئی نوٹس آ بھی جاتی ہے تو مقامی اداروں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے جس سے اہلکار کی جیب گرم اور حکومتی خزانہ محروم رہ جاتا ہے ہمارے بد عنوان ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے ذاتی اختیارات کے تحت ریلیف دینے کے تحت قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے کالے دھن میں اضافہ ہوتا ہے پاکستان میں سب سے آسان کام پراپرٹی کی خریدو فروخت کا ہے جس کو کافی عرصے تک چھپایا جا سکتا ہے اس ضمن میں حکومتی اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ سب بڑ کر اس کی ڈاکو منٹیشن کرنی چاہیے اس شعبہ میں سب سے زیادہ بے نامی کام کیا گیا ہے ۔
پاکستان میں ٹیکس کے آخراجات کے استعمال کے بارے میں بد اعتمادی پائی جاتی ہے پاکستان میں ٹیکس کی وصول کی بندر بانٹ کی جاتی ہے اور اس کو اشرافیہ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے 28مئی2019میں روز نامہ نیشن کی خبر ہے کہ حکومت نے22ارب روپے ٹیکسٹائل سیکٹر کو فراہم کےے ہیں جو بالکل ٹیکس نہیں دیتا ہے ، کیونکہ اسے زیرو ریٹنگ پر رکھا گیا ہے گزشتہ ماہ بجٹ سے قبل 21.44 ارب روپے کی شوگر ملوں کو سبسڈی دی گئی ،31مئی2019کو 20ارب روپے اسٹاک ایکسچینج کے بروکر ز کو دیئے گئے تا کہ وہ حالیہ گراوٹ کا مقابلہ کر سکیں تعلیم کے بجٹ میں 71ارب کی کٹوتی سے پورے سال کی مختص رقم 87ارب روپے رہ گئی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں نئے شعبے قائم کرنا اور اساتذہ کو برتی کرنا ممکن نہیں رہا ہے ، یاد رہے دنیا تیزی سے علم کی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے آنے والے دور چوتھے انقلاب میں تعلیم اور تحقیقات کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے ہماری حکومت کی تعلیم اور جدید علوم میں پیش رفت کے حوالے سے کوئی ترجیحات نہیں ہیں ۔
پاکستان میں بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی دنیا کے کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے جبکہ دوسرے ممالک میں براہ راست انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ہم نے نئے ٹیکس گزاروں کو نیٹ ورک میں لانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ میں اضافہ کیا ہے ، ہمارے ملک میں سیمنٹ ، شوگر اور کھاد کے شعبوں میں کالٹیلز قائم ہیں جو کہ اپنی اجارہ داریوں کی وجہ سے قیمتوں کو اپنی مرضی سے بڑھا دیتے ہیں اس سے منڈی میں مقابلے کی فضا ختم ہو جاتی ہے ان شعبوں نے قیمتیں بڑھا کر زیادہ منافعیں کمائیں ہیں لہذا ان پر اضافی پرافٹ ٹیکس عائد کرنا چاہیے ، ویلتھ ٹیکس کی دوبارہ بحالی کی ضرورت ہے زیادہ جائیداد رکھنے والے مالکان کو ایک مکان پر چھوٹ جبکہ دوسروں پر ویلتھ ٹیکس لگانا چاہیے اسی طرح جائیداد کی منتقلی پر کیپٹل گین ٹیکس ، گفٹ ٹیکس اور وراثتی ٹیکس عائد کرنا چاہیے ، سب سے اہم کام ٹیکس وصولی کرنے والے اداروں میں اصلاحات کا ہے تمام مارکیٹ کے غیر جانبدارانہ سروے کرنے کی ضرورت ہے کوئی بھی کاروبار ٹیکس نیٹ ورک کے باہر نہیں رہنا چاہیے اسی طرح صوبائی حکومتوں کے ٹیکس وصولی کرنے والے محکموں کے سٹاف کی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ٹیکس کے نظام کی شفافیت ہی سے ریاستی آمدنیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں عمران خان کہتے ہیں کہ غریب عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں تو کیونکر وہ پانچ ہزار 228ارب روپے کے ٹیکس کی وصولیوں کےلئے بجٹ کا اعلان کر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکس کہاں خرچ ہونگے ان کی حکومت نے9ماہ میں اتنے زیادہ قرضے لے کر کہاں خرچ کےے ہیں اور اب جاری آخراجات کو پورا کرنے کےلئے روزانہ قرضے لےے جا رہے ہیں ۔معاشی اور صنعتی اصلاحات کا ایجنڈا کیوں پیش نہیں کیا جا رہا کاروباری اور صنعتی طبقات کے اعتماد کو کیوں بحال نہیں کیا جا رہا پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کےلئے ضروری ہے غریب عوام سے بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی کے ساتھ ساتھ کالا دھن کمانے والے امیر طبقات پر بھی ان کی آمدنیوں اور جائیدادوں کے تناسب سے ٹیکس عائد کیا جائے تا کہ ہم ریاستی وسائل میں اضافہ کر کے قرضوں کے بوجھ سے بتدریج نجات حاصل کر سکیں ملک میں خوف و ہراس کی فضا کو ختم کرنا چاہیے اور احتساب کا مقصد محض سیاسی شخصیات کو ٹارگٹ نہیں ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: افتخار بھٹہ
موجودہ بجٹ جس سیاسی محاذ آرائی اور معاشی تنزلی کی بحرانی کیفیات میں پیش کیاگیا ہے جہاں پر تمام سیکٹرز نے معاشی گرﺅتھ انتہائی سست روئی کا شکار ہے سب سے بڑا مسئلہ حکومت کو چلانا ، یوٹیلٹی اداروں کو سبسڈی دینا، قرضوں پر سود کی ادائیگی، ترقیاتی کاموں کو مکمل کروانا اس کے ساتھ صحت تعلیم اور پینے کے پانی کا فراہم کرنا انصاف کی فراہمی یو یقینی بنانا بڑھتا تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اور سب سے بڑ کر روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو روکنا شامل ہے حکومت کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے کےلئے موصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا بھی اہم ہے حکومتی اداروں کی نا اہلیت اور کرپشن کی وجہ سے سابق حکومتوں نے کبھی ٹیکس ریکوری ٹارگٹ پورے نہیں کےے ہیں جس کی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد سے خسارے کے بجٹ پیش کےے گئے ۔آخراجات کو پورا کرنے کےلئے قرضہ جات حاصل کےے گئے جن میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہونے کے ساتھ سود کی ادائیگوں کا بوجھ بھی بڑھتا رہا روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بارے میں وزےر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کےلئے کمیشن قائم کریں گے مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں روپے کی قیمت 2008سے2019کے دوران کتنی گری ہے اس لےے چھ ہزار ارب روپے کے قرضہ جات سود کی ادائیگی کےلئے لئے گئے قرضہ جات اور نئے قرضوں کے اضافہ ہونے سے 30ہزار ارب تک پہنچ گئے ہیں ، پچھلے ادوار میں عبدالحفیظ شیخ وزیر خزانہ رہے ہیں اب انہی سے ہی ان قرضوں کے استعمال کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے اس کے علاوہ حکومتی دستاویزات موجود ہیں جن میں آمدنی آخراجات اور قرضہ جات کے استعمال کے حوالے سے تفصیلات موجود ہیں وزےر اعظم کمیشن بنانے میں با اختیار ہیں اور اس میں اپنی مرضی کے اداروں سے افراد کو شامل کر سکتے ہیں یاد رہے کہ بجٹ سازی اور معاشی پالیسیاں تکنیکی نویت کی ہوتی ہیں جس کےلئے معاشی اور اکاﺅنٹس کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کو سمجھنا حاصہ پچیدہ کام ہے لہذا ان تحقیقات کا مقصد محض لوگوں کو ہراساں اور قومی خزانہ ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا پہلے ہی ہمارے ادارے خوف و ہراس کی ہیجانی کیفیات کی وجہ سے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں عوام حکومت اور اس کے اداروں میں ٹیکس ریکوری اور حکومتی پالیسی کے حوالے سے بد اعتمادی کی فضا موجود ہے
بجٹ کسی حکومت کی آئندہ سال کےلئے معاشی ترجیحات کا تعین ہوتا ہے جس سے سرمایہ کاروں ، تاجروں صنعت کاروں اور عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی ترجیحات کیا ہونگی یاد رہے قیام پاکستان کے بعد پیش ہونے والے بجٹ کبھی انقلابی یا نظام میں تبدیلی میں معاون ثابت نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے مارکیٹ میں اصلاحات کاروبار میں فروغ اور شہریوں کی سہولیات میں اضافہ ہونے کی بجائے ٹیکس کے نام پر لوٹ کھسوٹ شہریوں کو ٹیکس کے نام پر دھمکانا اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہے ۔ موجودہ بجٹ سابق بجٹوں سے زیادہ بے سمت زیادہ جابرانہ اور استحصالانہ ہے جس میں اشیائے خوردنی سے لیکر تمام اشیائے ضروریات جو کہ ملک کے 90%غریب عوام طبقات استعمال کرتے ہیں ان پر بلاواسطہ ٹیکس عائد کر دیئے ہیں جس میں آٹے تیل ، گوشت ، گھی کے علاوہ دیگر تمام چیزیں شامل ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 5%سے10%اضافہ کر کے ان پر ٹیکس لگا کر واپس لے لیا گیا ہے جس سے ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی کا حدشہ ہے دوسری طرف انہیں مہنگائی کی وجہ سے یوٹیلٹی بلز کے بڑھنے ، مکان کا کرایہ ، صحت اور تعلیم کے اضافی آخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا اس طرح پچاس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والوں کو سالانہ 41ہزار روپے زائد خرچ کرنا پڑے گا وہ ان آخراجات کا انتظام کہاں سے کرے گا یہ بڑا سوال ہے، پاکستان میں محدود آمدنی والے طبقات کےلئے بہت بڑا عذاب ہے جو کہ لوئر مڈل کلاس کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے جبکہ دوسرے شعبوں ، کاروباروں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے اپنے اجرتوں اور منافعوں میں اضافہ کر کے اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں حالیہ مہنگائی کی لہر کی وجہ سے ملک کے مزید 50لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائینگے ، عوام حکومت کو اس لےے ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیتیں فراہم کرے اور اس کے ساتھ اپنے آخراجات بھی پورے کرے ، اگر کوئی پروائیوٹ ادارہ خدمات فراہم نہیں کرتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ لین دین بند کر لیتے ہیں جس سے اس کی آمدنی میں کمی ہوتی ہے ، اسی طرح حکومت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، شہریوں کی جان کی حفاظت ، انہیں صحت و صفائی اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا ، پراپرٹی رائٹس کی حفاظت وغیرہ شامل ہیںاور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والی مقامی حکومتیں ہی موجود نہیں ہیں جو کہ مقامی مسائل کے بارے میں حاصہ علم رکھتی ہیں اور مقامی سطح پر حل کر سکتی ہیںاگر کوئی حکومت درست طریقے سے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہی تو اس کو عوام شوق سے ٹیکس نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس درست مندرجات پر خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس کو ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے کرپشن کی نظر کر دیا جائے گا یہاں پر عوام خود ٹیکس کےلئے تیار نہیں ہوتے تو ان سے بلاوسطہ ٹیکسوں کے ذریعے وصولی کی جاتی ہے جس کو بلا تفریق ہر شہری سے وصول کیا جاتا ہے اس کے تحت غریب عوام اپنی آمدنیوں کے تناسب سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ آمیر طبقات اپنی آمدنیوں کی مالیت سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں کئی تو کروڑوں ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے ہیں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے بقول امیر طبقات ٹیکس نہیں دینا چاہتے تو ایسی صورت میں حکومت کے آخراجات اس طرح سے پورے کےے جاسکتے ہیں ہماری قومی پیدا وار میں زراعت کا 28%حصہ ہے ، باغوں اور فصلوں سے زمیندار کروڑوں کی آمدنی حاصل کرتے ہیں مگر زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتے ، وفاقی حکومت اس کی ریکوری کی ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دے کر نظر انداز کرتی ہے آج کل کے زمینداروں نے زرعی صنعت کاری کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے شہروں میں محالات تعمیر کر رہی ہیں اور کروڑوں کی گاڑیوں کے مالک ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے ہیں ایسی صورتحال ہر شہر میں چھوٹے بڑے منافع بحش کاروباروں اور پروفیشنل کے بارے میں ہے، جنہوں نے کہیں پر پرائیویٹ کلینک ، ہسپتال، بیوٹ بارلرز، ہوٹلز اور دیگر چھوٹے بڑے کاروبار شروع کر رکھے ہیں ، جہاں لاکھوں کی کمائی ہے مگر ٹیکس مد میں کچھ نہیں ادا کیا جاتا یہ لوگ نہ ہی پراپر بل جاری کرتے ہیں جس میں سیل ٹیکس کی ریکوری دیکھائی گئی ہو فرضی بلوں میں انہیں دیکھا کر انہیں اپنی جیل میں ڈال لیا جاتا ہے ، ریاست کا زور صرف غریب تنخواہ دار ملازمین پر ہی چلتا ہے یا کارپوریشن والے غریب ریڑی والے کا سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں بازاروں میں دکانداروں نے تھڑوں کو کرایہ پر دے دیا گیا ہے تو اندر لاکھوں کی سیل ہے مگر ٹیکس دینے کا کوئی تصور نہیں ہے اگر کوئی نوٹس آ بھی جاتی ہے تو مقامی اداروں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے جس سے اہلکار کی جیب گرم اور حکومتی خزانہ محروم رہ جاتا ہے ہمارے بد عنوان ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے ذاتی اختیارات کے تحت ریلیف دینے کے تحت قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے کالے دھن میں اضافہ ہوتا ہے پاکستان میں سب سے آسان کام پراپرٹی کی خریدو فروخت کا ہے جس کو کافی عرصے تک چھپایا جا سکتا ہے اس ضمن میں حکومتی اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ سب بڑ کر اس کی ڈاکو منٹیشن کرنی چاہیے اس شعبہ میں سب سے زیادہ بے نامی کام کیا گیا ہے ۔
پاکستان میں ٹیکس کے آخراجات کے استعمال کے بارے میں بد اعتمادی پائی جاتی ہے پاکستان میں ٹیکس کی وصول کی بندر بانٹ کی جاتی ہے اور اس کو اشرافیہ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے 28مئی2019میں روز نامہ نیشن کی خبر ہے کہ حکومت نے22ارب روپے ٹیکسٹائل سیکٹر کو فراہم کےے ہیں جو بالکل ٹیکس نہیں دیتا ہے ، کیونکہ اسے زیرو ریٹنگ پر رکھا گیا ہے گزشتہ ماہ بجٹ سے قبل 21.44 ارب روپے کی شوگر ملوں کو سبسڈی دی گئی ،31مئی2019کو 20ارب روپے اسٹاک ایکسچینج کے بروکر ز کو دیئے گئے تا کہ وہ حالیہ گراوٹ کا مقابلہ کر سکیں تعلیم کے بجٹ میں 71ارب کی کٹوتی سے پورے سال کی مختص رقم 87ارب روپے رہ گئی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں نئے شعبے قائم کرنا اور اساتذہ کو برتی کرنا ممکن نہیں رہا ہے ، یاد رہے دنیا تیزی سے علم کی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے آنے والے دور چوتھے انقلاب میں تعلیم اور تحقیقات کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے ہماری حکومت کی تعلیم اور جدید علوم میں پیش رفت کے حوالے سے کوئی ترجیحات نہیں ہیں ۔
پاکستان میں بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی دنیا کے کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے جبکہ دوسرے ممالک میں براہ راست انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ہم نے نئے ٹیکس گزاروں کو نیٹ ورک میں لانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ میں اضافہ کیا ہے ، ہمارے ملک میں سیمنٹ ، شوگر اور کھاد کے شعبوں میں کالٹیلز قائم ہیں جو کہ اپنی اجارہ داریوں کی وجہ سے قیمتوں کو اپنی مرضی سے بڑھا دیتے ہیں اس سے منڈی میں مقابلے کی فضا ختم ہو جاتی ہے ان شعبوں نے قیمتیں بڑھا کر زیادہ منافعیں کمائیں ہیں لہذا ان پر اضافی پرافٹ ٹیکس عائد کرنا چاہیے ، ویلتھ ٹیکس کی دوبارہ بحالی کی ضرورت ہے زیادہ جائیداد رکھنے والے مالکان کو ایک مکان پر چھوٹ جبکہ دوسروں پر ویلتھ ٹیکس لگانا چاہیے اسی طرح جائیداد کی منتقلی پر کیپٹل گین ٹیکس ، گفٹ ٹیکس اور وراثتی ٹیکس عائد کرنا چاہیے ، سب سے اہم کام ٹیکس وصولی کرنے والے اداروں میں اصلاحات کا ہے تمام مارکیٹ کے غیر جانبدارانہ سروے کرنے کی ضرورت ہے کوئی بھی کاروبار ٹیکس نیٹ ورک کے باہر نہیں رہنا چاہیے اسی طرح صوبائی حکومتوں کے ٹیکس وصولی کرنے والے محکموں کے سٹاف کی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ٹیکس کے نظام کی شفافیت ہی سے ریاستی آمدنیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں عمران خان کہتے ہیں کہ غریب عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں تو کیونکر وہ پانچ ہزار 228ارب روپے کے ٹیکس کی وصولیوں کےلئے بجٹ کا اعلان کر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکس کہاں خرچ ہونگے ان کی حکومت نے9ماہ میں اتنے زیادہ قرضے لے کر کہاں خرچ کےے ہیں اور اب جاری آخراجات کو پورا کرنے کےلئے روزانہ قرضے لےے جا رہے ہیں ۔معاشی اور صنعتی اصلاحات کا ایجنڈا کیوں پیش نہیں کیا جا رہا کاروباری اور صنعتی طبقات کے اعتماد کو کیوں بحال نہیں کیا جا رہا پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کےلئے ضروری ہے غریب عوام سے بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی کے ساتھ ساتھ کالا دھن کمانے والے امیر طبقات پر بھی ان کی آمدنیوں اور جائیدادوں کے تناسب سے ٹیکس عائد کیا جائے تا کہ ہم ریاستی وسائل میں اضافہ کر کے قرضوں کے بوجھ سے بتدریج نجات حاصل کر سکیں ملک میں خوف و ہراس کی فضا کو ختم کرنا چاہیے اور احتساب کا مقصد محض سیاسی شخصیات کو ٹارگٹ نہیں ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوٹ: سٹی پریس پر شائع ہونے تمام کالم نیک نیتی سے شائع کیءجاتے ہیں کسی بھی کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا سٹی پریس کے لیے قطعاً ضروری نہیں ہے۔
ادارہا
Tags Column column-iftikhar bhutta