وسیم بٹ
انسان کو جنگوں سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے
اس وقت عالمی سطع پر جس سب سے بڑے مسلے پر عالمی راہنماوں سے لیکر ملکوں تک توجہ دی جارہی ہے وہ ہے کلائمٹ چینج یا گلوبل وارمنگ ہے یہ سچ بھی ہے کہ اس وقت گلوبل وارمنگ جیسے سنجیدہ مسلے پر انتہائی سنجیدگی سے ہی سوچنا بھی چاہیے اور اس کا حل بھی تلاش کرنا چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین کاا وسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مختلف رپورٹ اور اعداد شمار جو ہمارے سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق پچھلے ایک سو چونتیس برس کے ریکارڈ میں سب سے گرم ترین سالوں میں سولہ گرم ترین سال موجودہ صدی کے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچھلی صدی کے درمیاں میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جسے اچھی خبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گلوبل وارمنگ کی وجوہات کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ ہماری زمین کے ماحول میں کچھ ایسی گیسز پائی جاتی ہیں جو نیم مستقل لیکن دیرپا رہتی ہیں۔ یہ گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کاربن ڈائی اکسائیڈ میتھین اور کلوروفلورو کاربن ہیں جن کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ ہوا میں ان گیسز کے اضافے کی ذمہ داری بھی کافی حد تک بھی انسانوں کے افعال پر ہی آتی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کو جلانے درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا روک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ اے سی ریفریجریٹرز وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس کلوروفلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے جو کہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے نقصانات کے بارے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ بیس برسوں میں صرف یورپ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار افراد زندگی جیسی انمول شے گنوا بیٹھے۔ ایشیا اور افریقہ میں تو حالت اس سے بھی بری ہے جہاں مرنے والوں کی تعداد زیاد تشویشناک ہے۔
اس سے ہونے والے اثرات میں موسموں کی تبدیلی، سمندر گرم ہونے سے طوفانوں میں شدت، سیلابوں میں اضافہ، جانوروں کی بقا کو خطرہ، زراعت اور فشریز کو نقصان، سمندروں کے لیول میں اضافہ اور برف کا پگھلنا شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف اینٹارٹیکا میں پچھلے پندرہ سالوں میں اوسطا ایک سو چونتیس ارب ٹن برف ہر سال پگھل رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک تیسری دنیا کے ہیں کیونکہ ان کی تیاری اس سے مقابلہ کرنے کے لئے سب سے کم ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے طویل المدت جانی اور مالی نقصان کے حوالے سے پاکستان ہائی رسک پر ہے۔
احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ،توانائی کے ہر قسم کے غیرضروری استعمال کو روکنے کے ساتھ پانی کے ضیاع کوروکا جائے ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے کئی طرح کے بحران جنم لے سکتے ہیں اور اس وقت توانائی کا ایک اچھا حصہ پانی نکالنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ اسے بچا کر نہ صرف پانی کے بحران کے حل میں مدد کی جا سکتی ہے بلکہ گلوبل وارمنگ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
گلوبل وارمنگ پر نظر رکھنے والوں کے مطابق سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماحول کو خراب کرنے میں سورج کی شعاعوں کا عمل دخل نہیں، یہ سب انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ آٹھ ہزار سال قبل انسان نے کھیتی باڑی کا آغاز کرکے فطری ماحول کو تباہ کرنا شروع کیا، مگر صنعتی ترقی کے عمل سے ہوا میں زہریلی گیسیں شامل ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ اوزون کی تہہ میں، جہاں سے سورج کی شعاعیں چھلنی ہو کر زمین تک پہنچتی ہیں، ایک وسیع شگاف کی وجہ صنعتوں اور مشینوں سے خارج ہونے والی مہلک گیسیں ہیں۔ اوزون شگاف کے باعث جب سورج سے آنے والی خطرناک شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچتی ہیں تو وہ جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ چمنیوں، فیکٹریوں اور انجنوں سے نکلنے والا دھواں فضا کو آلودہ کرتا ہے، بادلوں کے عمل کو خراب کرتا ہے جس سے ہماری فضا آلودہ رہتی ہے۔ بعض اوقات تیزابی بارشیں برستی ہیں۔ خشک سالی، قحط، آندھیاں اور سمندری طوفان آنے شروع ہوجاتے ہیں جن سے نہ صرف انسانی زندگی بلکہ جنگلی و آبی حیات کو بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کیونکہ انسانی و حیوانی زندگی کا انحصار اس کے خارجی ماحول پر ہے۔ انسانی جین کی صحت و نشوونما بھی 90 فیصد خارجی عوامل ہی کی مرہون منت ہے جبکہ اس میں صرف 10 فیصد توارث شامل ہے۔
گزشتہ 100 سال کے دوران دنیا کے دررجہ حرارت میں 0.6 درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر ماحول خراب کرنے کی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو رواں صدی کے اختتام تک 6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے نہ صرف دنیا کا نقشہ تبدیل ہوجائے گا بلکہ انسانی زندگی بھی داو¿ پر لگ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا میں سالانہ 90 لاکھ افراد کی اموات آلودگی کے سبب ہوتی ہیں جن میں دمہ، کینسر، جلدی امراض، ملیریا، نفسیاتی امراض (جن کا تعلق شور کی آلودگی سے ہے) اور جین کی صحت سے انسان کے مزاج کی تبدیلی وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے بڑا نقصان جو آئے روز دیکھنے میں آتا ہے وہ بارشوں کا نہ ہونا یا بے موقع بارشوں کا برسنا ہے، جس سے نہ صرف انسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فصلوں کی تباہی اور اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
مغربی ممالک میں حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کےلیے اقدامات بھی کرتی ہیں، وہ اپنے ایکوسسٹم یعنی قدرتی ماحول کا بڑا خیال رکھتی ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑی سڑک پر نہیں چل سکتی جب تک وہ درستگی کا سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر لے، کوڑے کو آگ لگانے پر پابندی ہے۔ گاڑیوں کے گندے تیل گٹروں میں پھینکنے پر سخت جرمانہ ہوتا ہے۔ سگریٹ یا چھوٹا موٹا کچرا سڑک پر پھینکنے پر برطانیہ میں کم از کم تیس پونڈ جرمانہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں عدالتوں میں پیشیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ عوامی مقامات، دفاتر، پارکوں اور گھر کے اندر خاندان کے ساتھ سگریٹ نو شی پر پابندی ہے۔ اپنی گاڑی میں بچوں کے ساتھ سگریٹ نوشی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے اور یہ مغربی معاشرے کی اخلاقیات کا حصہ بن گیا ہے؛ کیونکہ ساتھ بیٹھے سگریٹ نہ پینے والے پر سگریٹ کا اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا پینے والے پر۔ماحولیات کا مسئلہ مغربی حکومتوں کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے جبکہترقی پذیر معاشروں اور ملکوں میںنہ تو اس پر قانون سازی ہوتی ہے اور نہ پالیسی میکر اسے کوئی مسئلہ سمجھتے ہےں۔
دنیا تو اس مسلے سے نبٹنے کے لئے جو کچھ کر رہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا کرنا چاہیے تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کچھ کمی تو واقع ہو سکے اس کے لئے جس حد تک ممکن ہو سکے درخت لگانے چاہیں بلکہ اپنے گھروں کی منڈیروں چھتوں پر بیلیں، پودے لگانا اپنی ہابی بنا لینا چاہیے، گندگی پھیلانے سے خود بھی بچنا چاہیے بلکہ عوام میں بھی اس بات اک شعور اجاگر کرنا چاہیے کہ گھروںکچرا کچرا دانوں میں پھنکیں، ہارن بجانے کے عمل کو سخت ناپسند کرنا چاہیے اپنی گاڑیوں کو درست رکھیں تا کہ وہ دھواں نہ پھیلا سکیں پولیتھین بیگ کی جگہ کپڑے کا تھیلا استعمال کریں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہم اپنے علاقے اور ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ موسموں کی حدت اور شدت میں کمی لاسکتے ہیں۔
پاکستانی نژاد وسیم بٹ ہائڈل برگ سٹی کے ممبر اور ماحو لیاتی آلودگی تعلیم، ہیلتھ اور انسانی حقوق جیسے مسلوں پر گہری نظر رکھتے ہیں
Tags Column Waeem butt