نالج
حنیف انجم
بچہ مزدوری غلامی کی بدترین شکل ہے
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی حالت انتہائی خستہ اور دگرگوں ہے اور یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ بچوں کے ساتھ ہونے والے رو ح فرسا واقعات سے اخبارات الیکٹرونکس میڈیا خبروں سے بھر پڑئے ہیں جبکہ ہمارئے سارے دعوں کے باوجود بچے آج بھی سڑکوں دکانوں ،ورکشاپوں میں اپنا بچپن کالا کرتے نظر آتے ہیں۔گزشتہ دنوں دنیا بھر کے ساتھ پاکستان میں بھی بچوں پر جبری مشقت کے خلاف عالمی دن یعنی (چائلڈ لیبر) منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک خصوصاً جبری مشقت کے شکار بچوں کی حالت زار کو ڈسکس کرنا اور حل پیش کرنا بتایا جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں کی حالت زار میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ آج بھی بٹھوں سے لیکر گھروں تک زلیل و خوار ہونے کے ساتھ بدترین حالتوں کا شکار ہیں۔اس دن کو منانے کا ایک اور مقصد یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ محنت کش بچوں کے مسائل کوحکومت و دیگر ذمہ داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جا سکے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)نے 12جون کو چائلڈلیبر ڈے منانے کا آغاز 2002سے کیا۔ اور یوںہر سال 12جون کودنیا بھر میں چائلڈلیبرکے خلاف دن منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد دنیا بھر میںبچوں کو محنت و مشقت سے دور کرتے ہوئے ان کیلئے تعلیم جیسی بنیادی سہولت کو یقینی بنانا اورچائلڈ لیبر سے متعلق قوانین کوسخت کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرناہے۔12جون کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائز یشن سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اس دن کے حوالے سے ہر سال چائلڈ لیبر کے خلاف سیمینار ہوتے ہیں،ریلیاں نکالی جاتی ہیں مگر یہ صرف ایک نمائشی شو کی حیثیت رکھتی ہیںکیونکہ ان چیزوں کا کوئی حاصل حصول نہیں ہو۔
پاکستان میں غربت ،بے روزگاری و مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ان کے لیے تعلیم ایک خواب ہی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ معصوم بچے بوٹ پالش کے کام سے لے کر ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ،گاڑیوں کی کنڈیکٹری،بھٹہ خانوں،سی این جی اور پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت دیگر بہت سے جبری مشقت کے کام کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان لیبر فورس کے ایک سروے کے مطابق ملک میں تقریبا سوا کروڑ بچے مزدوری کرتے ہیں۔
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کی جو قباہتیں سامنے آرہی ہیں وہ اتنی بھیانک ہیں کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جس میں انسانی شرف محفوظ ہونے کے ساتھ ان کے حقوق محفوظ ہوسکیں۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر اس لئے زور دیاجا تا ہے تا کہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔المیہ دیکھیے کہ بچوں کے حوالےس ے کوئی الگ سے وزرات نہیں جو اس سارئے معاملے کی نگرانی کر سکے اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ بچوں کے تمام امور تعلیم، صحت چائلڈ لیبر و دیگر مسائل کے حل کے لئے ایک الگ سے وزرات کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ بچوں کے حقوق محفوظ بھی ہوسکیں اور وہ قابل زکر بھی ٹھریں۔
Tags Column column-hanif anjum